Buy website traffic cheap

Latest Column , Murad Ali Shahid, After Marriage

لاشعوری بت پرستی

لاشعوری بت پرستی
مرادعلی شاہدؔ دوحہ قطر

تحت الشعور یا لا شعور میں خوابیدہ افکار جب بیداری میں تکمیلی عمل میں ڈھل جائیں تو انسانی شعور کا وہ حصہ کہلاتے ہیں جسے فلسفہ،افکار،دانش اور حکمت کا نام دیا جاتا ہے،گویا شعورِ ذات تک پہنچنے کا عمل لاشعور سے ہو کر گزرتا ہے۔بالفاظِ دیگر آپ کہہ سکتے ہیں کہ لاشعوری باتیں،سوچ،فکر اور خیال ہی مستقبل میں مکمل شعور بنتے ہیں،اس کی ایک مثال آپ اس طرح سے پیش کر سکتے ہیں کہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسان سارا دن جو سوچتا ہے وہی باتیں انسانی خواب میں لاشعور سے شعورکا حصہ بن جاتی ہیں جس سے بعض اوقات پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔اور سوچ کا یہ زاویہ جب انسانی شعور کی تکمیل کرتا ہے تو انسان اسے اپنے کردار میں اس طرح سے شامل کر لیتا ہے کہ گویا وہ کبھی لاشعور کا حصہ تھا ہی نہیں۔
میری طرح پاکستان کے بہت سے ایسے لوگ ضرور سوچتے ہوں گے جو رات چھ سے بارہ صرف ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھے ڈرامے اور ٹاک شوز دیکھتے ہیں کہ مختلف چینلز پر دکھائے جانے والے ڈراموں میں کم وبیش ہر ڈرامہ کی ہر قسط میں کرداروں کی اس زاویہ سے ڈرامائی تشکیل کی جاتی ہے کہ پس منظر میں کوئی نا کوئی مجسمہ ضرور دکھائی دیتا ہے،میری دانست میں جدید نسل کو لاشعوری طور پر بت پرستی کی طرف اگر مائل نہیں تو ترغیب کی ابتدا ضرور ہو سکتی ہے کیونکہ نسلوں کو تہذیبی تباہی کی طرف لے جانے کے لئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے اس عمل کے مدارج کچھ اس طرح سے ہوتے ہیں کہ پہلے تہذیبی سقیم میں لاشعوری کوشش،پھر عملا ً اسے درست ثابت کرنے کی شعوری کوشش اور بالآخر کچھ نا کچھ تناسب اسے درست تسلیم کرنا شروع کر دیتا ہے گویا لاشعوری کوشش ہی دراصل شعورکو تکمیل دیتی ہے اپنے اس دعویٰ کی صداقت کے لئے دو مثالیں قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں مجھے امید ہے آپ لوگوں کا بھی ان سے واسطہ پڑا ہوگا لیکن ہمارے ارد گرد بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جنہیں ہم زیادہ اہمیت نہیں دیتے حالانکہ وہ ہمارے معاشرہ کا المیہ ہوتی ہیں،جیسے کہ
آپ نے کبھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ بازار میں خصوصا جمعرات کو خیرات مانگنے والوں کی ایک کثیر تعداد نظر آئے گی اکثر کیا ہوتا ہے کہ کسی بزرگ مرد یا عورت کے ساتھ لڑکپن عمر کی ایک لڑکی یا لڑکا ضرور ان کے ساتھ ہوتا ہے جن کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ دوکاندار سے خیرات پکڑ کر اپنے ساتھ بزرگ کی ہتھیلی پہ لا کر رکھنا ہوتا ہے حالانکہ وہ بابا جی یہ کام خود بھی کر سکتا ہے کہ جو بندہ گھر سے مانگنے کے لئے نکل پڑا کیا وہ دوکاندار کے دوکان کی ایک دو سیڑھیا چڑھ کر خیرات نہیں پکڑ سکتا،یقینا وہ ایسا کر سکتا ہے لیکن اس سارے عمل کے پس پشت کیا سوچ کارفرما ہوتی ہے،وہ یہ کہ بزرگ یا عورت کے ساتھ ان کا ہاتھ پکڑ کر چلنے یا دوکاندار سے خیرات پکڑنے والے بچے کی دراصل لاشعوری تربیت کی جا رہی ہوتی ہے کہ لڑکپن سے نکل کر جب بچہ جوانی کی عمر کو پہنچے تو مانگنا اس کے لاشعور سے نکل کر اس کے شعور کا جزولاینفک اس طرح سے بن جائے کہ اسے مارکیٹ میں جا کر لوگوں سے خیرات مانگنے میں ذرہ بھر بھی شرم محسوس نہ کرے،آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ لحیم شحیم قسم کے لوگ بھی بازاروں میں خیرات کا کاسہ اٹھائے گھوم رہے ہوتے ہیں،اگر آپ نے کبھی دیکھا ہے تو یہ بات بھی ضرور آپ کے شعور میں آئی ہو گی کہ اتنا موٹا تازہ بندہ کیوں بازار میں لوگوں کے سامنے دست سوال ہے کیا اس کا ضمیر مرچکا ہے،نہیں ضمیر اگرچہ مرا نہیں ہوتا لیکن کیا ہے کہ لاشعور سے وہ بات اس کے شعور کا حصہ بن چکی ہوتی ہے جو وہ بچپن سے عمل پزیر ہو رہی تھی۔اس لئے وہ اپنے اس عمل کو قبیح یا باعث شرم خیال نہیں کرتا۔اس کا سب سے زیادہ نقصان ایسے ان افراد کو ہوتا ہے جو واقعی مستحق ہوتے ہیں،کون لوگ استحقاق رکھتے ہیں اس کے لئے الگ کالم کی ضرورت ہوگی۔
دوسری مثال بھی ضرور آپ کے مشاہدہ سے گزری ہوگی اگر نہیں تو یاددہانی کے لئے عرض کرتا چلوں کہ کبھی آپ کے سامنے سے بھٹہ خشت کا بوجھ اٹھائے ایسی گدھا ریڑی ضرور گزری ہوگی جس میں گدھے کے ساتھ ہی اس کا بچہ ہلکی سی رسی کے ساتھ بندھا گدھے کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا ہے اگر غور کریں تو یہ بھی اس گدھے کے بچے کی لاشعوری ترغیب ہو رہی ہوتی ہے کہ بڑا ہو کر اسے ایسا ہی کام کرنا ہے۔تربیت یافتہ گدھے کا یہ بچہ جب جوان ہوتا ہے تو بغیر کسی اڑیل کے چپ چاپ اس ریڑھی کا حصہ بن جاتا ہے جس کا مال بردار کبھی اس کا باپ تھا۔پاکستانی ڈراموں میں مجسموں کی تشہیر،دراصل بت پرستی کی لاشعوری ترغیب ہے کہ جس کانتیجہ آنے والے سالوں میں وضاحت کے ساتھ عوام کے سامنے آجائے گا،اس لئے حکومت پاکستان اور پیمرا کو چاہئے کہ ڈراموں میں ایسے سین دکھانے کا سختی سے نوٹس لے تاکہ ہماری نسل اس لاشعوری شر سے محفوظ رہ سکے۔