Buy website traffic cheap


ڈھونڈ اب اُس کوچراغ رخِ زیبا لے کر

ڈھونڈ اب اُس کوچراغ رخِ زیبا لے کر
مہر اشتیاق احمد
دور اندیش افراد کی نگاہیں مستقبل میں زمانے کی تیز رفتاری سے رونما ہونے والے وقوعات کو با آسانی درک کر لیتی ہیں اور اُن کے کانوں کی سماعت بھی وقت کی آہٹ کو قبل از وقت محسوس کر لیتی ہیں یہ ایک فطری عمل ہے جس کا آپ مشاہدہ کر تے رہتے ہیں۔ قدرت نے یہ صلاحیت صرف انسانوں کو ہی نہیں عطاء کی بلکہ بعض جانوروں کو بھی مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کے ادراک کی بھر پو ر صلاحیت عطا کی ہے جس کا تجزیہ علم العیوان کے ماہرین نے کیا ہے لیکن انسانوں کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ وہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود غلط کو غلط اور خطرے کو خطرہ نہیں کہتے جس کی وجہ سے انسا ن ہی انسانوں پر حملے کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو خاک و خوں میں نہلا دیتے ہیں۔ پوری عالم نوع کی تاریخ میں اتنے انسان جانوروں اور درندوں نے قتل نہیں کئے ہیں۔ جتنے خود انسانوں نے قتل کئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ،صحافت اور با شعور افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سوجھ بوجھ اور فہم و فراست کی بنیاد پر انسانی دنیا کو انسانوں کے ہاتھوں لاحق خطرات سے قبل از وقت اگاہ کریں۔ جو لوگ انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں وہ کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں اور کسی بھی ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں یہ ہماری انسانی ذمہ داری ہے کہ ہم انسانی دنیا کی حفاظت کیلئے کوشاں رہیں۔ پچھلے دنوں اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی کہ اسرائیلی وزیر اعظم ”نیتن یاہو“کے پولز اور ہولو کاسٹ کے حوالے ریمارکس پر پالش وزیر اعظم ”ماتیوز موراویکی“ نے اعلیٰ سطح کے سیمینار کے لئے طے شدہ اسرائیلی کا دورہ منسوخ کر دیا۔ اسرائیلی اخبار ”ہیر ٹنر“ کے مطابق نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ پولز نے عالمی جانگ دوئم م یں نازیوں کا ساتھ دیا تھا۔ ان کے اس بیان پر پو لینڈ میں سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ واضع رہے کہ جرمن نازی نے پولینڈ پر قبضہ کیا تھا۔ تاہم پولینڈ کے دارالحکومت وارساؤ کا ماننا ہے کہ پولینڈ کے عوام نے ہولو کاسٹ میں جرمن نازیوں کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ تاہم انفرادی سطح پر کسی نے شائد ساتھ دیا ہو۔ اس حوالے سے اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیتن باہو نے ہولو کاسٹ میں تمام پولینڈ کے عوام پر یہ اعزم نہیں لگایا ان کا کہنا تھا کہ ہیرٹنر نے نیتن باہو کا بیان غلط انداز میں پیش کیا جبکہ دیگر اخبارا ت میں مختلف باتیں کی گئیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنے بیان میں پولز کا لفظ استعمال کیا تھا اور پولش عوام اور پولینڈ کو نہیں کہا تھا۔ دوطاقت ور ممالک اُس وقت آمنے سامنے جب یہ مندرجہ بالا بیان میڈیا پر نشر ہوا۔پولینڈ کے وزیر اعظم نے اسرائیلی وزیرا عظم کو اپنا بیان واپس لینے اور معافی مانگنے پر الزام لگایا۔ اُسی وقت اسرائیلی وزیراعظم نے اپنا جاری کیا ہوا بیان نہ صرف واپس لیا بلکہ پولینڈ کی عوام سے معافی بھی مانگی اورآئندہ ایسا بیان دوبارہ جاری نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کروا دی۔ یہ طاقت آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی یہ لوگ اپنے حق کی بات منوا لیتے ہیں چاہے آگے کتنی ہی بڑی طاقت کیوں نہ ہو۔ ہم میں یہ طاقت؟کہ ہم کوئی بات کسی دوسرے ملک کو تو چھوڑ و اپنے ہی ملک میں کسی دوسری جماعت سے یہ بات منوا سکیں اور معافی طلب کر سکیں اور وہ مانگ سکے؟ جھوٹ، فریب، دغابازی،مکاری اوردھو کا بازی تو ہماری ہڈیوں میں رچا ہوا ہے ہم لوگ دنیا کی منافق ترین قوم بن گئے ہیں۔
اب وہ قوم کہیں نہیں ہے
”ڈھونڈ اب اُس کوچراغ رخِ زیبا لے کر“
اگر م ایک قوم ہوتے تو کیا کالا باغ ڈیم نہ بن چکا ہوتا۔ کس کو پتہ نہیں کہ ہمارے لیے یہ ڈیم اور ہماری معیشت اور ہمارے ملک کیلئے کتنا اہم ہے؟ کبھی کسی سندھی کو گوارہ نہیں تو کبھی کسی بلوچی کو نہیں تو کبھی پنجابی کو یہ بات اچھی نہیں لگتی۔ ہم لوگ جو 1947ء میں قومیت تھی اب وہ کہاں ہے؟ اب تو صوبائیت ہے اور ذاتی مفادات ہیں ہم کسی دوسرے کو کیسے غلط بات کہنے سے روک سکتے ہیں؟ ہم لوگ تو خود لاکھوں کے قرضے معاف کر وا رہے ہیں۔ اور ملکی وسائل پر قابض ہو چکے ہیں۔
یہ ماہی جینے کے لچھن تو نہیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
Do you Have A Right
To Be A Free Nation
”سارہ نیتن یاہو“ اسرائیلی کی خاتون اول ہے اس کے خاوند”نیتن یاہو“چوتھی بار وزیراعظم بنا ہے۔ اس کی سیاسی جماعت لکڈ (Liked)اسرائیلی کی سب سے مقبول جماعت ہے۔ دیکھا جائے تو انتظامی سطح پر نیتن یاہو اپ نے ملک کا مردِ آہن ہے۔ یہ بھی طے شدہ سچ ہے کہ دنیا کا سب سے مضبوط اور طاقتور حکمران ہے۔ امریکہ کا صدر بھی بہت حد تک اس کے سامنے کم حیثیت ہے۔ سعودی عرب کا بادشاہ اور ولی عہد تک اس سے ملتے رہتے ہیں۔ اُردن میں ہونے والی ان ملا قاتوں کو کسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا،۔ اس میٹنگ کا ذکر تک نہ ہو گا۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کا بادشاہ اور شاہی خاندان اپنا تسلط بر قرار رکھنے کیلئے اسرائیلی وزیر اعظم کی خوشنودی حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں اور بظاہر کامیاب بھی ہیں۔ ہمارے جیسے ممالک کے لیے تو سعودی عرب کا شہنشاہ ”خادم حرمین“ ہے۔ مگر مضبوط اور طاقتور ممالک کے سامنے اس کی رتی برابر بھی اہمیت نہیں۔ عرض کرنے کا مقصد انتہائی سادہ ہے کسی بھی زاویہ سے پرکھ لیجئے۔نیتن یاہو دنیا کا طاقتور ترین سیاست دان ہے۔ مگر عجیب یہ ہے کہ اپنے ملک یعنی اسرائیل میں ”نظام انصاف“کے سامنے وہ بے بس ہے۔ وہ شخص جیسے کسی بھی امریکی صدر سے ملنے کیلئے کسی خاص تر دو کی ضرورت نہیں۔ اپنے ملک میں معمولی سے سرکاری اہلکار کے سامنے ایک ٹانگ پر کھڑا نظر آتا ہے
سارہ نیتن یاہو کافی عرصے سے اپنے ملک کی عدالتوں میں زیر عتاب ہیں۔ چند برس پہلے وزیر اعظم ہاؤس کے چھوٹے سے ملازم نے عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا کہ سارہ نے اس کے ساتھ بد تمیزی کی ہے اور کر ختگی سے کام لیتے ہوئے کمرے سے باہر نکالنے کا حکم دیا ہے۔کافی دیر تک تو برداشت کرتا رہا۔مجبور ہو کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔وزیر اعظم کی بیوی عدالت کے سامنے دفاع کرنے میں ناکام رہی کیونکہ وزیر اعظم ہاؤس کا کوئی ملازم بھی یہ جھوٹ بولنے کیلئے تیار نہیں تھا کہ وہ ایک بد تمیز عورت نہیں ہے۔ اپنی عزت بچانے کیلئے اُس عورت نے اس ملازم سے معافی مانگی اور پھر اسے چالیس ہزار ڈالر بطور جرمانہ اداک ئے۔ یہ کوئی زیادہ دور کی بات نہیں 2016ء کا واقعہ ہے مگر تین ماہ پہلے اسی عورت پر ایک نیا مقدمہ دائر کیاگیا ہے۔ سارہ نیتن یاہو کھانے پینے کی شوقین عورت ہے۔ سرکاری رہائش گاہ کا شیف موجود ہے۔ مگر اس کے ہاتھ کے بنائے ہوئے کھانے میں وہ لذت نہیں جو بیگم صاحبہ کو پسند آئے۔وزیر اعظم سے کئی بار فرمائش کی کہ سرکاری اسٹاف میں کوئی نیا شیف رکھ لیں۔مگر دنیا کے مضبوط ترین آدمی کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنے گھر میں ایک ملازم کو نکال دے یا اسکی جگہ دوسرا بہتر باورچی تعینات کر دے۔(جاری ہے)