Buy website traffic cheap


”غیر اخلاقی اشتہارات!اخلاقیات کا جنازہ“

”غیر اخلاقی اشتہارات!اخلاقیات کا جنازہ“
نسیم الحق زاہدی
یہ ہے ریاست مدینہ کاماڈل ریاست جسے بنانے کا وعدہ نئے پاکستان کے دعویدار وزیر اعظم عمران خان نے کیا تھا۔ آج ملک میں بڑھتی ہوئی بے شرمی اور بے حیائی کا یہ عالم ہے کہ آپ ٹی وی اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ہم تو میڈیا کے لوگ ہیں ہماری تو مجبوری ہے۔حالات ا ور واقعات سے باخبر ہونے کے لئے ہمیں ٹی وی دیکھنا پڑتا ہے لیکن جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ٹی وی چینلز پر اخلاق باختہ اور حیاسوز اشتہار دیکھنے کو ملتے ہیں تو یقین جانئیے گھروالوں بالخصوص بچوں سے نظریں چرانی پڑتی ہیں۔ کھلے عام ہماری اسلامی تہذیب و ثقافت کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب سے یہ پوچھنے کے ہم حق بجانب ہیں کہ کیا یہ ہے مدینہ کی ریاست جہاں ٹی وی پرخاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے استعمال ہونے والی اشیاء کے اشتہار چل رہے ہیں۔
میری بیٹی نے جب یہ پوچھا کہ جوش کیا ہے کہ تو میرا دل چاہا کہ خدارا! زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سماجاؤں۔ میں اپنی چھ سالہ بیٹی کو کیا بتاتا کہ ہم ایک اسلامی ریاست میں رہتے ہیں اور ہم مسلمان ہیں اور ہمارے وزیر اعظم صاحب نے اسے مدینہ کی ریاست بنانے کا اعلان کیا تھا۔میری ایک کولیگ خاتون صحافی نے مجھے کہا کہ جب تم ان گندے بہیودہ اشتہاروں پر کالم لکھنا تو میرے حوالے سے بھی ذکر کرنا کہ میرے بیٹے نے جب ٹی وی اشتہار دیکھ کو اس پروڈکٹ بارے مجھ سے سوال کیا تومیں بھی شرم سے پانی پانی ہو گئی تھی،خاتون کا کہنا تھا کہ بچوں کے کچے ذہنوں میں ایسے سوال کون ڈال رہا ہے اب وہ جب دوست آپس میں گفتگو کرتے ہوں گے تو ان کے ذہنوں میں کیا کیا نہیں آتا ہو گا۔ ایک دور تھا جب پی ٹی وی فیملی چینل ہوتا تھا اور ہم لوگ بڑے فخر کے ساتھ اس کے پروگرام دیکھتے تھے لیکن اب میڈیا کو آزادی کیا ملی اس نے اسلامی تعلیمات سے ہی رو گردانی شروع کر رکھی ہے۔ایسا نہ ہو کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی ہی بھول بیٹھا۔کسی دور جب پی ٹی وی اکلوتا چینل ہوتا تھا تو اس پر خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہار چلا کرتے تھے تو ان پر بھی کافی اعتراض اٹھتے تھے بلکہ علمائے کرام بھی انہیں تنقید کا نشانہ بناتے تھے اور ان پر پابندی عائد کرنے کی مہم بھی چلائی گئی تھی۔بعداذاں ازدواجی رشتوں میں استعمال ہونے والی ایسی ہی مصنوعات سے متعلق اشتہار بھی نئے نئے آن ائیر ہوئے تو ان کوبھی بند کرنے کی آوازیں بلند ہوئیں تھیں اور مذہبی حلقوں میں ان پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ اب خاندانی منصوبہ کے حوالے سے استعمال ہونے والی جدید ترین اشیاء کے اشتہاروں نے توفحاشی کے تما ریکارڈ ہی توڑ دئیے ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سنسر پالیسی برائے نام رہ گئی ہے۔سنسر بورڈ کے ممبران اور وزارت طلاعات و نشریات نے تو اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور پیمرا ایک بے جسم وجاں،گونگے، بہرے اور اندھے کا کردار احسن طریقے سے نبھا رہا ہے۔2002 ء میں جب پرائیویٹ چینلز لانچ ہوئے تو پیمرا (پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیریٹی اتھارٹی) کا قیام عمل میں آیا تاکہ ان چینلز کو ایسے ضابطوں اور قوانین کا پابند کیا جا سکے جو آئین پاکستان کے متقاضی ہیں۔آئینِ پاکستان کی قرارداد مقاصد میں مذکور ہے کہ حکومت ایسے اقدامات کو یقینی بنائے گی جو عوام کی زندگیوں کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے میں معاون ثابت ہوں۔ بہر حال پیمرا کا قیام خوش آئند اقدام تھا اور پیمرا کی جانب سے میڈیا کے لئے بنائے گئے اصول و ضوابط ایک اسلامی مملکت کے شایان شان تھے۔ افسوس یہ قواعد وضوابط محض کاغذات کی زینت بن کر رہ گئے۔اشتہارات کے لئے پیمرا کے ضابطہ اخلاق کی شق 14 میں میڈیا مالکان کو پابند کیا گیا ہے کہ بے حیائی و فحاشی کی حوصلہ شکنی کی جائے اسلامی اقدار کے منافی پروگرامات اور اشتہارات پیش نہ کئے جائیں۔ پھر 2015ء میں سپریم کورٹ کی جانب سے الیکٹرونک میڈیا کو پابند کیا گیا تھا کہ لائسنس دار اسں امر کو یقینی بنائے کہ کوئی مواد ایسا نہ ہو جو اسلامی اقدار و نظریہ پاکستان کے خلاف ہو نیز نا زیبا،اخلاق باختہ یا فحش گفتگو سے پرہیز کیا جائے۔ اس وقت پیش کئے جانے والیاشتہارات جن میں بیوٹی کریمز، چائے اور موبائل فونز شامل ہیں،مختصر لباس، نامناسب اچھل کود، نازیبا حرکات، ذومعنی انداز وبیان کا مرقع ہیں۔ کچھ اشتہار تو ایسی پروڈکٹس کے ہیں جو خاص طور پرشرم وحیا کے زمرے میں آتے ہیں ان اشیاء کے اشتہارات معاشرے میں حیا و پاکیزگی کے چلن کو عام کرنے کی بجائے بے حیائی و فحاشی کو فروغ دے رہے ہیں۔ جو پیمرا کے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
گزشتہ سال کرکٹ میچز کے دوران بھی ایسی ہی پروڈکٹ کا ایک ایسا اشتہار دکھا جاتا رہا جس میں باقاعدہ کرکٹ کمنٹری کی طرز پر سارے معاملے کی تشہیر کی گئی ہے اور ساتھ ساتھ وہ جملے لکھے ہوئے بھی آ ئے اور جس طرح کوئی کمنٹری کرنے والا لمحہ بہ لمحہ بدلتی کھیل کی صورتحال پر تبصرہ کرتا ہے بالکل اسی طرح تبصرہ کیا گیا تھا۔یہ اشتہار فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ اس اشتہار میں جو الفاظ کہے گئے وہ بالکل واضح تھے اگر آپ اپنے خاندان کے ساتھ ٹی وی دیکھ رہے ہیں اس موقع پر یہ اشتہار آ جاتا ہے تو یقیناً آپ چینل بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ نہ صرف ساری صورتحال پر کمنٹری کی گئی ہے بلکہ ویڈیو پر لکھا ہوا بھی آ رہا تھا۔یہ اشتہار کرکٹ میچ کے دوران دکھایا گیا۔
ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے یہاں پر شرم و حیا کو اولیت حاصل ہے۔لیکن اب ہماراٹی وی بھی اسلام دشمنوں کے نرغے میں ہے۔ اب مسلمان ممالک میں جنسی تعلیم کو تعلیمی اداروں میں متعارف کرانے کی سکیمیں بنائی جا رہی ہیں۔ فیملی پلاننگ کے نام سے مسلمانوں میں کنڈوم کلچر کو رواج دینے کی کوششیں جارہی ہیں۔ مانع حمل اور اسقاطِ حمل کے جگہ جگہ سنٹر کھلے ہوئے ہیں۔انتہا تو یہ ہے کہ ٹی وی سے آپ صرف خبریں سننا چاہیں تو وہ بھی اس فحش اور لچر پن سے خالی نہیں ہوتیں۔ یہ بات درست کہ رمضان کا احترام ہم پر لازم ہے مگر نئی نسل کو بے حیائی سے محفوظ رکھنا بھی تو فرض ہے، تو اس لئے فی الفور قلم و قرطاس کا سہارا لیا کہ صاحب اقتدار صرف حکمرانی کے مزے نہ لوٹیں بلکہ اس سنجیدہ معاملے کا نوٹس بھی لیں۔
نسیم الحق زاہدی
یہ ہے ریاست مدینہ کاماڈل ریاست جسے بنانے کا وعدہ نئے پاکستان کے دعویدار وزیر اعظم عمران خان نے کیا تھا۔ آج ملک میں بڑھتی ہوئی بے شرمی اور بے حیائی کا یہ عالم ہے کہ آپ ٹی وی اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ہم تو میڈیا کے لوگ ہیں ہماری تو مجبوری ہے۔حالات ا ور واقعات سے باخبر ہونے کے لئے ہمیں ٹی وی دیکھنا پڑتا ہے لیکن جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ٹی وی چینلز پر اخلاق باختہ اور حیاسوز اشتہار دیکھنے کو ملتے ہیں تو یقین جانئیے گھروالوں بالخصوص بچوں سے نظریں چرانی پڑتی ہیں۔ کھلے عام ہماری اسلامی تہذیب و ثقافت کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب سے یہ پوچھنے کے ہم حق بجانب ہیں کہ کیا یہ ہے مدینہ کی ریاست جہاں ٹی وی پرخاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے استعمال ہونے والی اشیاء کے اشتہار چل رہے ہیں۔
میری بیٹی نے جب یہ پوچھا کہ جوش کیا ہے کہ تو میرا دل چاہا کہ خدارا! زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سماجاؤں۔ میں اپنی چھ سالہ بیٹی کو کیا بتاتا کہ ہم ایک اسلامی ریاست میں رہتے ہیں اور ہم مسلمان ہیں اور ہمارے وزیر اعظم صاحب نے اسے مدینہ کی ریاست بنانے کا اعلان کیا تھا۔میری ایک کولیگ خاتون صحافی نے مجھے کہا کہ جب تم ان گندے بہیودہ اشتہاروں پر کالم لکھنا تو میرے حوالے سے بھی ذکر کرنا کہ میرے بیٹے نے جب ٹی وی اشتہار دیکھ کو اس پروڈکٹ بارے مجھ سے سوال کیا تومیں بھی شرم سے پانی پانی ہو گئی تھی،خاتون کا کہنا تھا کہ بچوں کے کچے ذہنوں میں ایسے سوال کون ڈال رہا ہے اب وہ جب دوست آپس میں گفتگو کرتے ہوں گے تو ان کے ذہنوں میں کیا کیا نہیں آتا ہو گا۔ ایک دور تھا جب پی ٹی وی فیملی چینل ہوتا تھا اور ہم لوگ بڑے فخر کے ساتھ اس کے پروگرام دیکھتے تھے لیکن اب میڈیا کو آزادی کیا ملی اس نے اسلامی تعلیمات سے ہی رو گردانی شروع کر رکھی ہے۔ایسا نہ ہو کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی ہی بھول بیٹھا۔کسی دور جب پی ٹی وی اکلوتا چینل ہوتا تھا تو اس پر خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہار چلا کرتے تھے تو ان پر بھی کافی اعتراض اٹھتے تھے بلکہ علمائے کرام بھی انہیں تنقید کا نشانہ بناتے تھے اور ان پر پابندی عائد کرنے کی مہم بھی چلائی گئی تھی۔بعداذاں ازدواجی رشتوں میں استعمال ہونے والی ایسی ہی مصنوعات سے متعلق اشتہار بھی نئے نئے آن ائیر ہوئے تو ان کوبھی بند کرنے کی آوازیں بلند ہوئیں تھیں اور مذہبی حلقوں میں ان پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ اب خاندانی منصوبہ کے حوالے سے استعمال ہونے والی جدید ترین اشیاء کے اشتہاروں نے توفحاشی کے تما ریکارڈ ہی توڑ دئیے ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سنسر پالیسی برائے نام رہ گئی ہے۔سنسر بورڈ کے ممبران اور وزارت طلاعات و نشریات نے تو اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور پیمرا ایک بے جسم وجاں،گونگے، بہرے اور اندھے کا کردار احسن طریقے سے نبھا رہا ہے۔2002 ء میں جب پرائیویٹ چینلز لانچ ہوئے تو پیمرا (پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیریٹی اتھارٹی) کا قیام عمل میں آیا تاکہ ان چینلز کو ایسے ضابطوں اور قوانین کا پابند کیا جا سکے جو آئین پاکستان کے متقاضی ہیں۔آئینِ پاکستان کی قرارداد مقاصد میں مذکور ہے کہ حکومت ایسے اقدامات کو یقینی بنائے گی جو عوام کی زندگیوں کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے میں معاون ثابت ہوں۔ بہر حال پیمرا کا قیام خوش آئند اقدام تھا اور پیمرا کی جانب سے میڈیا کے لئے بنائے گئے اصول و ضوابط ایک اسلامی مملکت کے شایان شان تھے۔ افسوس یہ قواعد وضوابط محض کاغذات کی زینت بن کر رہ گئے۔اشتہارات کے لئے پیمرا کے ضابطہ اخلاق کی شق 14 میں میڈیا مالکان کو پابند کیا گیا ہے کہ بے حیائی و فحاشی کی حوصلہ شکنی کی جائے اسلامی اقدار کے منافی پروگرامات اور اشتہارات پیش نہ کئے جائیں۔ پھر 2015ء میں سپریم کورٹ کی جانب سے الیکٹرونک میڈیا کو پابند کیا گیا تھا کہ لائسنس دار اسں امر کو یقینی بنائے کہ کوئی مواد ایسا نہ ہو جو اسلامی اقدار و نظریہ پاکستان کے خلاف ہو نیز نا زیبا،اخلاق باختہ یا فحش گفتگو سے پرہیز کیا جائے۔ اس وقت پیش کئے جانے والیاشتہارات جن میں بیوٹی کریمز، چائے اور موبائل فونز شامل ہیں،مختصر لباس، نامناسب اچھل کود، نازیبا حرکات، ذومعنی انداز وبیان کا مرقع ہیں۔ کچھ اشتہار تو ایسی پروڈکٹس کے ہیں جو خاص طور پرشرم وحیا کے زمرے میں آتے ہیں ان اشیاء کے اشتہارات معاشرے میں حیا و پاکیزگی کے چلن کو عام کرنے کی بجائے بے حیائی و فحاشی کو فروغ دے رہے ہیں۔ جو پیمرا کے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
گزشتہ سال کرکٹ میچز کے دوران بھی ایسی ہی پروڈکٹ کا ایک ایسا اشتہار دکھا جاتا رہا جس میں باقاعدہ کرکٹ کمنٹری کی طرز پر سارے معاملے کی تشہیر کی گئی ہے اور ساتھ ساتھ وہ جملے لکھے ہوئے بھی آ ئے اور جس طرح کوئی کمنٹری کرنے والا لمحہ بہ لمحہ بدلتی کھیل کی صورتحال پر تبصرہ کرتا ہے بالکل اسی طرح تبصرہ کیا گیا تھا۔یہ اشتہار فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ اس اشتہار میں جو الفاظ کہے گئے وہ بالکل واضح تھے اگر آپ اپنے خاندان کے ساتھ ٹی وی دیکھ رہے ہیں اس موقع پر یہ اشتہار آ جاتا ہے تو یقیناً آپ چینل بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ نہ صرف ساری صورتحال پر کمنٹری کی گئی ہے بلکہ ویڈیو پر لکھا ہوا بھی آ رہا تھا۔یہ اشتہار کرکٹ میچ کے دوران دکھایا گیا۔
ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے یہاں پر شرم و حیا کو اولیت حاصل ہے۔لیکن اب ہماراٹی وی بھی اسلام دشمنوں کے نرغے میں ہے۔ اب مسلمان ممالک میں جنسی تعلیم کو تعلیمی اداروں میں متعارف کرانے کی سکیمیں بنائی جا رہی ہیں۔ فیملی پلاننگ کے نام سے مسلمانوں میں کنڈوم کلچر کو رواج دینے کی کوششیں جارہی ہیں۔ مانع حمل اور اسقاطِ حمل کے جگہ جگہ سنٹر کھلے ہوئے ہیں۔انتہا تو یہ ہے کہ ٹی وی سے آپ صرف خبریں سننا چاہیں تو وہ بھی اس فحش اور لچر پن سے خالی نہیں ہوتیں۔ یہ بات درست کہ رمضان کا احترام ہم پر لازم ہے مگر نئی نسل کو بے حیائی سے محفوظ رکھنا بھی تو فرض ہے، تو اس لئے فی الفور قلم و قرطاس کا سہارا لیا کہ صاحب اقتدار صرف حکمرانی کے مزے نہ لوٹیں بلکہ اس سنجیدہ معاملے کا نوٹس بھی لیں۔