Buy website traffic cheap


جائیں تو آخر کہاں جائیں؟

جائیں تو آخر کہاں جائیں؟
عرفان مصطفٰی صحرائی
مولا علیؓکا قولِ مبارک ہے کہ ”مصیبت میں گھبراہٹ مصیبت سے بڑی مصیبت ہے“۔کامیاب لیڈر کے اندر سب سے اہم خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مصیبت کو غیر ضروری طور پر بڑھاتا نہیں ہے۔اس میں شک نہیں کہ سیاست دانوں کے لئے سیاست میں گرمی مرغوب غذا ہے،سیاسی گولا باری خوشی دیتی ہے۔ انہیں امن وسکون فیور نہیں کرتا۔یہ ہمیشہ سیاسی افراتفری کے خواہش مند رہتے ہیں،مگر قومی لیڈر ایسی سوچ سے مبرا ہوتا ہے۔وہ ایسے حربوں سے ہمیشہ اجتناب کرتا ہے۔ملک میں سیاسی استحکام کی فضا بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے آج ہمارے پاس کوئی قومی لیڈر موجود نہیں۔عمران خان چند طاقتوں کے کٹھ پتلی ہیں۔یہاں شور شرابہ ہو یا ہنگامہ آرائی،بدتہذیبی ہو یا دھکم پیل،جمہوریت جائے یا ملک وقوم کا نقصان ہو،انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ان کے ساتھی جو شاید سہانے خواب سجائے اپنی پارٹیاں چھوڑ کر پی ٹی آئی میں آئے تھے۔انہیں وہ کچھ نہیں مل رہا،جن کی انہیں توقع تھی۔ان کے پاس اپنی عقل پر ماتم کرنے کے سوا کچھ باقی نہیں بچا۔
حکومت مطمئن ہے کہ بجٹ پاس کروا لیا جائے گا۔یہ سب جانتے ہیں کہ بجٹ بڑے آرام سے پاس ہو جانا ہے۔کیونکہ حکومت اور حزب اختلاف اپنے اپنے کام کرنے میں مصروف ہیں۔لیکن حکومت نے بجٹ پیش کر کے عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے۔ویسے تو مہنگائی کا بم بجٹ کے اعلان کے ساتھ گر چکا ہے،مگر بجٹ پاس ہونے کے بعد جو مہنگائی کی سونامی آ رہی ہے۔وہ عوام کی گردن توڑ کر رکھ دے گی۔ عمران خان نے اپنے اقتدار کے بدلے میں عوام سے بہت بڑی قیمت وصول کی ہے۔آج بھی ملک کی دولت لوٹنے والے عمران خان کے اردگرد بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں۔ملک بہتری کی بجائے ابتر صورت حال سے گزر رہا ہے۔
عمران خان کو یہاں تک پہنچانے کے لئے اتنی محنت کی گئی کہمیڈیااوراداروں کو استعمال کر کے بڑی سیاسی قیادت کو عبرت کا نشان بنا دیا۔معلوم نہیں کیسے تھنک ٹینک کے منصوبہ ساز ہیں،جنہیں ایک شخص کی صلاحیتوں کو پرکھنے کی بھی اہلیت نہیں ہے۔عمران خان کے آنے سے ڈالروں کی بارش ہونی تھی،مگر ایسا کچھ نہیں ہوابلکہ آئی ایم ایف کی چوکٹھ پر سر رگڑ رگڑ کر چھ ارب ڈالر کا قرض انہی کی تمام تر شرائط پر لیا گیا۔اچھا خاصا ترقی کی جانب چلتے ملک کو بربادی کی جانب دھکیل دیا گیا۔جس ملک میں وزیر اعظم کی کوئی شنوائی نہ ہو،معاشی حالات بہتر کیسے ہوں گے،جب وزیر اعظم اور کیبنٹ کے فیصلوں کی اہمیت نہ ہو،پارلیمنٹ ایک دوسرے پر الزامات اور گالی گلوچ کا پلیٹ فارم بن جائے،ملکی معاملات کہیں اور سے چل رہے ہوں،گورنر اسٹیٹ بینک وزیر اعظم کی نہ سنتاہو،بیرونی قرضے ملک کی تاریخ میں بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہوں۔وہاں حالات ابتر ہوں گے۔
اب وزیر اعظم نے خواب دیکھا ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں لئے گئے قرضوں کی جانچ پڑتال کی جائے۔ضرور کریں،مگر ان قرضوں سے بہت سے کام ہوئے ہیں،5برسوں میں 12ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداوار ہوئی،موٹرویز،گوادر پورٹ اور بے شمار ترقیاتی پروجیکٹس مکمل کئے گئے۔جو پروجیکٹ مکمل ہونے کے قریب تھے، مگر کیا ہوا؟ آخری تین ماہ میں حکومت کو ترقیاتی بجٹ استعمال کرنے سے روک دیا گیاتھا ۔جس کی وجہ سے بہت سے ترقیاتی منصوبے ادھورے رہ گئے،جنہیں پی ٹی آئی کی نااہلی کی وجہ سے مکمل نہیں کیا جا سکا۔لیکن صرف دس سالوں کے قرضوں کی تحقیق کیوں؟مشرف حکومت کو کولیشن سپورٹ میں ملنے والے 33ارب ڈالرکا حساب کون لے گا؟
آج گیارہ ماہ کی عمرانی حکومت میں کرنسی 35فیصد نہیں گری…سرمایہ کاری پچھتر فیصد کم ہوئی..کوئی ایک نیا پروجیکٹ شروع نہیں ہوا..مہنگائی نے عام صارفین کی قوت خرید ختم کر دی ہے..تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں سرد پڑ چکی ہیں۔لیکن آپ کو اس صورت حال کا بالکل ادراک نہیں اور کھلنڈرے اور لاابالی بدمعاش کی طرح سیاسی مخالفین اور ہر شعبے میں کام کرنے والے کو ڈرا دھمکا رہے ہوں۔احتساب مقصد نہیں بلکہ انتقامی روش پر کاربند ہوں۔اس سے وزیر اعظم کی اپنی دلی تسکین تو شائد ہو جائے، مگر ملک وعوام کا کوئی بھلا نہیں ہو گا۔احتساب اور تفتیش اداروں اور عدالتوں کا کام ہے۔یہ پچھلی حکومتوں سے پوچھ رہے ہیں،مگر اپنے گیارہ مہینے کی کارکردگی کے بارے میں شور شرابا کر کے اپنے احتساب سے نکل جاتے ہیں۔کسی بھی سوال کے جواب میں حکومت کے ہر ممبر کے پاس ایک ہی جواب ہے کہ پرانے قرضے واپس کر رہے ہیں۔اب تک کتنے قرضے واپس کر دیئے ہیں۔لیکن عمران خان نے خود کہا تھا کہ وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں ایک ایک دن کا حساب دینا ہو گا۔انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہفتہ میں ایک دن مجھ سے کوئی بھی ممبر پارلیمنٹ کسی قسم کا سوال کر سکتا ہے،کیونکہ وہ ممبر عوامی نمائندہ ہے اس لئے وزیر اعظم جواب دینے کا پابند ہے،مگر کیا ایسا ہوا؟جواب ہے نہیں۔
عمران خان کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف کی مثال سامنے ہے۔اقتدار ہمیشہ کسی کا نہیں رہتا،بڑے بڑے فرعونوں کا غرور خاک میں مل گیا۔عوام کو بھی اپنی غلطی سدھارنے کے لئے عقل سے کام لینا چاہیے۔یاد رہے کہ ہمارے ملک کی تاریخ رہی ہے کہ جب بھی کوئی اقتدار سے الگ ہوا وہ امیر ترین ہوا ہے۔عمران خان نے بھی اقتدار کے بعد پاکستانی سرزمین چھوڑ دینی ہے اور امیر ترین شخص بن کر سامنے آنا ہے۔آج یہ دودھ میں دھلا لیڈر ہے، مگر کل اس میں کیڑے نکالنے اور بُرا بھلا کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔حزب اختلاف کو اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔سیاست میں مشکلات آتی ہیں، قیدو بند سیاست کا ایک حصہ ہے۔اپوزیشن عوام کے درد کو لے کر درست نیت سے تحریک کا آغاز کرے۔یہی اپوزیشن کا حقیقی کردار ہے۔اگر ایسا کیا گیا تو حکومت گھبراہٹ کا شکار ہے۔یہ ایک جھٹکے سے زیادہ مضبوط ہر گز نہیں ہے۔