Buy website traffic cheap


یہ”انقلاب“ ہے یا ”عذاب“…!!

یہ”انقلاب“ ہے یا ”عذاب“…!!
عرفان مصطفیٰ صحرائی
کسی ملک کے مستقبل کے لئے اعلیٰ معیار تعلیم،صلاحیت سازی اور ہنر مندی اہم ہوتے ہیں۔تعلیم انسان کا حق ہے،جسے کوئی اس سے نہیں چھین سکتا۔یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے۔یوں تو اسلام میں تعلیم کو فرض کیا گیا ہے۔لیکن آج کے اس پر آ شوب اور تیز ترین دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کا حامل ہے۔بین الاقوامی ادارے لیگاٹم انسٹی ٹیوٹ نے خوشحال ملکوں کی فہرست جاری کی ہے،جس کے مطابق پاکستان کا نمبر 109بنتا ہے۔بھارت 88اوربنگلہ دیش 96 نمبر پر ہے۔اس سے پاکستان کی اقتصادی اور معاشی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں حقیقی مسائل کو حل کرنے کی بجائے،نئے گھمبیر مسائل پیدا کر دیئے جاتے ہیں۔حکومتیں قرضوں کی مد میں رقوم حاصل کرتی ہیں کہ مسائل حل کیے جائیں گے،مگر ان کا استعمال نئے مسائل پیدا کرنے میں ہوتا رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں مسائل زیادہ ہیں۔لیکن دنیا میں بہت سے ممالک ایسے تھے جو ہم سے بھی زیادہ بری حالت سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے۔انہوں نے سب سے پہلے مسائل کے بنیادی حل نکالے۔یعنی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دی۔اگر تعلیم ہو گی تو انصاف بھی ہو گا۔لیکن حکومت کیا کر رہی ہے…؟وفاقی حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے بجٹ میں تقریباً 50فیصد کمی کر دی ہے۔ایچ ای سی کے بجٹ میں 45ارب روپے کی کٹوتی سے ملک کی 117سرکاری جامعات معاشی بحران کا شکار ہو جائیں گی۔پہلے ہی ایچ ای سی نے چھ بڑے ریسرچ پراجیکٹس بند کر دیے ہیں۔پی ٹی آئی کی حکومت جو تعلیم کے فروغ میں انقلاب لانے کی دعوے دار تھی۔ان کی جانب سے تعلیمی بجٹ میں کمی کرنا قابل تشویش ہے۔
عمران خان کو نجانے کیوں لگتا ہے کہ بھیک سے ہی حالات بدل سکتے ہیں،مانگنے اور چندہ اکٹھا کرنے کی ایسی عادت پڑی ہے کہ وہ ہر کام کو چندے سے پورا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اسی لئے ان کی حکومت نے سرکاری یونیورسٹیوں کو بھی چندے سے چلانے کی پلاننگ کر لی ہے۔تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو فارغ التحصیل مخیر طلباء و طالبات سے چندہ جمع کرنے کی ترغیب دے دی ہے۔عمران خان کو کون سمجھائے گا کہ تعلیم جیسے بنیادی مسئلے کو خیراتی فنڈ سے حل نہیں کیا جاسکتا۔
اعلیٰ تعلیم میں کٹوتی کا مطلب اعلیٰ تعلیم میں بڑے پیمانے پرکمی ہے۔معیار اور تعلیمی سرگرمیوں کی تعداد میں بھی بہت زیادہ کمی ہونا ہے۔یہ بات تو واضح ہے کہ بجٹ میں کمی کے بعد کوئی نیا پروگرام شروع نہیں ہو گا،بلکہ پہلے جاری پروگرام بھی بند ہو جائیں گے۔نئی یونیورسٹیاں کیا کھولنی ہیں،پرانی بھی بند ہو جائیں گی۔بیرون ملک کانفرنسوں اور ورکشاپس کے لئے دی جانے والی سفری گرانٹس تو وفاقی اور صوبائی ہائرایجوکیشن کمیشنز پہلے ہی بند کر چکے ہیں۔دلیری اور ڈھٹائی یہ ہے کہ ان مسائل کو فرسودہ نظام یا ماضی کی حکومتوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔
کنٹینر پر کھڑے عمران خان کے تعلیم کے فروغ کے حوالے سے دعوے سنیں،جلسوں میں تعلیم کی اہمیت پر لیکچر دینا۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کی حکومتوں پر ہدف تنقید کرتے تھکتے نہیں تھے۔لیکن جب خود اقتدار سنبھالا،حکومت سال ہونے کو ہے،ان کی کوئی تعلیمی پالیسی وضع نہیں ہو سکی ہے۔ویسے تو تحریک انصاف حکومت کی ہر معاملے میں بے سمتی صاف نظر آتی ہے،مگر تعلیم کے حوالے سے مجرمانہ غفلتیں کی جارہی ہیں۔ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔پنجاب کو جن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے،اس سے بڑی دشمنی اور کیا ہو گی۔عمران خان اپنے آپ کو ”خان“کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔کیا یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا اور فاٹا والوں کی زیادہ فکر کھائے جا رہی ہے اور پنجاب جیسا بڑا صوبہ نا اہل کابینہ کے سپرد کر دیا ہے۔جس پنجاب نے انہیں اقتدار کی کرسی پر بٹھایا ہے۔پنجاب کی درجن بھر جامعات مستقل سربراہان کے بغیر کام کر ر ہی ہیں۔پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کا سربراہ تک مقرر نہیں ہو سکا ہے۔مسلم لیگ(ن) کو برا بھلا کہتے ہوئے سوچ لیا کریں کہ وہ کتنی بھی بری تھی،مگر پنجاب دشمن نہیں تھی۔ان کے دور میں وزیر اعظم فیس پروگرام کے تحت بلوچستان،فاٹا اور دیگر دور دراز علاقوں کے طالب علموں کی فیس ادا کی جاتی تھی۔جسے آپ بند کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
نیا پاکستان میں انقلاب برپا کرنے کے دعوے داروں کو لوگ سمجھ پانے سے قاصر ہیں کہ واقعی کوئی ”انقلاب“ ہے یا ”عذاب“۔پاکستانی عوام چین و سکون کی زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہے۔کیونکہ یہ زندگی ان سے کہیں دور چلی گئی تھی۔فرسودہ نظام کے تحت چلتے ہوئے کئی برس بیت گئے،یہ نظام اب بھی برقرار ہے۔پہلے بھی اس نظام میں وہ سکون سے تھے جنہوں نے ایک خاص قسم کے نظریہ کو بغیر غور فکر کے قبول کر رکھا تھا۔پھر وقت نے کروٹ بدلی اور امید دلائی گئی کہ یہ نظام بری طرح خراب ہے۔جب تک اسے تبدیل نہیں کیا جائے گا۔تبدیلی نہیں آئے گی۔اس بیانیے کو لے کر عوام سے جھوٹ پر جھوٹ بولا گیا۔ہر مسئلے کی نئی نئی تعریفیں گڑھی گئیں۔ بڑے بڑے خواب دکھانے والے عمران خان اصل مسائل سے گریزاں،ہر ناکامی کے لئے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو ذمہ دار ٹھہرانے پر زور،پہلے لوگ انہیں مسیحا سمجھتے تھے۔عوام میں انہیں اپنا سب سے بڑا نمائندہ مانا جاتا تھا۔ملک کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانا والا سمجھا جاتا تھا۔اس کے برعکس اب وہ صرف ایک سیاست داں ہیں جو اپنے تمام وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔فوج اور میاں نواز شریف کی کشیدگی سے فائدہ اٹھانے والے عمران خان۔بغیر ٹیم کپتان کے پنجاب حکومت کیا کامیابی حاصل کرے گی۔آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے 700ارب روپے کا ٹیکس پلان مانگا ہے اور پاکستان اضافی ٹیکسز لگانے پر راضی ہو گیا ہے۔عالمی مالیاتی ادارہ ایف بی آر کا ٹارگٹ 5200ارب روپے سے زائد مقرر کیا ہے۔حکومت نے بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنے کی آئی ایم ایف کی شرائط مان لی ہیں۔بجلی اور گیس کی مد میں 340ارب روپے تین سال میں صارفین کی جیبوں سے نکالے جائیں گے۔نیپرا اور اوگرا کو بجلی اور گیس کی قیمتوں کے تعین کے لئے خود مختار بنانے پر رضا مند ہو چکے ہیں۔سب کے لئے سبسڈی ختم کر دی گئی ہے۔
ملکی بجٹ میں ہر معاملے پر چھیڑ چھاڑ کرنا فرض سمجھا جاتا ہے،مگر دفاعی بجٹ میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جا تی۔جو کہ ایک اچھی بات ہے،کیونکہ ملکی دفاع بہت ضروری ہے۔لیکن تعلیم بھی قوموں کی بقا اور دفاع کا معاملہ ہی ہوتا ہے۔اس پر اتنی ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے جتنی ملکی دفاع کی اہمیت پر ہے۔ہمارے تعلیمی بجٹ میں بہت زیادہ اضافے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی قوم کی بقاء ہے۔