Buy website traffic cheap

Latst Column, Salman Ahmad Qureshi, PM Imran Khan Journey

مشرق وسطیٰ امن منصوبہ مسترد

مشرق وسطیٰ امن منصوبہ مسترد
سلمان احمد قریشی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے جاری منصوبہ کو یورپی یونین نے مسترد کر دیا۔یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزیف بوریل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ منصوبہ بین الاقوامی سطح پر متفقہ پیمانوں سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ فریقین آپس میں براہ راست مذاکرات سے تصفیہ طلب مسائل حل کریں۔ کسی بھی یکطرفہ کاروائی سے گریز کریں جس سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔جوزیف بوریل نے کہا یورپی یونین 1967ئکی 6روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل کے زیر قبضہ جانے والے عرب علاقوں پر تل ابیب کی خود مختاری تسلیم نہیں کرتی۔یورپی یونین کا موقف ہے اس جنگ کے بعد قبضے میں لیے گئے علاقے متنازع ہیں اور اس کا فیصلہ فلسطینیوں سے مذاکرات سے ہی ہونا چاہئے۔
یاد رہے رواں ہفتہ اسلامی تعاون تنظیم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کیلئے پیش کردہ نام نہاد یک صد سالہ امن منصوبہ مسترد کر دیا تھا۔اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی اجلاس سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہوا جس میں عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے منصوبہ پر غورکرنے کے بعد اسے یکسر مسترد کر دیا۔دوسری طرف روسی صدر ولادی میر پوتن کے نمائندہ خصوصی الیگزنڈر لاور ینتف کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام نہاد مشرق وسطیٰ امن منصوبہ ناقابل عمل ہے۔ روسی صدر کے نمائندہ خصوصی کے مطابق مسئلہ فلسطین کے حل کے حق میں اپنے ملک کا موقف بیان کرتے ہوئے عالمی قوانین پر عمل درآمد کے دائرہ کار میں دو مملکتی حل کے اصول پر کاربند ہونے کا اظہار کیا۔ اس پر فلسطین کے صدر محمود عباس نے درعمل دیتے ہوئے کہ کہا روس نے مذکورہ امن منصوبہ مسترد کرتے ہوئے بین الاقوامی اداروں سے وابستگی کا مظاہرہ کیاجو کہ باعث ستائش ہے۔
قارئین کرام! امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران مشرق وسطیٰ کے نام نہاد منصوبہ کا یکطرفہ اعلان کیا تھا۔ جس پراردن میں فلسطین سے اظہار یکجہتی کیلئے مظاہرے ہوئے۔ امریکہ کے اردن کے مختلف شعبہ جات میں حمایت اور تعاون کو سراہنے والے شاہ عبداللہ نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں اپنے ملک کے ناقابل تبدیل موقف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دو مملکتی بنیاد کیلئے فلسطین اسرائیل تنازع کا خاتمہ ضروری ہے۔ فلسطین کی اپیل پر مصر کے دارلحکومت قاہرہ میں وزیر خارجہ کی سطح پر عرب لیگ کا اجلاس ہوا، جس کے اختتامی اعلامیے میں ٹرمپ کے پیش کر دہ پلان کو غیر منصفانہ قرار دیا گیا۔ منصوبہ قیام امن کیلئے موزوں نہیں اس کے بالکل برعکس 30سال سے جاری امن مذاکرات کے راستے میں ایک نئی رکاوٹ کا مفہوم رکھتا ہے۔اعلامیہ میں بیت المقد س، گولان کی پہاڑیوں، یہودی رہائشی بستیوں اور فلسطینی مہاجرین کے مسئلہ کے بارے بین الاقوامی قوانین کے منافی شقوں کے حامل ہونے پر اس منصوبہ کو مسترد کیا گیا۔اعلامیہ میں امریکہ کے نام نہاد امن منصوبہ میں کہا گیا کہ 2002ء میں لبنان میں قبول کی جانے والی عرب امن کاروائی فلسطین اور اسرائیل امن کیلئے واحد قابل قبول کاروائی ہے۔
امریکہ نے بین الاقوامی فیصلوں کو پس پشت ڈال کر نام نہاد امن منصوبہ پیش کیا جس پر بین الاقوامی برادری سے اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کو اوسلو معاہدے کے تحت سلامتی تعاون سے دستبردار ہونے کا پیغام دیا ہے۔ محمود عباس نے اسرائیلی وزیر اعظم کو خبر دار کیا کہ اب فلسطین اوسلو کے معاہدے پر عملدآمد سے آزاد ہے کیونکہ امریکہ کا امن منصوبہ اوسلو کے معاہدے کے منافی ہے۔
فلسطین اسرائیل تنازع دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوا جب 15مئی 1947کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک کمیٹی بنائی جس میں 3ستمبر 1947کو برطانوی راج کے خاتمہ کے بعد ایک یہودی اور ایک عرب ریاست کے ساتھ یرو شلم کے شہر کو بھی الگ کرنے کا فیصلہ کیا، یروشلم کو بین الاقوامی نگرانی میں رکھنے کی بات کی گئی۔ 29نومبر1947ء کو جنرل اسمبلی نے اس بارے قرار داد منظور کی۔ یہودیوں کی نمائندہ تنظیم جیوش ایجنسی نے اس منصوبے کو قبول کیا جبکہ عرب لیگ اور فلسطین کی کمیٹی نے اسے مسترد کر دیا۔ 14مئی 1948کو برطانوی راج کے خاتمے کے دن جیوش ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گو ریان نے مملکت اسرائیل کا اعلان کیااس پر مصر شام اردن اور عراق کی افواج فلسطین میں داخل ہوگئیں اور 1948ئکی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی۔11مئی 1949میں اسرائیل کو اقوام متحدہ کی رکنیت دی گئی اس کے بعد سے مختلف ادوار میں جنگ، امن معاہدے مذاکرات اور ثالثی کی کوششیں ہوتی رہیں۔ مگر اسرائیل کی ریاست پھیلتی گئی اور فلسطین سکڑتا گیا۔ عرب لیگ،او آئی سی کی حمایت کے با وجود فلسطینی اپنا حق اقوام عالم سے تسلیم کروانے میں ناکام ہیں۔ مسئلہ کشمیر کی طرح مسئلہ فلسطین بھی حل طلب ہے ایک ایسا حل جس کو دونوں ممالک تسلیم کریں تاحال اقوام عالم پیش کرنے میں ناکام ہے۔لہذا آج بھی یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ کہنے کو فلسطین ایک محدود تسلیم شدہ ریاست ہے جس کی آزادی کا اعلان 15نومبر 1988ء کو کیا گیا تھا۔ مگر اسرائیل امریکہ کی پشت پناہی میں اس ریاست کو محدود کرنے کا خواہشمند ہے۔ جبکہ بیت المقدس قبلہ اول اور پیغمبروں کی سرزمین ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان فلسطین سے جذباتی تعلق رکھتے ہیں اور تمام اسلامی ممالک فلسطین کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ عالمی برادری سے مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کا مطالبہ کیا۔پاکستانیوں نے ہر موقعہ پر فلسطین کیلئے اپنی پختہ وابستگی کا اعادہ کیا اور ہر فورم پر فلسطین کی حمایت کی۔ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر دیرینہ حل طلب مسائل ہیں۔ مسئلہ کا عملی حل اس بات کا متقاضی ہے کہ فلسطین کی ایک آزاد ریاست اورکشمیر میں استصواب رائے ہی واحد پر امن حل ہیں اور عالمی امن کی ضمانت ہیں۔آج نہیں تو کل اقوام عالم کوامریکہ اور اسکی جانبدارانہ پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے مظلوم فلسطینوں اور کشمیروں کے ساتھ کھڑا ہونے پر قائل ہونا ہوگا۔ گویا یورپی یونین،اسلامی ممالک اور اقوام عالم کی طرف سے امریکہ کے امن معاہدہ کو مسترد کرنا فطری ردعمل ہے۔