Buy website traffic cheap


اندازِ جہاں بانی۔ تاریخ کے جھروکوں سے

اندازِ جہاں بانی۔ تاریخ کے جھروکوں سے
محمد اقبال عباسی
تاریخ کی کتابوں میں موجود چشم کشا واقعات نہ صرف حال کے لئے ایک سبق ہوتے ہیں بلکہ کسی بھی انسان کے لئے مشعل راہ کا کام دیتے ہیں بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ان واقعات کا کوئی خوشہ چیں ہو۔ ایسے ہی کچھ واقعات اس کالم میں جمع کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ قارئین اپنی علم کی پیاس بجھا سکیں، کہتے ہیں کہ جب سکندر نے دنیا کے اکثر علاقوں کو فتح کرنے کا ارادہ کیاتو اس کے بعض امراء نے اس عمل کی نہ صٖرف مخالفت بلکہ ہر شخص اپنے آپ کو خود مختار سمجھنے لگا تو اپنے استاد ارسطو کی خدمت میں ایک قاصد روانہ کیاتاکہ اس کے استاد محترم امراء کے اس روئیے کے بارے میں سکندر کی رہنمائی فرمائیں، جب قاصد ارسطو کی خدمت میں حاضر ہوا تو ارسطو نے کوئی جواب نہیں دیا اور قاصد کو لے کر باغ میں چلا گیا اور مالی کو حکم دیا کہ وہ تمام پرانے اور بڑے درخت جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے اور ان کی جگہ پر نئے اور چھوٹے پودے لگائے،مالی اپنے کام میں مصروف ہو گیا اوراستاد محترم نے قاصد بغیر کوئی بات کئے واپس روانہ کر دیا۔ سکندر کو بہت حیرانی ہوئی لیکن اس نے پوچھا کہ جب وہ تم سے بات کر رہے تھے تو کوئی کام کیا یا نہیں۔قاصد نے تمام واقعات بلا کم و کاست بیان کر دئے، سکندر نے اپنے استاد کے فعل کے اصل راز کو سمجھ لیا اور نافرمان امراء کو معزول کر کے ان کے بیٹوں کا تقرر کر کے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔
سلطان شمس الدین التمش خاندان غلاماں کا مشہور بادشاہ اور فرماں روا گزرا ہے۔ سلطان قطب الدین کی وفات کے بعد التمش بدایوں کے امراء اور اور اپنے لشکر کے ساتھ دہلی آیا اوور تخت سلطنت پر جلوہ گر ہو کر شمس الدین کا لقب اختیار کیا۔ سلطا ن التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ اس کی جانشین ٹھہری لیکن رضیہ سلطانہ کی ناکامی کے بعد التمش کا سب سے چھوٹے بیٹا ناصرالدین محمود کے نام سے تخت نشین ہوا اووور وزارت کا عہدہ اپنے والد کے محبوب غلام غیاث الدین بلبن کے سپرد کیا۔ مورخین بیان کرتے ہیں کہ جب ناصر الدین نے بلبن کو اپنا وزیر ااعظم مقرر کیا تو تنہائی میں لے جا کر اس سے کہا میں نے تمھیں اپنا نائب مقرر کیا ہے تم کبھی ایسا کام نہ کرنا جس سے مجھے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ اور شرمندہ ہونا پڑے۔ نظام الدین احمد اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ سلطان ناصر ہر سال اپنے ہاتھ سے قران مجید کے دو نسخے کتابت کرتا تھا ان کا جو ہدیہ ملتا تھا اس سے اپنے کھانے پینے کا سامان کرتا تھا۔ ایک بار اس کے ایک امیر نے بادشاہ کے ہاتھ لکھے ہوئے قران مجید کو معمول سے زیادہ ہدیہ پر خرید لیا، ناصر الدین محمود کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس نے حکم دیا کہ مستقبل میں اس کے لکھے ہوئے نسخے خفیہ طور پراور رائج الوقت قیمت پر ہدیہ کئے جائیں۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان ناصر الدین محمود کے گھر میں اپنی بیوی کے علاوہ کوئی کنیز یا خادمہ نہیں تھی، جو گھر کا کام کاج کرتی ملکہ وقت خود اپنے ہاتھ سے کھانا پکاتی اور برتن دھونے کے ساتھ ساتھ جھاڑو بھی لگاتی۔ ایک دن سلطان کی بیوی نے کہا “روٹی پکاتے پکاتے میرے ہاتھ سوج گئے ہیں اگر اس کام کے لئے کوئی لونڈی خرید لیں تو اس میں کوئی ہرج نہیں “تو ناصر الدین نے ملکہ کو جواب دیا “سرکاری خزانہ پر صرف رعایا کا حق ہے، مجھے اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ میں اپنے ذاتی آرام و آسائش کے لئے اس میں سے کچھ روپیہ لے کر ایک لونڈی خریدوں۔ تمھیں دنیاوی تکلیفوں پر صبر کرنا چاہئے، خدا اس کا بدلہ تمہیں آخرت میں دے گا ”
کہا جاتا ہے کہ ناصر الدین کے ایک مصاحب کا نام محمد تھا، بادشاہ اسے ہمیشہ اسی نام سے پکارتا تھا۔ ایک روز ناصر الدین نے اس مصاحب کو “تاج الدین”کہہ کر آواز دی۔ اس نے اس وقت تو بادشاہ کے حکم کی تعمیل کی لیکن بعد میں اپنے گھر چلا گیا اور تین روز تک سلطان کی خدمت میں حاضر نہ ہوا۔ ناصر الدین نے اس ملازم کو طلب کیا اور اس کی غیر حاضری کی وجہ دریافت کی تو وہ گویا ہوا”آپ ہمیشہ مجھے محمد کے نام سے مخاطب کرتے تھے، لیکن اس دن آپ نے خلاف معمول تاج الدین کہہ کر بلایا تو میں نے سوچا شاید آپ کے دل میں میری طرف سے کوئی بدگمانی پیدا ہوگئی ہے، اس وجہ سے میں تین روز تک آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا۔ بادشاہ نے قسم کھا کر کہا “میں ہرگز تم سے بدگمان نہیں ہوں لیکن میں نے جس وقت تم کو تاج الدین کے نام سے پکارا تھا اس وقت میں با وضو نہیں تھا مجھے یہ مناسب نہ لگا کہ بغیر وضو اس خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کا نام اپنی زبان پر لاؤں ”
چلتے چلتے سلطان غیاث الدین بلبن کی انصاف پسندی کا بھی ذکر ہوجائے مورّخ لکھتا ہے کہ بدایوں کے صوبہ دار ملک نعیق ایک فراش کو اس قدر درّ ے مارے کہ وہ بیچارا مر گیا، اس کے کچھ عرصہ بعد بلبن بدایوں گیا تو اس مرحوم فراش کی بیوہ فریاد لے کر سلطان کے دربار میں حاضر ہوئی، بلبن نے واقعہ کی تصدیق کے بعد حکم دیا کہ امیر نعیق کو بھی اتنے درّ ے لگائے جائیں جتنے فراش کو لگے تھے تاکہ اس کا حشر بھی ویسا ہی ہو، بلبن کے حکم کی تعمیل ہوئی اور اہل شہر نے دیکھا کہ ملک نعیق کی لاش اس شہر کے دروازے پر لٹکا دی گئی۔ اس طرح کا ایک اور واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ بلبن کے ایک معتبر غلام ہیبت خان نے، جو اودھ کا حاکم تھا سرمستی کے عالم میں ایک شخص کو ہلاک کر دیا، مقتول کی بیوی شکایت لے کر سلطان کے پاس آئی، غیاث الدین نے پہلے تو ہیبت خان کو پانچ سو درّے لگائے جانے کا حکم دیا اور پھر اس کو مقتول کی بیوہ کے حوالے کرتے ہوئے کہا “یہ شخص پہلے میرا غلام تھا لیکن اب تیرا غلام ہے، تو جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کر “آخر کار ہیبت خان نے اس بیوہ کو تیس ہزار روپے بطور ہرجانہ ادا کئے لیکن اس واقعے سے اتنا شرمندہ ہوا کہ اس نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا۔
موجودہ دور میں اساتذہ پر ایف آئی آر کا اندراج اور عدالتوں میں سر عام ہتھکڑی لگا کر پیش کرنے کے واقعات دیکھتے ہوئے مجھے تاج الدین یلدوز، حاکم ہندوستان کے دور کا ایک واقعی یاد آ گیا، کہتے ہیں تاج الدین کے عزیز از جان بیٹے کے اتالیق نے ایک بار غصے میں شہزادے کو کوڑے سے پیٹنا شروع کیا تو بد قسمتی سے کوڑے کی ضرب سے شہزادے کی موت واقع ہو گئی، جیسے ہی تاج الدین کو اطلاع دی گئی وہ بجلی کی تیزی سے مو قع پر پہنچا، اتالیق کی حالت بہت بری ہو رہی تھی اور اپنی حرکت پر سخت نادم تھا، یہ عالم دیکھ کر یلدوز نے استاد سے کہا “اس سے پہلے کہ شہزادے کی موت کی خبر اس کی ماں تک پہنچے تم اس شہر سے فوراً نکل جاؤ اور کسی دوسرے مقام پر بود و باش اختیار کروورنہ تمہیں بھی اس جرم کی پاداش میں جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے”استاد کو زاد ِراہ عنایت کیا اور اتالیق سلطان کو دعائیں دیتا ہوا روپوش ہو گیا
سلیم خان نیازی راوی ہیں کہ دارلسرور مملکت خداداد بہاولپور ریاست کے آخری نواب صادق محمد خان پنجم شکار کے لئے ججہ عباسیاں جا رہے تھے کہ ایک غیر مسلم (مڑیچہ) بھاگ کر گاڑی کے سامنے آگیا، استفسار پر اس نے بتایا کہ اس کے علاقے کے سب سے بڑے زمیندار نے اس کی بیوی کو زبردستی اپنی حویلی میں ٹھہرا لیا ہے اور واپس بھی نہیں کرتا۔ جب زمیندار کے سامنے اس غیر مسلم نے آہ و بکاکی کہ میری بیوی واپس کر دو تو اس نے اپنے بید کے ڈنڈے سے اسے بہت مارا اور دھکے دے کر اپنی حویلی سے نکال دیا۔ جب صادق محمد خان نے اس غریب کی فریاد سنے تو غصے سے لال ہو گئے،شکارکا پروگرام ملتوی کیا اور اپنی سپاہ کو حکم دیا کہ مذکورہ زمیندار کو اس کے بیوی بچوں سمیت میرے سامنے پیش کیا جائے، چند ہی لمحات میں وہ اپنی بیوی بچوں سمیت ججہ عباسیاں نواب صاحب کی رہائشگاہ پہنچا دیا گیا، جب نواب صاحب نے اسے اپنے سامنے دیکھا تو اپنی بید سے اس کی کمر لال کر دی اور غیض و غضب میں اس مڑیچے سے کہنے لگے کہ تمھارے سامنے اس کی بیوی، بیٹی اور بہن کھڑی ہے جو تمھیں اچھی لگے وہ تم رکھ لو، لیکن مڑیچہ غیرت مند تھا،وہ بولا “دولہا سائیں!آپ کے انصاف کے بارے میں جیسا سنا تھا اس سے بڑھ کر پایا، بس ایک عنایت کر دیں مجھے میری بیوی واپس کروا دیں، زمیندار کی بیوی اور بہن میری بہنیں ہیں۔” نواب صادق محمد عباسی نے اس غیرمسلم کی بیوی فوراً واپس کروائی اور ساتھ ہی اس زمیندار کو دو سال جیل کی سزا سنا دی جبکہ مڑیچہ بہاولپور ریاست کے نواب کو دعائیں دیتا ہوا رخصت ہو گیا۔