Buy website traffic cheap


اردو بستی کاتابندہ مکین

اردو بستی کاتابندہ مکین
مراد علی شاہدؔ دوحہ قطر
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
یہ بات مبنی بر حقیقت ہے کہ مصور کے مو قلم سے کوئی شاہکار تخلیق نہیں ہوتا بلکہ اس کی انگلیوں سے رسنے والا خون ہرعظیم تخلیق کا باعث ہوتا ہے۔تصویر کے جزیات و کل میں رنگ و نور کی آمیزش اس لئے دلربا و مسحور کن دکھائی دیتی ہے کہ کہکشاؤں کی اس چمک میں مصور کی مصورانہ صلاحیتوں اور سخت کوشی نے جلا بخشی ہوتی ہے۔یہی وصف ایک قلم کار کے نوکِ قلم میں بھی بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔کہ وہ ایک منظر،روائت،تہذیب،معاشرت،تاریخ اور رسم و رواج کو اپنے ذہن کے صفحہ قرطاس میں محفوظ کر کے قرطاس ابیض پر ایسے بکھیر دیتا ہے کہ ورق پر لکھا ایک ایک حرف کوہِ نور کی کہکشاوں کا جڑاؤ دکھائی دیتا ہے۔قلم کار کی بو قلمونیاں کسی طور مصور کے شاہکار،کوزہ گر کے خوبصورت ظروف،مجسمہ ساز کے بنائے خداؤں (مجسموں)سے اس لئے کم نہیں کہ جیسے ایک مصور برش کے ساتھ رنگ ریزہ بن کر رنگ و نور کی بارش کو ایک ایک تصویر میں بھر کر اسے مصورانہ دنیا کا قلزم بنا دیتا ہے،رہی بات کوزہ گر کی تو ایک ماہر کوزہ گر تو سقراط جیسے عظیم فلاسفر کو اپنے ظروف سازی کے فن کا گرویدہ بنا لیتا ہے،مجسمہ ساز پتھروں سے صنم تراش اسے حقیقت کا لبادہ ایسے اوڑھا دیتا ہے کہ مائیکل اینجلو جیسا مجسمہ ساز ڈیوڈ کا مجسمہ تخلیق کر کے اس کے سامنے کھڑے ہو کر باتیں کرنا شروع کر دیتا ہے کہ”تم مجھ سے محو کلام کیوں نہیں ہوتے“یعنی ایسا شاہکار جس پر حقیقت کا گمان ہو۔ایسے ہی ایک کہنہ مشق قلم کار بھی خیالات آفرینی کو اپنے قلم کی طاقت سے عالم کل سمیٹ کر اپنے ایک ایک مضمون میں اس طرح بیان کر دیتا ہے کہ ہر خیال ایک مکمل کائنات دکھائی دینے لگتی ہے۔
عصر جدید میں طارق مرزا ایک ایسا ہی لفظوں سے تصویریں بنانے والا مصور،حروف سازی کا نایاب کوزہ گر اور مصطلحات کا مجسمہ ساز ہے کہ وہ جب بھی کسی موضوع پہ قلم اٹھاتا ہے تو پھر قلم اٹھا کر ہی لکھتا ہے۔خیالات کو اپنا اسیر اور لفظوں کو باندی بنا کر کسی بھی منظر کی لفظی نظارہ کشی اس طور کرتا ہے کہ مائیکل اینجلو کے مجسموں کی طرح حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے۔اگرچہ طارق مرزا عرصہ دراز سے سڈنی آسٹریلیا میں مقیم ہیں تاہم ان کے اندر ایک مکمل پاکستان آ باد ہے جس کا اندازہ ان سے محو گفتگو ہو کر ہی چلتا ہے،دنیا کے کئی ممالک کی سیاحت کر چکے ہیں ہر ملک میں ان کی سب سے پہلی کاوش پاکستانی اور پاکستانی کھانے ہی ہوتی ہے۔کہ کسی طور انہیں اپنے بھائیوں سے مل کر روح کو قرار آجائے،موصوف چار کتابوں کے مصنف ہیں۔خوشبو کا سفر ان کا سفرنامہ یورپ،تلاش راہ(افسانوی مجموعہ،جس میں بہت ہی عمیق انداز میں سماجی و معاشرتی مسائل کو اجاگر کیا ہے)،سفرِ عشق(وارداتِ قلبی،عشق الہی و محبوب کبریا سے محبت کا معطر سفرنامہ حج ہے)،دنیا رنگ رنگیلی(تازہ تصنیف ہے جو نیوزی لینڈ،جاپان اور تھائی لینڈ کا سفرنامہ ہے)۔
میری اور طارق مرزا کی شناسائی اگرچہ برقی رابطے کے ذریعے سے ہوئی تاہم 2مئی2019 بہ نفس نفیس شرف ملاقات اس طرح سے ہوا کہ ہمارے مشترکہ دوست ناصر ناکا گاوا جو ایک عرصہ سے جاپان میں مقیم ہیں اور اردو نیٹ جاپان کے مدیر اعلی بھی ہیں،ان کا فون آیا کہ طارق مرزا صاحب ڈنمارک سے واپسی پر دو دن دوحہ مختصر قیام فرمائیں گے تو ملاقات کے لئے ضرور وقت نکالنا،وقت نکالا، سید فہیم الدین (چئیرمین پاکستان ایسوسی ایشن قطر)کے ساتھ مل کر طارق سے ملاقات ہوئی اور اب ایسے دوستی ہوئی کہ جیسے برسوں کا یارانہ ہو۔اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ ہماری دوستی میں طارق مرزا کی انسان دوستی اور محبت کا زیادہ ہاتھ ہے۔موصوف مصنف،افسانہ نگار،سفرنامہ نگار،محقق،کالم نگار اور معروف صحافی ہیں۔ان کی کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے ادراک ہوا کہ جناب تمام اصناف میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔
سفر نامہ لکھتے ہوئے گرد وپیش کے واقعات،مناظر،گہما گہمی کے ساتھ ساتھ طارق مرزا کی علمی تشنگی میں جو بات ہائے العطش،ہائے العطش کی پکار بن کر ان کے علمی کھوج میں اضافہ کا باعث بنتی ہے وہ سر کردہ بلکہ سر کردہ مقامات کی تاریخ،جغرافیہ،تہذیب اور روایات کا عمیق مشاہدہ کرتے ہوئے یہ دیکھنا کہ کیا اس خطہ کے باسی اپنے ماضی کے امین ہیں یادور جدید کے بدلتے رنگ اپنی چکا چوند ٹیکنالوجی کا اسیر کر کے انہیں ماضی سے دور کہیں اور پیچھے تو نہیں دھکیل رہے۔علاوہ ازیں جہاں ضرورت ہو وہ ایک سیاح سے سیدھا ماہر شماریات بن کر اس علاقہ کی تمام تفصیل کا شماریاتی تجزیہ اس انداز سے کرتے ہیں کہ گما ہونے لگتا ہے کہ صاحب سیاح ہیں یا کسی یونیورسٹی کے پروفیسر۔جیسے کہ کوئینز ٹاؤن کی سیاحت کرتے ہوئے تفصیل کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ ”یہ کرائسٹ چرچ سے تقریبا چار سو کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہیں۔کوئنز ٹاؤن جیسے پر فضا شہر کی آبادی صرف پندرہ ہزار نفوس پر مشتمل ہے،اس پندرہ ہزار والے شہر میں 2013 میں اٹھارہ لاکھ سے زائد غیر ملکی سیاحوں نے قیام کیا۔جبکہ دس لاکھ کے قریب نیوزی لینڈ کے اپنے شہریوں نے یہاں چھٹیاں گزاریں،چئر لفٹ کا تذکرہ کرتے ہیں تو پوری تفصیل بتائیں گے کب لگی؟کس نے لگائی،ہر سال کتنے سیاح اس پر بیٹھتے ہیں وغیرہ وغیرہ،۔۔۔۔۔اسی طرح ایرو ٹاؤن میں سونے کی دریافت کا تذکرہ ہو تو گڈریے جیک نیوا کے تذکرہ سے شروع ہو کر 1860سے انگریزی اور چینیوں کی آمد،1930 میں چینیوں کو ایک حکم کے تحت ملک بدر کرنت تک کی تمام تفصیل کا خزانہ گویا آپ کے ہاتھ لگ گیا ہو۔اکتفا یہیں نہیں ہوگا،لوگوں کی بودو باش،طرز معاشرت،عادات اور گھروں کی ساخت تک ان کے قلم سے بچ نہیں سکتی اور ایک اچھے سیاح اور سفر نامہ نگارکی تصنیف کی یہ خوبی ہونی چاہئے،طارق مرزا کے انداز تحریر میں یہ بدرجہ اتم موجود ہے۔
انداز ِرتحریر ایسا کہ قاری اپنے آپ کو کتب کے کرداروں میں سے ایک کردار خیال کرنے لگتا ہے،طارق مرزا خود تو چشم ماروشن مشاہدہ فرما رہے ہوتے ہیں مگر قاری کو اپے زور قلم سے مناظر کی ایسے تصویر کشی فرماتے ہیں کہ لگتا ہے طارق نہیں قاری از خود وہاں کی سیر فرما رہا ہے ایسی منظر کشائی صرف ایک پختہ قلم کار ہی کر سکتا ہے،طارق مرزا کا وصف خاص یہ بھی ہے کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں،کہ جب بھی کوئی پر کشش،مسحور کن مناظر سے آنکھوں میں طراوت و تازگی محسوس کرتا ہے تو خدا پہ اس کا یقین اور بھی پختہ ہو جاتا ہے۔اور اس ذات باری تعالی ٰکے حضور سر بسجود ہونے میں صرف نظر نہیں کرتا فورا سجدہ بجا لاتا ہے کہ باری تیرا شکر اور کرم ہے کہ تو نے مجھے اس قابل جانا،ان کا ذات باری تعالیٰ پہ ایمان ”سفرِعشق“کے بعد اور بھی پختہ ہو گیا۔کہ سفر عشق ایک کتاب ہی نہیں بلکہ واردات قلبی اور کیفیت و احساس کی کشیدگی ہے جو مکہ و مدینہ کی مقدس گلیوں اور شراب معطر سے طارق کی زندگی کا خاصہ خاصان بن کر انہیں ایسے راستے پہ لے آئیں جہاں محبت الہی و عشق مصطفی کے سوا کچھ اور مطلوب نہیں ہوتا۔بقول طارق مرزا اس سفرِ عشق نے ان کی زندگی میں معجزاتی تبدیلیاں پیدا کیں اور بلاشبہ یہ سفر میری زندگی کا پرکیف،مسحور کن اور مبنی بر کیفیات تھا جس کا سرُور بلاشبہ میری زندگی کا اثاثہ اور احساس ِزندگی ہے۔دعا ہے کہ اللہ مسرت و انبساط سے ان کے دامن کو بھر دے اور انہیں آسانیاں تقسیم کر نے کی سعادت نصیب فرمائے،کہ ایسے لوگ دوستوں کے لئے کسی اثاثہ سے کم نہیں ہوتے