Buy website traffic cheap


اسلامی سربراہی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ اورزمینی حقائق

اسلامی سربراہی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ اورزمینی حقائق
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
ایک لفظ اُمت مسلمہ ہے جس لفظ کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے اسلام دُشمن طاقتیں خوب زور لگا رہی ہیں۔ امریکہ نے ایرن اور سعودی عرب کے درمیاں زبردست تناؤ پیدا کیا ہوا ہے۔ امریکی سازشوں اور مداخلت کی وجہ سے اُمت مسلمہ کا اتحاد پارہ پارہ ہوچکا ہے۔لیبیاء کی تباہی، مصر،عراق کی تباہی، شام کی تباہی، افغانستان کی تباہی فلسطین و کشمیر میں مسلمانوں کی لہو ارزانی۔ ساری صورتحال اِس بات کی دلالت کرتی ہے کہ اُمت مسلمہ کو باہمی اتحاد سے روکنے کے لیے امریکہ اسرائیل خوب زور لگا رہے ہیں۔ایران کے خلاف امریکہ کی محاذ آرئی نے پوری خطے کو مخمصے میں ڈال رکھا ہے
حالیہ فروری میں بھارت کی مودی سرکار نے پاکستان کیخلاف جارحیت کرنے کی کوشش کی۔ بھارت پاکستان جنگ میں اِس بات کو شدت سے محسوس کیا گیا کہ اُمت مسلمہ کے درمیان اتحاد کی کمی ہے۔ کھل پر پاکستان کے حق میں سوائے ترکی کے کسی نے بیان نہیں دیا۔ ایران امریکہ محاذ آرائی کے پس منظر میں موجودہ ہونے والی او آئی سی کانفرنس کی اہمت بہت زیادہ ہے۔کب تک مسلمانوں کو لہو بہایاجاتا رہے گا۔مسلم ممالک میں کہیں بھی انسانی آزادیوں کے ھوقالے سے صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ یوں امریکہ اسرائیل کو مسلم دُنیا کے خلاف سازشی عناصر دستیا ب ہوجاتے ہیں۔
اسلامی ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) کے سربراہی اجلاس کے بعد ایک متفقہ اعلامیے میں امریکی سفارت خانے کو مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی خود مختاری کو تسلیم کرنے کے امریکی فیصلوں کی مذمت کی گئی ہے۔اسلامی ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس سعودی عرب کی میزبانی میں مکہ میں منعقد ہوا جس کے اعلامیے میں فلسطین سمیت اسلامی دنیا کو درپیش تمام مسائل پر بات کی گئی۔ اس میں ‘اسلامو فوبیا’ یعنی اسلام کے بارے میں منفی پراپیگنڈا اور خوف پھیلانے جیسے معاملات بھی شامل تھے۔اسلاموفوبیا کو عصر حاضر کی نسلی پرستی اور مذہبی تعصب قرار دیتے ہوئے او آئی سی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ دنیا کے کئی ممالک میں اسلاموفویبا میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا ثبوت مسلمانوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں۔او آئی سی کے اجلاس میں امریکہ کی طرف سے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے مجوزہ ‘امن معاہدے’ کے اعلان سے پہلے فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کیا گیا۔ مسئلہ فلسطین پر او آئی سی کے مشترکہ اعلامیے میں بڑی تفصیل سے بات کی گئی اور اسرائیل کے ان اقدامات کی مذمت کی گئی جن کا مقصد مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں زمینی حقائق کو تبدیل کرنا اور دو ریاستی حل کو مشکل بنانا ہے۔او آئی سی نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ ان ملکوں کے خلاف ‘مناسب اقدامات’ کریں جنہوں نے اپنے سفارت خانے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم اس اعلامیے میں ’مناسب اقدامات‘ کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے ایسا کوئی فارمولہ تسلیم نہیں کیا جائے گا جو فلسطینیوں کے جائز حقوق کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں 57 اسلامی ممالک پر مشتمل اس تنظیم کے سربراہی اجلاس میں ایران اور ترکی کے سربراہوں نے شرکت نہیں کی۔ ایران اور
ترکی ان ملکوں کا بائیکاٹ کا مطابہ کر چکے ہیں جنہوں نے اپنے سفارت خانے تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔او آئی سی کے سربراہی اجلاس نے ایران سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کی صورت حال میں سعودی عرب کی حمایت کی اور شاہ سلمان نے خلیج میں گزشتہ چند دنوں میں ہونے والے پرتشدد واقعات کو دہشت گردی قرار دیا جس سے ان کے بقول تیل کی سپلائی خطرے میں پڑ گئی ہے۔خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات کے ساحل پر تیل بردار جن چار جہازوں کو تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا تھا ان میں سے دو سعودی عرب کے تھے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں حوثی باغیوں کی طرف سے کیے گئے ڈرون حملے میں تیل کی پائپ لائن پر دو پمپنگ سٹیشوں کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ایران نے ان حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم نے فلسطین سے اسرائیلی قبضہ ختم کرانے کا مطالبہ کردیا۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ فلسطین مسلم امہ کا بنیادی مسئلہ ہے، عالمی قراردادوں کے مطابق فلسطین سے اسرائیلی قبضہ ختم کرایا جائے، مقبوضہ بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہے، آزاد اور خودمختار ریاست میں زندگی بسر کرنا فلسطینیوں کا حق ہے۔اعلامیے کے مطابق اجلاس میں ہرقسم کی دہشت گردی، انتہاپسندی اور تعصب پسندی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں دہشت گرد حملوں کی مذمت کی گئی۔او آئی سی نے عالمی برادری سے خطے میں امن وسلامتی برقرار رکھنے کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کوشہریت، مذہب یا کسی علاقے سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ او آئی سی نے مذہب اور رنگ نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی مذمت کرتے ہوئے نفرت، امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے برداشت، احترام، بات چیت اور تعاون پر زور دیا۔ اے پی پی کے مطابق اعلامیے میں دہشت گرد تنظیموں کیخلاف اٹھ کھڑے ہونے اور دہشت گردی کی لعنت پر قابو پانے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔اسلامی تعاون تنظیم نے اس بات پر زوردیا کہ خلیجی خطے میں دہشت گردی کی کارروائیاں جہازوں کی سیکورٹی اور تیل کی عالمی رسد کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔اعلامیئے میں کہا گیا ہے کہ سیکورٹی اور استحکام کو برقرار رکھنے اور مسلم معاشروں میں خوشحالی اور پر وقار زندگی کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے سرمایہ کاری اور پائیدار ترقی کیلئے نئی راہیں کھولنے کی ضرورت ہے۔رکن ملکوں،تنظیم کے اداروں سمیت اسلامی ترقیاتی بنک اور اسلامی یکجہتی فنڈ پر زور دیا گیا کہ وہ کیمروس،جمہوریہ گینیا،آئیوری کوسٹ اور سیری لیون کیساتھ انکے ترقیاتی پروگراموں میں تعاون کریں۔رکن ملکوں نے مذہب،رنگ و عقیدہ کی بنیاد پر ہر قسم کے امیتیازی سلوک،فرقہ واریت اور عدم برداشت کی مذمت کی۔سربراہ اجلاس میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ابتر حالات کی مذمت کی گئی اور تشدد کا سلسلہ بندکرنے رزوردیاگیا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کشمیر اور فلسطین کے مظلوم عوام کا ساتھ دے‘دنیا کو اسلام فوبیا سے نکلنا ہو گا،دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں‘مغرب غلط تصویر پیش کررہا ہے‘پیغمبر اسلام کی توہین ہماری ناکامی ہے‘مغرب کو بتانا ہو گا ہم بہت زیادہ دکھ محسوس کرتے ہیں‘ کشمیریوں،فلسطینیوں کی آزادی جدوجہد کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا جاسکتا‘اسرائیل نے دہشت گردی کو معصوم فلسطینیوں کیخلاف استعمال کیا‘القدس فلسطینیوں کا دارالحکومت ہے‘مسلم ممالک کو جدید ٹیکنالوجی اور تعلیم پر رقم خرچ کرنا ہوگی۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اسلام فوبیا اور دہشت گردی سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچا، مغرب ابھی تک اسلام کی غلط تصویر پیش کررہا ہے، کوئی بھی مذہب انسانی قتل و دہشتگردی کی اجازت نہیں دیتا، اسلام کا دہشت گردی کیساتھ کوئی تعلق نہیں، مغربی دنیا مسلمانوں کے جذبات کا خیال کرے، دنیا کو اسلام فوبیا سے باہر نکلنا ہوگا، مسلم دنیا کی قیادت مغربی دنیا کو قائل کرے۔انہوں نے کہاکہ نیوزی لینڈ کے واقعے نے ثابت کیا دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، کوئی مسلمان دہشت گردی میں ملوث ہوتو اسلامی دہشت گردی کا نام دیا جاتا ہے، نائن الیون سے پہلے زیادہ ترخودکش حملے تامل ٹائیگرز کرتے تھے، ان کے حملوں کا کسی نے ہندو مذہب سے تعلق نہیں جوڑا، دہشت گردی کو اسلام سے علیحدہ کرنا ہوگا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد کشمیریوں اور فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے گئے، او آئی سی کشمیر اور فلسطین کے مظلوم عوام کا ساتھ دے، مسلم سیاسی جدوجہد کو دہشتگردی کا لیبل دیا جانا درست نہیں، کشمیریوں اور فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا جاسکتا۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم کی لہر بڑھتی جارہی ہے، کشمیری آزادی کے لیے جدوجہد
کررہے ہیں، او آئی سی مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرائے۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے دہشت گردی کو معصوم فلسطینیوں کیخلاف استعمال کیا، بیت المقدس فلسطینیوں کا دارالحکومت ہے اور گولان کو فلسطین کا حصہ ہونا چاہیے۔وزیراعظم نے زور دیا کہ مسلم ممالک جدید ٹیکنالوجی اور تعلیم کو ترجیح دیں، انہیں جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی پر رقم خرچ کرنی چاہیے۔ جب کوئی پیغمبر اسلام کی توہین کرتا ہے تو یہ ہماری ناکامی ہے، ہمیں مغرب کو بتانا چاہیے کہ پیغمبر اسلام کی توہین پر ہم کتنا دکھ محسوس کرتے ہیں۔ یہودیوں نے دنیا کو بتایا ہے کہ ہولوکاسٹ کی غلط توجیہہ سے انہیں دکھ پہنچتا ہے۔