Buy website traffic cheap

Column, Salman Ahmad Qureshi, Naya Pakistan, Corupption, TI

نیا پاکستان اور کرپشن

نیا پاکستان اور کرپشن
سلمان احمد قریشی

1947ء سے وجود میں آنے کے بعد سے ہی پاکستان کو کرپشن کا مسئلہ درپیش ہے۔ہر دور حکومت میں کرپشن جاری رہی۔ اب 2019 میں تبدیلی سرکار بھی کچھ نہ بدل سکی۔ کرپشن کے نتیجہ میں ملکی ادارے بھی کمزور ہوئے اور ہمارے مسائل تا حال حل طلب ہیں۔ افلاس، بے روزگاری اور نا خواندگی سمیت دیگر مسائل کی موجودگی میں کرپشن کے ساتھ کسی بھی ملک میں ترقی اور بہتری نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم محمد علی جناح نے 6مئی 1945کو اصفہانی کو خط میں لکھا تھا کہ ”کرپشن ہندوستان اور مسلمانوں میں خاص طور پر نام نہاد تعلیم یافتہ اور دانشور وں کیلئے ایک لعنت ہے۔ بد قسمتی سے یہ وہ طبقہ ہے جو خود غرض اور اخلاقی اورفطری طور پرکرپٹ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بیماری عام ہے لیکن مسلمانوں کے اس مخصوص طبقہ کے دوران روز بروز بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ”
کرپشن تب بھی تھی اور آج بھی ہے۔پاکستان کو آزادی کے ساتھ برٹش گورنمنٹ سے ایک مضبوط بیوروکریسی ورثہ میں ملی جس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی۔ 1960ء کی دہائی ہی میں عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان کی بیورو کریسی کو بد عنوان، ناکارہ، احتساب اور تبدیلی کے خلاف مزاحم قرار دیا گیا۔ اس کے بعد سیاسی میدان میں کرپشن پر خوب شور و غل بہت سننے میں آیا۔ 1947ء، 1950،1958،میں سرکاری ملازمین خاص طور پر بیوروکریسی میں کرپشن کی روک تھام کیلئے موثر دفعات تشکیل دی گئیں۔ اس سلسلہ میں 1950ء ویژن آف کرپشن ایکٹ بہاولپور قابل ذکر ہے۔ مختلف اداور میں کرپشن کے خاتمہ کیلئے کوششیں کی جاتی رہیں۔ 16نومبر 1999ء کا نیب آرڈیننس پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس کو تشکیل دینے والے بھی بعد میں اس کا شکار ہوئے اور اس پر تنقید کرتے نظر آئے۔ کرپشن کے ساتھ نیب کا سیاست میں بھی گہرا اثر ہے۔
1988ء میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی قائم ہونے والی جمہوری حکومت کو کرپشن کے الزامات کے تحت ختم کیا گیا، وزیراعظم نواز شریف کی برخاستگی پر بھی کرپشن کے الزامات ہی لگے۔ پرویز مشرف کے بر سر اقتدار آنے تک کرپشن اور سیاست دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ الزامات لگتے رہے اورسیاسی میوزیکل چئیر کا کھیل بھی جاری رہا۔ پرویزمشرف نے احتساب کو سیاسی بندوبست کے طور پر استعمال کیا۔ اور کرپشن کے خاتمہ کے نعرے پر سیاست جاری و ساری ہے۔موجودہ بر سر اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف تو ملک میں کرپشن کے ختم کرنے کا بیانیہ لے کر ہی بر سر اقتدار آئی۔عوام، اسلام اور ترقی کی سیاست کے بعد کرپشن کا خاتمہ پی ٹی آئی کا مقبول عام نعرہ ثابت ہوا۔ اس سیاسی نعرے کو پی ٹی آئی نے بھر پور استعمال کیا۔ اس سیاسی پارٹی کے مطابق انکی جماعت سے تعلق نہ رکھنے والے تمام سیاسی رہنما کرپٹ ہیں اور پاکستان میں واحد ایماندار قیادت عمران خان کی صورت میں انکے پاس ہے۔ پی ٹی آئی کو بر سر اقتدار آئے ڈیرھ سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ تمام تر حکومتی اعلانات اور بیانات میں ایک ہی بات مشترک ہے کہ ملک کو لوٹا گیا۔ قارئین کرام!کرپشن اور پاکستان ساتھ ساتھ چلتے آ رہے ہیں۔ اس کی روک تھام کیلئے کوششیں بھی کی گئیں۔مگر کرپشن کبھی ختم نہیں ہوئی، کرپشن ہمارے معاشرے کا حصہ ہے۔ اس دفعہ تبدیلی یہ آئی کہ کرپشن ختم کرنے کے نام پر پی ٹی آئی نے خوب سیاست کی۔ امید تھی کی پی ٹی آئی کی حکومت کرپشن کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات اٹھائے گی اور بہتری آئے گی۔ پی ٹی آئی کے ورکرز کو توقع تھی کہ عمران خان کے بر سر اقتدار آنے سے کرپشن ختم ہو جائے گی۔یہ حسن ظن تھا۔جبکہ سیاسی حلقے جانتے تھے کہ یہ سیاست ہے اور ایک کھلا راز جو بھی پی ٹی آئی میں شامل ہوا اس کے کرپشن کے کیس دب گئے۔ تمام تر الزامات دھل گئے اگر یہ کہا جائے کہ کرپشن کے الزام سے بچنے کیلئے سیاستدانوں کا ایک بڑا ٹولہ پی ٹی آئی میں شامل ہو ا تو غلط نہیں۔ ایسے میں کرپشن کیسے کم ہوتی۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد 2018ء کی نسبت 2019میں پاکستان میں کرپشن بڑھی ہے۔ دنیا کے 180ممالک میں کرپشن کے متعلق جاری کی گئی رپورٹ میں پاکستان کرپشن پرسیشن انڈیکس میں پچھلے سال کی نسبت ایک نمبر کم حاصل کر سکا۔180رینکس میں پاکستان کا نمبر 120واں ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ دس سالوں میں پہلی بار ہے کہ پاکستان آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے گیا۔پاکستان تنزلی کا شکار ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس سال کرپشن میں اضافہ ہوا، مہنگائی اور بے روزگاری نے پاکستانیوں کی زندگی مزید مشکل کر دی ہے۔ حکومت کے دعویہوا ہوئے۔ تبدیلی سرکار نے تمام لیڑوں سے قوم کی لوٹی دولت کیا واپس لانا تھی سیاستدان، سازشی بیوروکریسی ارباب اختیار سب قوم کو مزید لوٹنے میں مصروف ہیں۔آٹا کی نایابی سے چینی اسکینڈل تک، کتنے ہی وائٹ کالر کرائمز ہیں جو اب متعارف کرائے گے ہیں۔نئے آنے والے بھی ان طریقوں سے استفعادہ کریں گے۔۔کرپشن والا معاملہ نہ آج کا ہے نہ گزشتہ چالیس سالوں کا، اس کے ڈانڈے قیام پاکستان سے پہلے پرٹش گورنمنٹ سے ملتے ہیں۔من حیث القوم کرپشن کے خلاف بات تو کرتے ہیں مگر اس کے خلاف کاروائی پر حکومت کو مجبور نہیں کر سکتے۔ کیونکہ کے نظام کی تبدیلی کے بغیر بہتری ممکن نہیں۔ہماری پہلی ضرورت ہیروزگار ہے، اس کے بعد حکومت تعلیم، صحت، جہموریت، انصاف، صاف پانی، صاف ماحول، اور دیگر بنیادی سہولیات بہم پہنچائیں، کرپشن تو بتدریج ختم ہوگی۔پی ٹی آئی کے نعروں یا جذباتی باتوں سے مسائل حل ہونے والے نہیں۔ جب بیورو کریسی بے لگام ہو اور الیکشن مہنگے کرپشن کم نہیں ہوسکتی۔ اپوزیشن رہنما تو ابھی کرپشن کے الزامات پر مقدمات کا سامنا کررہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین عدالتی فیصلہ کے نتیجہ میں نااہلی کے باوجود معتبر ہیں اور سب سے بااثر بھی تو ایسے نظام میں بہتری کی توقع خود فریبی نہیں تو کیا ہے۔ اپوزیشن کی کرپشن کے قصے سنانے سے ووٹ تو مل سکتے ہیں کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔کسی کا یہ فقرہ پاکستان کی موجودہ صورت حال کی خوب عکاسی کرتا ہے۔علی بابا تو تبدیل ہوتا ہے چالیس چور نہیں۔