Buy website traffic cheap

Latest Column , Kehkashan Aslam, Kashmir

کشمیر سے ہمارا رشتہ کیا لا الہ الا اللہ

کشمیر سے ہمارا رشتہ کیا لا الہ الا اللہ
کہکشاں اسلم

تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے, گزرے ماہ و سال کے کیلنڈر میں ہر دن کو کسی نہ کسی حوالے سے منسوب کیا گیا ہے -پاک سر زمین کے باسی ہونے کی وجہ سے ہم بس نام کی حد تک کچھ تاریخی دنوں کی یاد تازہ کرنے کی رسم بھرمِ دنیا کی خاطر کر گزرتے ہیں (اس رسم کے درِ پردہ ان اغراض و مقاصد کو سمجھے, پرکھے بغیر ہی ) اگر تاریخ کے اوراق سے چھیڑ کھانی کی جائے تو ہم پہ حقیقت واضح ہو جائے گی- گلوبلائزیشن کی چکا چوند دنیا منفاقت کے بھیس میں پتا نہیں کیا کیا اُگل رہی ہے اور ہم اپنے سوئے ضمیر کے ساتھ بدمست ہاتھی بنے دکھاوے کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں –
اب بھی تاریخ کا پہیہ گھوم کر آخر اس دن تک آ گیا ہے جس دن کو”یومِ یکجہتی کشمیر” سے منسوب کیا جاتا ہے (کبھی سوچا ہم کس ڈگر پر چل رہے ہیں کونسی روش اختیار کیے ہوئے ہیں؟؟؟
ہماری آپسی یکجہتی تو خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے اور ہم سوچنے,سمجھنے سے عاری من الحیث القوم نام نہاد روشن خیالی کے کھوکھلے دعوے دار بنے ہوئے ہیں)ہم سوچ بھی کیسے سکتے ہیں؟کیونکہ ہم نے اپنا آپ گروی رکھوایا ہوا ہے جسے بس دوسروں کے اشاروں پہ ناچنا آتا ہے اور کچھ نہیں.
آج کے دن ہر گلی محلے, چوک چوراہے پہ کشمیر کے حق میں نعرے بازی عروج پہ ہے – پاکستان بھر میں سمینارز ہو رہے ہیں سکولز, کالجز اور یونی ورسٹیز کے طلباء ریلیاں نکال رہے ہیں – ہمارا میڈیا ہر ہر لمحے کو ٹی وی سکرین سے دکھا رہا ہے عوام بڑی پرجوش اور جذباتی ہے جیسے ابھی کے ابھی کشمیر آزاد کروا لیں گی-
یہ جذباتی قوم لکیر کی فیقر ہے انہیں جو بتا اور دکھا دیا جائے اسے ہی حق سچ سمجھ لیں گی کیونکہ عقل تو گروی رکھوائی ہوئی ہے –
قرآن پاک میں واضح کہا گیا ہے: جب کوئی شخص تمہارے پاس خبر لیکر آئے تو اس خبر کی تحقیق کر لیا کرو (یہ نا ہوں غیر مصدقہ بات پہ انجانے میں کسی کے ساتھ زیادتی کر جاؤ) لیکن ہمارا کردار اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں – آپ میں سے کوئی بھی شخص کشمیر کی اصل حقیقت سے واقف نہیں ہے ہماری واقفیت صرف ان حقائق تک ہیں جو ہمیں دوسروں کی زبانی معلوم ہوئے ہیں یا جو سالوں سے ہم سنتے آ رہے ہیں,
وہی نعرے چاروں اور گونج رہے ہیں –
کشمیر سے ہمارا رشتہ کیا لا الہ الا اللہ
کشمیر ہماری شہ رگ ہے
کشمیر کے ساتھ زیادتی ناقابلِ معافی ہے
کشمیر ہمارا ہے
کشمیر جنت نظیر ہے
کشمیر میں لہو گرم ہے
کشمیر کو آزاد کرو (اسطرح کے دیگر کئی دوسرے نعرے ہوا کی لہروں کے سنگ لہرا رہے ہیں)-
کھوکھلے نعرے لگانے سے کشمیر ہمارا نہیں ہو جائے گا
کیونکہ اصل میں ہم کشمیر کو آزاد کروانا ہی نہیں چاہتے ہماری نیتوں میں فتور ہے
ہم خود بھی دھوکے میں مبتلا ہیں اور کشمیریوں کو بھی سراسر دھوکہ دے رہے ہیں (کیا اس دنیا میں کوئی ایسی چیز ہے جو مسلم اقوام حاصل نہ کر سکیں,جب ناممکنات ہمارے آگے نہیں ٹھہر سکیں تو پھر کشمیر کی آزادی کیوں ملتوی ہے؟؟؟ اب تو ہم ایٹمی طاقت بھی حاصل کر چکے ہیں پھر بھی مزاکرات کی میز کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں)
ہمیں ایک بات رٹو طوطے کی طرح رٹوائی گئی ہے کہ تقسیم کے وقت ہم سے نا انصافی کی گئی,ریڈ کلف کی تقسیم ناانصافی کے بھیس میں چالاکی اور دھوکہ دہی پہ مشتمل تھی یہ بات بلا شبہ سو فیصد سچ ہے کیونکہ ہمیں ہندوؤں کے ساتھ انگریزوں سے بھی چھٹکارا چاہئیے تھا تو انگریز کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ ہماری جڑیں مضبوط اور توانا رہیں اور اک خوشحال مملکت کا وجود سلامت رہیں (ہندوؤں کے ساتھ مل کر اک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان میں شامل ہونے والے ملحقہ علاقے تحصیل فیروز پور اور پٹھان کوٹ بھارت کو سونپ دیے اور میلوں دور مغربی بنگال کو پاکستان میں شامل کر دیا گیا)
جب ریاستوں کے الحاق کی باری آئی تو بھارت نے بزور طاقت کشمیر پر قبضہ کرنے کا پلان بنایا اور بڑی تیزی سے پاکستان کی شہ رگ پہ پاؤں جمانے شروع کر دیے
دوسری طرف اپنی مکاری سے مغربی پاکستان کو الگ کر دیا ہے جو بنگلہ دیش کے نام سے اپنا وجود رکھتا ہے (پاکستان کیسے ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا ان حالات و واقعات کا جائزہ تاریخ کے تناظر میں نہیں بلکہ تاریخ بینی کے حصار میں مقید ہو کر لیا جائے تو بہت سی چھپی حقیقتیں ہم پہ آشکارا ہو گئیں)
اب بات کی جاتی ہے اس مسئلے پہ جو دو ممالک کا نہیں بلکہ اس خطے کی نام نہاد سپر پاورز کا مسئلہ بن چکا ہے جی ہاں سہی سمجھے آپ…. مسئلہ کشمیر جسے جان بوجھ کر اک ناممکن مسئلہ بنا دیا گیا ہے کشمیر کو متنازعہ علاقہ بنا دیا گیا جس کے دعوے دار دو ملک ہے” پاکستان اور بھارت ”
پاکستان جس بلاک کے ساتھ منسلک ہے وہ اس سپر پاور کا ہے جسے امریکہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور بھارت کا پلڑا اس سپر پاور کی طرف جھکا ہوا ہے جسے دنیا روس کے نام سے جانتی ہے-
1948ء سے 1965ء کی جنگ سے پہلے جب بھی مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی عدالت میں پیش کیا گیا ہے ایک فریق دوسرے مخالف فریق کے حق میں ویٹو کا اختیار استعمال کرتا رہا ہے (ایسا کیونکر ہوتا رہا؟؟؟ روس اور امریکہ کی اسلحہ سازی کو فروغ دینے کے لیے “طاقت ور ملک ہمیشہ کمزور ملک کی کمزوریوں اور دکھتی رگ پہ ہاتھ ڈالتا ہے- “بھارت روس کے اسلحہ اور پاکستان امریکہ کی طرف سے مہیا اسلحہ و بارود کا استعمال کرتا رہے یہ ممالک منافع حاصل کرتے رہے – اصل میں امریکہ اور روس کو دو ایسے مہرے چاہئیے تھے جو پاکستان اور بھارت کی شکل میں انہیں مل چکے تھے اور اسلحہ کی نمائش کی منڈی کشمیر کی صورت مل گء کشمیر کو مفادات کی منڈی بنا دیا گیا..جب بھی کسی سپر پاور کا جھکاؤ کسی ترقی پزیر ملک کی طرف ہوتا ہے تو در پردہ اس کا اپنا مفاد چھپا ہوا ہوتا ہے اور ظاہراً وہ ہمدردی اور خیر خواہی کا ڈھونگ رچاتی ہے-امدادی کھیپ کے بہانے امریکہ اپنا اسلحہ ہمیں مہنگے داموں فروخت کرتا رہاجو ہم کشمیر میں بھارت کے خلاف استعمال کرتے ہیں (اور ہمارے ایٹمی ہتھیاروں پہ پابندیاں لگا چھوڑی ہیں -)ہماری آنکھیں ابھی بھی بند اور ذہن و دل پہ دشمن کا قبضہ ہے…. یہ کفار کبھی بھی ہمارے خیر خواہ نہیں ہوسکتے-)
یہ تلخ حقیقت تو سپر پاور کی طرف سے ایک تھپڑ ہے اور دوسرا تھپڑ ہمارے گزشتہ معزز حکمرانِ اعلیٰ نے مارا تھا جو بہت تکلیف دہ اور رستا ہوا ناسور ہے-آئیے زرا اس کے بارے میں جانتے ہیں ہم! 1965ء کی جنگ سے کون واقف نہیں ہو گا؟؟؟ہر شخص جانتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پہ بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ جنگ ہوئی تھی اس جنگ میں بھارت کو منہ کی کھانی پڑی اور جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو روتا بلکتا اقوامِ متحدہ کے دروازے پہ جا گرا اور جنگ بندی کی منتیں, ترلے کرنے لگا – اقوامِ متحدہ بھی تاک میں تھا فوراً مدد کے لیے ٹپک پڑا – اقوامِ متحدہ کے لیے پاکستان کی فتح ہضم کرنا انا کا مسئلہ تھا سو فوراً جنگ بندی کے احکامات جاری کر دیئے گئے اور دونوں ممالک کو مزاکرات کی میز پہ گھسیٹ لیا اور” معاہدہ تاشقند ” پہ دستخط کروا لیے – ہم صرف زمینی حقائق جانتے ہیں کیونکہ ہمیں یہ ہی بتایا گیا تھا کہ معاہدہ تاشقند کی رو سے پاکستان کو جیتے ہوئے علاقے بھارت کو واپس کرنے پڑے کیونکہ اقوامِ متحدہ نے دونوں ممالک کی حد بندی وہی قائم رہنے دی جو تقسیم کے وقت تھی اور اس بات پہ مجبور کیا گیا تھا اس لیے تو ہم کہتے آ رہے ہیں کہ پاکستان جیتی ہوئی جنگ مزاکرات کی میز پہ ہار گیا-(اصل میں تبھی ہمارے حکمرانوں نے اپنی شہ رگ(کشمیر) کا بھی سودا کر لیا تھا اور ایسے کاغذ کے ٹکڑے پہ مہر لگا بیٹھے تھے جس پہ کشمیر کو تاحیات آگ کی بھٹی بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا – آج جب مسئلہ کشمیر کی بات ہوتی ہے اور پاکستان اپنے خیر خواہ اور ہمدرد امریکہ کی طرف دیکھتا ہے تو امریکہ فوراً ہی ان کاغذات کا پلندہ ہمارے منہ پہ دے مارتا ہے اور ہنستے ہوئے کہتا ہے کہ اپنے کرتوت اتنی جلدی کیسے بھول سکتے ہوں؟؟؟
(کیونکہ معاہدہِ تاشقند میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ کشمیر کے معاملے میں پاکستان کسی تیسرے فریق(بلخصوص امریکہ) سے مدد نہیں چاہے گا اور نہ ہی اسے ثالث مانے گا .کشمیر کا جب بھی فیصلہ ہو گا وہ دو ممالک(بھارت اور پاکستان) خود ہی مزاکرات کی میز پہ کر لیں گے-امریکہ اس معاملے سے بری الذمہ ہے)
اگرکسی کو میری بات سے اختلاف ہے تو جایئے زرا اصل “معاہدہِ تاشقند” کو سامنے رکھ کر پرکھئیے, ایسا ہونا ممکن ہی نہیں آج تک معاہدہ تاشقند کے اصل متن کا آدھا حصہ چھپایا گیا ہے کیونکہ ہمارے حکمران بالا جانتے ہیں اور معاہدہ تاشقند کے اصل متن کو کبھی منظر عام پہ نہیں آنے دیں گے-
ہمارے حکمران شرمسار ہونے کی بجائے آج بھی پاکستانی عوام کو دھوکے کا لالی پاپ تھما کر منافقت کی راہ پہ دوڑا رہے ہیں اور کشمیریوں کی قربانیوں کا ضیاع کر رہے ہیں کشمیر اک کٹھ پتلی ہے جسے اپنے بیگانے سبھی اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں – دشمن عناصر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے نوچ رہے ہیں.کشمیر میں نسل کشی کا کام جاری ہے, صیہونی ریاست بنانے کے منصوبہ پہ عمل درآمد جاری ہے-رہی سہی کسر بھارتی ریاست پوری کر رہا ہے -کشمیریوں سے ان کا حق خود مختاریت ہی چھین چکا ہے-وہ وقت اب دور نہیں جب کشمیر تاریخ کا حصہ بن جائے گا اور ایک تھا کشمیر کہلائے گا اور تب تک ہمارے ایٹمی ہتھیار زنگ آلود ہو جائیں گے-