Buy website traffic cheap

Latest Column, Murad Ali Shahid , Antonio Guterres, Pakistan Visit

پاکستان گوترس کی نظر میں

پاکستان گوترس کی نظر میں
تحریر؛مراد علی شاہدؔ دوحہ قطر

سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوترس نے دورہ پاکستان کے دوران sustainable dev and climate change اور int peace and stability کے اجلاسوں میں پاکستان کابہتر امیج دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس کی نظیر اس سے قبل نہیں ملتی،کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دورہ کے دوران تقریبا ہر پلیٹ فارم پر پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی کوششوں کو سراہا ہو۔جیسے کہ انہوں نے ایک تقریب میں کہا کہ اگرچہ بطور سیکرٹری جنرل یہ میرا پہلا دورہ ہے تاہم اس سے قبل میں دس سالوں سے پاکستان آتا جاتا رہا ہوں،وہ زلزلہ کی تباہی ہو،کشمیر کے لوگوں کا مسئلہ ہو،افغان پناہ گزینوں کے مسائل اور پاکستان کے اپنے برادر ملک کے دکھ بانٹنے کا مسئلہ ہو مجھے کئی بار یہاں آنے کا اتفاق ہوا ہے میں نے پاکستانیوں کو محبت اور پیار کرنے والا ہی پایا ہے نہ صرف زبانی پیار بلکہ سخاوت اور بین الاقوامی مسائل کے حل میں دنیا کی مدد میں بھی پیش پیش ہی پاکستان کو دیکھا ہے۔لیکن مجھے بہت دکھ ہوتا ہے جب ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں پاکستان کا منفی تاثر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستانی بہت پیار کرنے والے لوگ ہیں۔
انتونیو گوترس صرف سیکرٹری جنرل ہی نہیں بلکہ اس سے قبل وہ اقوام متحدہ میں بطور ہائی کمشنر برائے رفیوجی،اپنے ملک پرتگال میں پارٹی ہیڈ اور ملک کے وزیراعظم بھی رہے ہیں،انہیں 2012 اور 2014 کی رائے شماری میں گذشتہ تیس سالوں میں پرتگال کے سب سے اچھے وزیراعظم کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔اگر ان کی تمام تقاریر کا بنظر عمیق جائزہ لیا جائے تو ہر ذی فہم وشعور اور سیاسی فہم رکھنے والا پاکستانی یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوگا کہ یہ لفاظی سے کہیں اوپروہ احساس ہے جو پاکستان اور کشمیر کے بہتر امیج کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوگا۔وہ اس لئے کہ انہوں نے عمران خان کی اس تقریر کو بھی سراہا جو انہوں نے اقوام متحدہ میں اسلامو فوبیا کی سراحت کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم صرف ایک ہی دین کو مانتے ہیں جو آج سے پندرہ سو سال قبل پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے پیش کیا تھا،اس لئے ہمیں اسلاموفوبیا،دہشت گردی کے بارے میں بات کرنا ہوگی۔ایسے ہی خیالات کا اظہار گوترس نے بھی کیا ہے کہ پاکستان کا دہشت گردی کی جنگ میں کردار ہمیشہ ہی قابل ستائش رہا ہے۔مزید یہ کہ پاکستان ہمیشہ پرامن دنیا کا خواہاں رہا ہے اس سلسلہ میں انہوں نے عملی میدان میں دنیا میں امن کی خاطر اپنے جوانوں کی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے۔جس کی ایک مثال کونگو میں امن مشن میں شہید ہونے والے ایک سو ستاون شہدا ہیں جنہوں نے دنیا کے امن کے لئے اپنی جان قربان کردی۔
اگر ان تمام حالات وواقعات کا سیاسی،معاشی اور اخلاقی طور پر مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یہ بات مان لینی چاہئے کہ سیکرٹری جنرل کا مثبت رویہ،زلمے خلیل کی موجودگی،عمران خان کے بیانات کوسراہنا،ایف اے ٹی ایف کا گرے لسٹ میں نکالنے کی باتیں،بین الاقوامی سیاحت کا فروغ اور دنیا کی مختلف سروے کمپنیوں کا سیاحت کے لئے پرامن ملک قراردینا،یہ سب پاکستان کی اور اس حکومت کی سیاسی،سفارتی،اخلاقی اور بین الاقوامی سطح پر کامیابی اورفتح ہے۔
ایک اور بات جس کا ذکرسیکرٹری جنرل گوترس نے اپنے پورے دورے کے دوران تقریبا ہر جگہ کیا وہ تھاsustainable dev goals ،جو اقوام متحدہ کا ایک ایسا پروگرام ہے جسے 1915 میں پیش کیا گیا جس کا مقصد دنیا کے ہر ملک کو سترہ قسم کے مسائل کے حل کی بھرپور کوشش کرنا ہے تاکہ پوری دنیا میں خوش حالی کا دور دورہ ہو۔یہ وہ مقاصد ہیں جنہیں اقوام متحدہ نے زندگی میں تبدیلی کے مقاصد قرار دیا ہے یعنی 2030تک دنیا سے غربت وافلاس کا خاتمہ،بہتر تعلیمی ماحول کی فراہمی،صحت کی بہتر دیکھ بھال،صاف پانی کی فراہمی،حقوقِ نسواں،امن وانصاف کا حصول اور صنعت وحرفت میں ترقی شامل ہے۔اگر مذکور تمام مسائل وحقائق کا مطالعہ ومشاہدہ کیا جائے توآپ ضرور سوچ سکتے ہیں کہ یہ وہ تمام سہولیات ہیں جو کسی بھی فلاحی ریاست میں عوام الناس کو بہم پہنچائی جاتی ہیں۔یعنی ملک عوامی فلاح کے بغیر کبھی فلاحی ریاست نہیں کہلواسکتی اور نہ افراد کے بغیر ترقی کی شاہراہ پر چل سکتی ہے اس لئے جس حکومت کا بھی عوام کی طرف سے انتخاب کیا جاتا ہے اس کا اولین مقصد لوگوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے۔
اب اگر پاکستان کی بات کی جائے تو بین الاقوامی راہنماؤں کے بیانات سے تو یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ پاکستان نے بہتری کے ٹریک پر قدم رکھ لیا ہے جس کی ایک مثال حالیہ دورہ ترکی کے صدر طیب اردوان اور اب سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کا دورہ اور ان کا پاکستانی حکومت پر اندھا اعتماد بھی ہے کہ سیکرٹری جنرل جب سے پاکستان میں ہیں پاکستان کی تعریفوں کے پل باندھے جا رہے ہیں جبکہ طیب اردوان نے پاکستان کے ساتھ کاروباری حجم کو بڑھانے کا عندیہ بھی دیا ہے بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان میرا دوسرا گھر ہے۔اس سے بڑھ کر کسی ملک اور اس کی حکومت پر اور کیا اعتماد ہو سکتا ہے۔لیکن اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو عوام اور کاروباری طبقات ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی ذمہ دار حکومت کی ناکام پالیسیوں کو قرار دے رہی ہے۔لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ہم ایسی جذبات سے لبریز قوم ہے جو شادی کے چند ہفتوں بعد ہی میاں بیوی سے پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ بچہ کب پیدا ہونا ہے۔ذی فہم لوگ ایسے سوال نہیں کرتے کیونکہ ان کا معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل کی طبعی وطبی عمر نو ماہ ہوتی ہے اس سے قبل پیدائش کا عمل کبھی بھی مکمل نہیں ہوتا۔باشعور افراد گوترس کے دورہ اور بین الاقوامی اداروں کی پاکستان کے بارے میں رائے سے بخوبی اندازہ لگا رہے ہیں کہ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے پاکستان کا جو نقشہ کھینچا ہے ایک دن اس سے بھی بہتر پاکستان دنیا کے سامنے آئے گا بس ابھی تھوڑا انتظار کیجئے،عمران خان حکومت کو مکمل وقت دیجئے تاکہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر چلنا شروع ہو جائے۔