Buy website traffic cheap


راستہ دکھائے کون؟؟

راستہ دکھائے کون؟؟
عمران امین
جتنے معیار ھیں اس دور کے سب پتھر ھیں
جتنی اقدار ھیں اس دور کی سب پتھر ھیں
سبزہ و گُل بھی ھوا اور فضا بھی پتھر
میرا الہام،ترا ذہن رسا بھی پتھر
جس طرح موسم تیزی سے بدلتے ھیں اور آجکل تو بالکل بے اعتبارے ھو گئے ھیں اسی طرح موجودہ وقت میں انسانی مزاج بھی بے اعتباری اور غیر یقینی کا شکار ھیں۔بدلتے وقت کی ساعتوں کو اب حنوط کر کے امر نہیں کیا جا سکتا۔جو آج ھے وہ کل نہیں اور جو کل ھو گا وہ بھی جلدبدلے گا۔انسانی ذہن کی سب کوششیں ناکام تھیں اور ناکام رھیں گی۔وقت کو نہ قید کیا جا سکتاھے اور نہ کوئی قد غن لگائی جا سکتی ھے۔ھاں!ان رنگین گزرتے اور بدلتے لمحوں کوجو سمجھے گا اور خود کو ان ساعتوں میں ڈھالنے میں کامیاب ھو گیا وہ سُرخُرو ھو گیا۔پچھلے کچھ عرصے سے پاکستانی قوم میں ذہن سازی اور کردارسازی کا عمل ایک ان دیکھے سفر پرتیزی سے گامزن ھے۔ذہن میں رھے کہ اس کے آغاز کے لیے کوئی پلاننگ نہیں کی گئی بلکہ وقت کے جبر نے خود ہی اس کی شروعات کیں اور اب وقت کے تقاضے اور ضروریات اس کی منزلیں متعین کر رھے ھیں۔ ”لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا“۔ہل میٹل،قطری خط،پانامہ،اقامہ،سانحہ ماڈل ٹاؤن،کیلبری فونٹ،جعلی ٹرسٹ ڈیڈ،سیریل”مجھے کیوں نکالا“،ٹی ٹی سیریز اور اب ڈیلی میل لیکس۔مسٹر ٹین پرسنٹ، سرے محل کہانی،بے نامی اکاؤنٹس،شوگر مافیا اورسندھ کارڈ۔ یہ سب کیا ھے؟۔قدرت کی طاقت اور اس کے اظہار کی نشانیاں؟۔یاد رھے کہ جبر اور جھوٹ کے سائے کبھی گھنے اورفائدہ مند نہیں ھوتے۔زمین پر چھپ کر کئے گئے گناہ،ایک وقت میں زمین کی گواہی کا شکار ہی ھوتے ھیں اور پھر آشکار ھو کر فرد یا افراد کی ذلت اور رسوائی کا ذریعہ بنتے ھیں۔اللہ اپنے نافرمانوں کی رسی دراز کر تے ہوئے اُن کو دنیا کی پھیکی مگر دل نشین لذتوں کا عادی بنا کرگونگا،بہرا اور اندھا کر دیتے ھیں۔ایسے لوگ حب مال و متاع کے ہی چکر میں اپنی حیات بسر کر تے ھوئے خسارے کا سودا کر لیتے ھیں۔کبھی دشمن کو زیر کرنے کے لیے ویڈیو سکینڈل اور کبھی لانگ مارچ اور دھرنے کی دھمکی۔دیا جب بجھنے لگتا ھے تو ایک بار اپنی ساری توانائی استعمال کر کے بھرپور روشنی دیتا ھے۔ہر ابتدا کی ایک انتہا اور ہر انتہاکی ایک ابتد اھوتی ھے۔دنیا کا واحد گناہ جہالت ھے اور صرف آگاھی کو ہی فضیلت حاصل ھے۔جس دن ہم اپنے کاہنوں کو پہچان گئے تو یقینا اُس دن سے ہمارے مسائل حل ھو نا شروع ھوجائیں گے۔جہالت کی کالی پٹی ہمارے زرخیز ذھنوں کو سیاہ کر رہی ھے۔ ہمارے محبوب لیڈروں نے اس قوم کے تاریک اور بنجر تختہ سیاہ پر آج تک جو تحریر لکھی ھے۔کیا کبھی سوچا ھے کہ وہ پاکستانی قوم کے مفاد میں لکھی گئی یاکچھ مفاد پرستوں کے مفاد میں۔کسی بھی معاشرے میں حقیقی معذور وہ ھوتے ھیں جو آنکھیں رکھتے ھیں مگر حقیقت کو نہیں دیکھتے،کان رکھتے ھیں مگر سچ سننا پسند نہیں کرتے۔ زبان رکھتے ھیں مگر سچ اور حق بات کہنے سے ڈرتے ھیں،دماغ رکھتے ھیں مگر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ھیں۔ کچھانسانی خصائل ایسے ھیں جو قوموں کوکامیابی کی طرف لے جاتے ھیں ورنہ سست اور کاھل لوگ صرف تاریخ بنتی دیکھتے ھیں جبکہ متحرک نسل آگے بڑھ کر ایک نئی تاریخ رقم کر دیتی ھے،جو نہ صرف اُن کو امر کر دیتی ھے بلکہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بن جاتی ھے۔جو لوگ صرف مشاھدے پر اکتفا کر کے بیٹھ جاتے ھیں وہ کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ھاں! مگر وہ لوگ جو محنت اور بلند ہمتی کو اپنا ااوڑھنا بچھونا بنالیتے ھیں وہ اپنا دامن کامیابیوں سے لبا لب بھر لیتے ھیں۔کہتے ھیں سیاست ایک بے رحم کھیل ھے اوریہ کھیل وہ ہی اچھا کھیل سکتا ھے جو دل میں رحم کی جگہ وحشت اور دھشت رکھتا ھو۔یہ شہر کوفہ کے تربیت یافتہ لوگوں کاایک گروہ ھے۔جو اپنے مفادات اور خُود ساختہ خُداؤں کو پوجتا ھے۔جہاں حقدار کمزور کے خلاف آپ کی گواہی ھو،ظالم اور ناحقدار کے ساتھ ساز باز ھو، خدا کو بھول کر جب نیند راس آتی ھو،سادہ لوح کو لُوٹ کرطبیعت ہشاش بشاش ھو تو سمجھ جائیں کہ کوفہ کی تربیت کا اثر ابھی باقی ھے روح میں دین حسینؓ ابھی شامل نہیں ھوا۔
یہ لوگ پاؤ ں نہیں، ذہن سے اپاہج ھیں
اُدھر چلیں گے جدھر رہنما چلاتا ھے
پاکستان کے بادشاہی نظام حکومت میں گولی سے مارنا جُرم اور بھوک سے مارنا جمہوریت کہلاتا ھے۔مزیدار بات یہ ھے کہ جو نظام کے خلاف بولے گا وہ جمہوریت کا دشمن ھو تا ھے۔وقت کے تقاضوں کو سمجھنا ھو گا۔شخصیتوں کے طلسم کدہ سے نکل کر اس ضل سبحانی کے تخت کو پاؤں تلے روند کر اب آگے بڑھنا ھے۔اس مُلک کے گونگے دستور اور اندھے فرمان کو اب بدلنا ھو گا۔ مگر کیسے؟؟ایک آدمی گدھا گاڑی پر شیشہ لے کرکہیں جا رھا تھا کہ سڑک پر کھلے گٹر کی وجہ سے اس کی گاڑی اُلٹ گئی اور شیشہ ٹوٹ گیا۔وہ غریب سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور رُونے لگا۔تھوڑی دیر میں ہی چند لوگ آکر اس کی دل جمعی کرنے لگے۔اتنے میں ایک اُدھیڑ عمرآدی نے ایک سو روپیہ کا نوٹ اُس کی ہتھیلی پر رکھ دیا اور کہا کہ اس سے اگرچہ اُس کا نقصان تو پورا نہیں ھو سکتا،مگر رکھ لو۔بزرگ کی دیکھا دیکھی باقی لوگ بھی اس کی مدد کرناشروع ھوگئے اور تھوڑی سی دیر میں شیشہ کی قیمت پوری ھو گئی۔اس ریڑھی والے نے سب کا شکریہ ادا کیا تو سب یک زبان ھو کر بولے”شکریہ! اُن بزرگ کا ادا کرو جنہوں نے ہمیں یہ راہ دکھائی اور پھر چُپکے سے نکل گئے“۔یہ حقیقت ھے کہ سب لوگ ہی نیک کام کرنا چاھتے ھیں۔لیکن سوال یہ ھے کہ اب”پہلا قدم بڑھائے کون؟“۔”راستہ دکھائے کون؟“۔۔۔آئیے ہم سب مل کر پہلا قطرہ بنیں۔۔۔پہلا قدم اُٹھائیں۔۔
ریت سے بُت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار
ایک لمحے کو ٹھہر،میں تجھے پتھر لا دوں
میں ترے سامنے انبار لگا دوں لیکن
کون سے رنگ کاپتھر ترے کام آئے گا؟؟؟؟