Buy website traffic cheap


99 فیصد طبقے کی”فریاد“ کون سنے گا۔۔۔؟

99 فیصد طبقے کی”فریاد“ کون سنے گا۔۔۔؟
مرزارضوان
بلاشبہ وطن عزیز پاکستان پر حکمرانی کرنیوالوں نے عوام کے ساتھ نہ پورے کئے جانیوالے وعدوں اور جھوٹ، دھوکہ دہی اور فراڈ کی سیاست کو فروغ دیاہے۔ عوامی طاقت ”ووٹ“کے بل بوتے پر ”ایوان اقتدار“تک پہنچنے والوں نے مُڑ کر کبھی عوام خبر گیری نہیں کی۔ لیکن جب بھی الیکن مہم میں یہ لوگ عوام کے درمیان آئے تو پھر سبز باغ دکھانے اور وعدوں سمیت عوامی خدمت کے بلند و بانگ دعووں کی بنیاد پر عوام کو بیوقوف بنا کر چلتے بنے۔ اسی عوام کے ”ووٹ“پر منتخب ہو کر حکمران جماعت کے وزیراعظم نے اگر کچھ خدمات سرانجام دے بھی دیں تو اس میں کمال کیا بات ہوسکتی ہے۔کیونکہ عوام نے ان کو منتخب ہی اس وجہ سے کیا کہ وہ ایوان میں پہنچ کر عوام کی مکمل ترجمانی کرتے ہوئے ان کو ریلیف دینے میں کوئی کارہائے نمایاں سرانجام دے سکیں گے۔مگر پھر مہنگائی اور بے جاٹیکسوں نے عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ عوام نے ہر دفعہ یہی فیصلہ کیا کہ اب کے بار وہ انتہائی مخلص، محب وطن اور عملی طور پر ان کے دکھوں کا مداواہ کرنے والے کوہی ”ووٹ“دیکر اپنے روشن مستبقل کا فیصلہ کریں گے لیکن ایوان اقتدار میں پہنچنے کے بعد عوام کو ہمیشہ کی طرح مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ہماری عوام بہت جلد بھول جاتی ہے کہ ان کے ساتھ ناانصافی کرنے والے ایک پھر سے ان سے ”ووٹ“مانگنے آرہے ہیں اور وہ سب کچھ بھول کر انہی ”نام نہاد“خدمت گزاروں کے جلسے جلوسوں اور ان کے ”نعرے“ لگانے میں مگن ہوجاتے ہیں صرف اس امید پر کہ شاید اب یہ ”عوامی نمائندہ“ان کے لیے بہت کچھ کر گزرے گا۔ عوام کو ان کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ”امید“کے سہارے وعدوں پر یقین کرنا پڑجاتا ہے۔ جس پر وہ اپنی طاقت ”ووٹ“کے زریعے اپنا سب کچھ اسی ”خدمت گزار“کے سپرد کر دیتے ہیں۔اگر یوں کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ ”تبدیلی“کی خواہاں ”عوام“کو بہت جلد ان کی ”خدمت گزاری“دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ اور یوں ”جمہوریت“کے نام پر عوام کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ حقیقی ”تبدیلی“کی خواہاں عوام کو اپنے روشن مستقبل کی ”امید“کو شرمندہ تعبیر بنانے کیلئے ”سنجیدگی“سے سوچنے کیلئے بھی ایک مرتبہ”بیدار“ہونا ہوگا۔ اپنے آنیوالی نسلوں کو ایک مستحکم پاکستان دینے کیلئے ہمیں ”جاگنا“ہوگا۔ اس غفلت کی نیند سے جس میں ہمیں ہمارے ان ”خدمت گزاروں“نے گذشتہ کئی سالوں سے ”سُلا“دیا ہوا ہے۔ ہر پارٹی ہر حکمران اور ہر ”عوامی نمائندے“نے جس قدر ملک وقوم کی خدمت کی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ کیا یہ بچاری عوام ہر مرتبہ ان کی باتوں میں آکر ایسے حکمران اپنے سروں پر بٹھاتی رہیگی جنہوں نے اپنی ذات اپنے بچوں اور قومی خزانے سے اپنے بنک اکاؤٹوں کو بھرنے کے علاوہ ”عوامی خدمت کا کبھی سوچاہی نہیں۔ کیا ہماری عوام کا حق بس یہیں پر ختم ہوجاتا ہے جہاں وہ اپنا ”ووٹ“ان کے سپرد کردیتے ہیں۔ اور یہ ریت پاکستان کی سیاست میں پوری طرح اپنے قدم جماچکی ہے کہ نسل در نسل جس نے حکومت کرنی ہے اس نے حکومت ہی کرنی ہے اور نسل درنسل جس نے ”ووٹ“دینا ہے وہ صرف ”ووٹ“ہی دیگا۔وہ سیاست میں نہیں آسکتا اور نہ ایوان اقتدار کے دروازے کو ”کراس“کرسکتا ہے۔ چاہے وہ کوئی مزدور یا پھر ہمارے معاشرے کا ایک پڑھا لکھا باشعور فرد۔ یقینا ہمیں ”جاگنا“ہوگا اور سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ کب تک ہم جھوٹے وعدے اور سبز باغ دکھانے والوں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے۔اور کون ہمارے مسائل کی فریاد کو لیکر ”ایوان اقتدار“کے دروازے پر ”دستک“دے گا۔
محترم قارئین! گذشتہ دنوں میری ملاقات اسی عوام کے دکھوں کو خوشیوں میں بدلنے اور ان کو حقیقی ”ریلیف“دلوانے کا اپنے دل میں ”درد“رکھنے والے ایک عظیم انسان سے ہوئی۔ جس کا کہنا ہے کہ صرف ایک فیصد طبقہ ہماری عوام کو نسل درنسل ”بیوقوف“بناکر اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے میں مسلسل کامیاب ہورہاہے اور طبقہ ہے ہمارے سیاسی حکمرانوں کا۔باقی ہم 99فیصد مڈل کلاس، محنت کش اور نوجوان طبقہ ہے جو اپنا ذاتی حق حاصل کرنے سے بھی قاصرہے۔یہ عظیم انسان وطن عزیز پاکستان میں ایک ایسی عوامی اور جمہوری ”ریاست“کے قیام کا خواہاں ہے۔جہاں مواقع اور وسائل پر سب کی ”برابری“کی ”دسترس“کا اصول کاربندہو۔اور وطن عزیز میں جو کچھ ”اگتا، بنتا اور ملتا“ہو وہ بلاتفریق رنگ و نسل، زبان، صنف، ذات، برادری، قومیت، عقیدہ و فرقہ ہر ایک کی دستری میں ہو۔اس عظیم انسان کا مشن انسانی برابری پر مبنی معاشرے، دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کیلئے مڈل کلاس اور محنت کشوں کو ایک بڑی ”سیاسی پارٹی“تعمیرکرکے فراہم کرنا ہے۔ یہ محب وطن انسان وطن عزیز پاکستان میں انسانوں کو برابری کی بنیاد پر یکساں مواقع فراہم کرنے کا ”علم“اٹھائے تن تنہا میدان عمل میں اترا ہے۔ جو ملک کے قدرتی اور انسانی محنت سے پیدا کردہ ”وسائل“پر چند لوگوں کے ”کنٹرول“کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنا اور عوام کو خوشحال اور صحت مند، باوقار زندگی گزانے کیلئے موزوں زرائع آمدن کی فراہمی کو ”یقینی“بنانا چاہتاہے۔گلوکاری میں بلند پایاں مقام حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے نے اس عظیم انسان کے دل ”عوام کا درد“بھی پیدا کررکھا ہے، جو ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اپنے دل میں عوام ”حقیقی درد“رکھنے والا محب وطن یہ عظیم انسان ”جواداحمد“ملک وقوم کی حقیقی اور عملی خدمت کیلئے سیاسی تحریک ”برابری پارٹی پاکستان“کے چیئرمین بھی ہے۔ملاقات کے دوران جواد احمد سے ملکی، سیاسی اور سماجی موضوع پر خاصی گفتگو بھی جو انتہائی مختصر آپکی نظر ہے۔ جواد احمد وضاحت کرتے ہیں کہ 99فیصد کون ہیں؟ ہم جو ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز، ٹیچرز،سٹوڈنٹس، وکلاء، سائنس دان،سپاہی، صحافی،ادیب، شاعر،دانشور،آرٹسٹ،کھلاڑی، بینک ورکرز،آئی ٹی ورکرز،نیوٹرشنسٹ،نرسز، کلرک، گھریوملازم،دکاندار،کاریگر اور بجلی، پانی، گیس،صفائی، ٹرانسپورٹ، گھریلو صنعت،کنسٹرکشن،عدلیہ،صحت و تعلیم کے شعبوں،سْپرسٹوروں، دکانوں، اداروں، کانوں، فیکٹری کارخانوں،بھٹوں،ٹھیلوں، کھیتوں،سمندر میں کام کرنے والے مزدور کسان ہیں، ہم سب ہی 99 فیصد ہیں۔ تمام دولت ہماری ہی اجتماعی محنت اور سرگرمی سے پیدا ہوتی ہے۔ مگر ہم 99 فیصد ہی ہر قسم کے مسائل کا شکار ہیں۔ ہم ہی ہیں جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے صرف خواب دیکھتے ہیں۔ ہم ہی ہیں جو اپنے چھوٹے سے گھر کی صرف تمناکرتے ہیں۔ہم ہی ہیں جو نہ اپنا اور نہ اپنے خاندان کا علاج کروا سکتے ہیں۔ ہم ذہنی اور جسمانی کام کرنے والے 99فیصد! ایک فیصد کے”رحم و کرم“ پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایک فیصد کون ہیں؟ایک فیصد وہ ہیں جو سرمایہ دار، جاگیردار، موروثی سیاستدان، مافیااور الیکٹ ایبلز ہیں۔ یہی ایک فیصد گزشتہ 70 سالوں سے کبھی اقتدار میں آ کر اور کبھی ”حزب اختلاف“بن کر ہم 99فیصد کیلئے قانون سازی کرنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ یہی ایک فیصد ہیں جو ملک سے جائز اور ناجائز طریقوں سے دولت کماتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اسے بیرون ملک بھی لے جاتے ہیں اور ہم 99فیصد غربت میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ چاہے مسلم لیگ ن ہو، پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف، یہ لوگ تمام پارٹیوں میں بھاری اکثریت میں موجود ہیں اور اسی لیے یہ صرف اپنے مفادات کے لیے تمام قوانین بناتے ہیں اور ہماری یعنی 99فیصد کی نمائندگی کرنے والا اسمبلیوں میں کوئی نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کبھی کوئی جاگیردار اپنے مزارعے کیلئے، سرمایہ دار مزدور کیلئے، مالک ملازم کیلئے، زمیندار کسان اور کھیت مزدورکیلئے یعنی کیا امیرمڈل کلاس اور غریب کے لئے قانون سازی کر سکتا ہے؟ اگر آپ سوچیں تو یقینا اس کا جواب نفی میں پائیں گے۔ جواد احمد نے بتایا کہ”برابری پارٹی پاکستان“ چاہتی ہیکہ جب ساری قانون سازی پارلیمنٹ میں ہی ہوتی ہے تو ہم 99فیصد ان ایک فیصد کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی پارٹی میں کیوں نہ منظم ہوں۔ اور ان کے مد ِمقابل قومی، صوبائی،لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں حصہ لیں اور منتخب ہو کر ایسا نظام تشکیل دیں جہاں ضروریاتِ زندگی برابری کی بنیاد پر ہر ایک کی دسترس میں ہوں۔ جہاں ہر ایک کیلئے ایک جیسی مفت تعلیم، ایک جیسا مفت علاج میسرہو، جہاں ہر خاندان کا اپنا گھر ہو، جہاں دیہات میں رہنے والوں کے پاس اتنی زمین ہو کہ وہ کھیتی باڑی کر کے خوش حال زندگی گزار سکیں، جہاں کم از کم تنخواہ، بیروزگاری الاؤنس اور بڑھاپاالاؤنس 50ہزار روپے ماہوار ہو اور افراطِ زر سے منسلک ہو، ہرشعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے کیلئے کم از کم 50ہزار روپے ماہانہ آمدنی یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہو۔ جی ہاں ہم 99فیصد مل کر پرامن اور خوشحال پاکستان کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ اس سیاسی،آئینی، قانونی جدوجہد میں ہمارے ساتھ شریک ہوں۔ہم آپ کو برابری پارٹی پاکستان میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔آپ ہی ہمارے مستقبل کے لیڈرز ہیں۔ آئیں آنے والے ہر الیکشن میں حصہ لینے کی تیاری کریں اور پارٹی کی تنظیم سازی میں حصہ لیں۔آخر میں اللہ رب العزت کے حضور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ برادرم”جواد احمد“ کی مدد و رہنمائی اور مزید کامیابیوں سے ہمکنار فرمائے اور ہم 99فیصد طبقے کیلئے کارہائے نمایاں سرانجام دینے ہمت عطافرمائے۔ (آمین یارب العالمین)