Buy website traffic cheap

ہمہ جہت

ایک ہمہ جہت شخصیت

ایک ہمہ جہت شخصیت
پروفیسر تنویر احمد
میں شروع شروع میں صحافت کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ دراصل میر ا تعارف ان صحافیوں سے ذیادہ تھا جو ذرد صحافت سے منسلک تھے اور ان کا کام لوگوں کو معمولی باتو ں پر بلیک میل کرنا اور ان سے ہر ماہ ایک مخصوص رقم وصول کرنا ہوتا تھا۔ اس طرح کے صحافی آجکل بھی پائے جاتے ہیں اور بڑے زور وشور سے اپنے ہاتھ گرم اور لوگوں کی جیبیں خالی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ میں ایک ایسے صحافی کو بہت قریب سے جانتا ہوں جو انگوٹھا چھاپ ہے لیکن لوگوں کو بلیک میل کیسے کرنا ہے؟اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
مظہر رشید چوہدری سے میری پہلی ملاقات ان کی رہائش گاہ پر میرے ایک طالب علم منان رشید کے توسط سے ہوئی تھی۔ طبیعت کے لحاظ سے میں نے انہیں بہت سادہ انسان پایا۔ اکیڈمی میں کوئی خاص فرنیچر نہیں تھا اور میری ایک فیمیل سٹوڈنٹ نے مجھ سے اس لیئے پڑھنے سے انکار کردیا کہ وہ نیچے بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتی ۔ایک اور طالب علم کو اس بلڈنگ کی سیڑھیوں پہ اعتراض تھاجو سانپ کی طرح بل کھاتی تھی اور میں بھی ان کوپکڑ کر چڑھتا تھا۔ہر ماہ جتنا بھی حصہ میں نے مظہر صاحب کو دیا انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ شکریہ ادا کرکے ساتھ میں چائے بھی پلائی۔ان دنوں میری نئی نئی شادی ہوئی تھی اور میر ی بیگم کو میر ا دیر سے گھر آنا پسند نہ تھا ۔اس وجہ سے میں نے ٹیوشن پڑھانا چھوڑ دیالیکن گاہے بکاہے میر ی ملاقات منان اور حنان کی وجہ سے مظہر چوہدری سے ہوتی رہی۔ میں دیپال پور چوک کی ایک مسجد میں نماز پڑھتا تھا جہاں پر عبدالرشید میموریل اکیڈمی کا بورڈ لگا ہوا تھا جو شاید آج بھی لگا ہوا ہو اس کو دیکھ کر مجھے اپنی اوکاڑہ میں پہلی اکیڈمی یاد آجاتی تھی۔ان دنوں میں نے دیکھاکہ مظہر چوہدری کی ذیادہ تر توجہ اپنی NGOکی طرف تھی جس کا نام ماڈا ہے۔اس تنظیم کا بنیادی مقصدڈرگز کے خلاف جہادہے اور یہ تنطیم ورلڈ لیول پر تسلیم شدہ ہے۔ تقریباًمیر ی اوکاڑہ میں دس سالہ سروس کے دوران میر ی کسی نہ کسی ذریعے سے مظہر رشید چوہدری سے ملاقات ہوتی رہی اور ہمیشہ میں نے ان کو ہنس مکھ اور اپنا مددگار پایا۔ انڈر پاس سے گزرتے ہوئے میر ی نظر نہ چاہتے ہوئے بھی عبدالرشید میموریل اکیڈمی کے بورڈ پر پڑھ جاتی تھی ۔ اپنی مہران کار کو اکثر روک کر میں اس اکیڈمی کا بورڈ پڑھتا تھا۔ 2014میں مجھے دبئی جانے اور وہاں رہنے کا موقع ملا اور وہاں پر قیام کے چار سال میر ا ان سے کوئی رابط نہ رہا۔ وطن واپسی کے بعد جب میں پہلی بار اوکاڑہ گیا تو اچانک میری نظر اکیڈمی کے بورڈ پر پڑی ۔ میں مظہر رشید چوہدری سے ملاقات تو نہ کر پایا لیکن گھر واپس جاکر میں نے فیس بک پر ان کا نا م سرچ کیا تو پتہ چلا کہ اب وہ باقاعدگی سے اخبارات میں آرٹیکل لکھ رہے ہیں اور بہت سے اخبارات کے نامہ نگار ہیں اور نیوز چینلز کے ساتھ بھی کا م کررہے ہیں ۔ میر ی مظہر رشید چوہدری سے باقاعدہ ملاقات کا آغاز ا اوکاڑہ میں ای لائبریر ی کے قیام سے ہوا۔مظہر رشید چوہدری کی ذات میں میں نے وہی متا نت اور وقار دیکھاجو میں دس سال پہلے دیکھا تھا مجھے ان کے اندر کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔
میر ی اپنی ذات کے علاوہ بھی مظہر رشید چوہدری کی ذات میں وہ خوبیا ں ہیں جو مجھے انسپائر کرتی ہے۔میں نے آج تک کسی شخصیت پر کالم نہیں لکھا لیکن میں ان کی ذات پر کالم لکھنے کے لیئے مجبور ہو گیا ۔ یہ سب ان کی بے جا تعریفیں نہیں ہیں اگر آپ میں سے کسی بھی قاری کا ان سے ملنے کا اتفاق ہو ا ہو تو آپ میر ے ساتھ اتفاق ضرور کریں گے۔زیادہ تر آپ سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں اور ان کی تحریروں میں اعدادوشمار کافی ذیادہ ہوتے ہیں۔مجھے نہیں یا دکہ ان کا کوئی بھی کالم بیس سے کم اخبارات میں چھپا ہو ۔ کالم نگاری کے علاوہ ان کی رپوٹنگ بھی کمال کی ہے۔ ہمیشہ سچ کہا اور سچ کے سوا کچھ نہ کہا۔ دوسروں کی مدد کی لیکن لوگو ں نے ان کی کبھی مدد نہ کی۔ اچھی شخصیا ت کی تعریف اگر ان کی زندگی میں ہی کر دی جائے اور ان کے کاموں کو تسلیم کر لیا جائے تو اس سے بڑی بات کوئی نہیں۔عہدے ہونے کے باوجود سادگی ان کا طرح امتیا ز ہے۔ ایف ایم پر بھی حالات حاضرہ پر جناب اعجاز علی صاحب کے ساتھ کافی عرصہ پروگرام کرتے رہے۔ چند دنوں پہلے مجھے ان کے ساتھ تین چار ردیڈیو پروگرام کرنے کا بھی اتفاق ہوا جس میں معروف موٹیوٹر عثما ن ہا دی بھی موجو د تھے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ اچھا کالم نگار کیسے بنتے ہیں تو انہوں نے بتا یا کہ جو دل میں آئے وہ لکھو اور جو بھی لکھو سچ لکھو۔ ہم دوسروں کے بار ے میں تو سچ سننا چاہتے ہیں لیکن اپنے بارے میں سچ سننا نہیں چاہتے۔ ایک اچھا صحافی وہی ہے کہ جو اس کے اندر ہو وہی باہر ہو ۔ جو دل سے لکھتا ہے اسے لوگ دل سے پڑھتے ہیں اور وہ لوگو ں کے دلوں میں رہتا ہے۔ یقیناًمظہر رشید چوہدر ی کا شما ر اسی قسم کے لوگو ں میں ہوتا ہے۔