Buy website traffic cheap

Latest Column, Sana Ahmad Germany, Parchi

پرچی!

پرچی!
ثناء احمد۔جرمنی

“بی بی یہ پرچی لے کے کمپوڈر سے دوائی لے لو”کلینک پہ یہ آواز اکثر سُنائی دیتی ہے میرا نمبر تھا۔ وہ ہی مخاطب تھا مگر انداز جُدا “ جی میم صاحبہ کہیں کیا مسئلہ ہے “ مجھے رویوں میں دوغلہ پن سخت نا پسند ہے وہ بھی میری جیسی خاتون ہیں تو ایسا کیوں ؟ “ میرا اس وقت مسئلہ ہے آپ کے تخاطب کا انداز۔۔۔” میں نے آپ سے کچھ نہیں کہا “دُرست” لیکن وہ ابھی جن سے آپ نے بات کی۔۔۔۔میم وہ ۔۔۔۔برائےمہربانی مجھے میم مت کہیں ۔۔۔جی جی ۔۔۔یہاں مسلہہ یہ ہے کہ یہ لوگ “پرچی” لے کر آ جاتے ہیں کس کس کو ڈاکٹر صاحب مفت میں دیکھیں اور پھر دوایئاں بھی دیں “۔۔۔۔یہ بات ہمارے خُون میں گُھل مل گئ ہے جسے ہم علیحدہ کر ہی نہیں سکتے گُزشتہ کئی سالوں سے میں اس کا شکار رہی ہوں ایئر پورٹ پہ قُلی صاحب “ بی بی جی یاں چار سو دینے ہیں “ “ کیوں؟” “ جی یہ ائرپورٹ ٹیکس ہے” اور یُوں ہمیں ایک کمزور و ناتواں سی ایک گُلابی پرچی دے دی جاتی تھی ۔پچھلی مرتبہ تو ہم وہیں روک دئیےگے “ میم چار سو روپے “ کاؤنٹر پہ موجود ڈیوٹی آفیسر نے کہا “ مجھے کچھ پوچھنا ہے؟ “ جی فرمائیں” یہ کس چیز کے پیسے لیتے ہیں ؟ میم یہ پوٹر فیس ہوتی ہے “ او اچھا حیرت کا جھٹکا مگر قُلی کو تو ہم پیسے دے دیتے ہیں تو یہ بھی ان کے ہوتے ہیں؟ جی میم یہ ان کے ہوتے ہیں اچھا پہلے تو یہ کلر میں تھی اب سفید ہے اور پرچی ہی لگ رہی ہے جی یہ سرکاری ہے “ اب کیا کہیں برسوں سے یہ پرچی ہم نے بھری ہے اور با خُدا بخوشی بھری ہے مگر جن کے لیے بھری ہے کچھ شکوہ سا محسوس ہوا مگر چُپ سادھ لی۔۔۔۔اگلا مرحلہ بھی پرچی تھا سو صاحب ہم پرچی پرچی کھلتےہ گھر پہنچے اور شانت ہو گے موسم خوشگوار تھا اور مزاج اپنے دیس آ کے تو ھذا من فضل ربی تھا ہمیں کچھ عرصہ سے بتایا جارہا تھا کہ یہاں ایک بہت ہی اعلی شاپنگ مال اوپن ہوا ہے اور اگر ہمیں کچھ لینا ہے تو چلیں ہم ۔۔۔میں کچھ یقناہ لاپروا ہوں یا مجھے کوئی انوکھی بات محسوس نہیں ہوئی کہ یہاں جانا ضروری ہے بلکہ کئی سوچوں نے مجھے گھیر لیا ویسے تو شاپنگ مالز، ماشاء اللہ شہر شہر بہت عمدہ بن چکے ہیں بہت اچھا لگتا ہے مگر جب یہ پتہ چلتا ہے کے یہ فلاں نے اکیلے ہی بنایا ہے تو ہمارا ماتھا ٹھنکتا ہے “ مطلب کروڑوں کا پراجیکٹ ایک انسان کا ہے؟”یہ پیسہ آیا کہاں سے ؟ جتنی اس پہ لاگت آئی ہے یہ تو ایک صوبے کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے ۔حیرت ہے یہ لوگ کرتے کیا ہیں؟ یہ بھی کوئی پرچی ورچی کا کھیل لگتا ہے ۔۔۔۔۔خیر ہم شاید ابھی تک روائتی ہیں برسوں سے اپنی سوچ اور مزاج کے مطابق چل رہے ہیں جو دو تین مخصوس شاپس سےخریدتے چلے آ رہے ہیں بس وہیں ہی چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔اس مرتبہ مجھے یقین ہے بے خیالی میں ہی ہم نے اس شاپنگ مال کا پروگرام بنا لیا یہ پہلا دن تھا اور وقت کو استعمال کرنا تھا سو گاڑی کا رُخ اس مال کی طرف تھا ہماری رہائش گاہ سے یہ خاصے فاصلے پرتھا اور ایک مرحلے پہ پھر پرچی کا سامنا تھا “ پرچی میم “ ہم چونک ہی گے کتنے کی ہے؟ ۔۔۔اوکے۔۔۔۔مال میں پارکنگ کی پرچی بھی موصول کی گی اور ہم نے مال کو خوبصورت ہی پایا ہلکی سی شام ڈھل رہی تھی لوگ تواتر سے آ رہے تھے جن میں ہر عمر کے لوگ تھے نوجوان خوش گپیوں کے ساتھ ساتھ سلفیاں بھی لے رہے تھے ہم نے ایک طائرانہ نظر ڈالی کچھ نوجوان جوڑے بھی تھے جو زیادہ ترایک طرف رہ کے سلفیوں کے عمل میں مصروف تھے میں نے محسوس کیا کہ لوگ یہاں شاپنگ سے زیادہ سیرو تفریح کے لیے آتے ہیں ۔خیر ہم ان تمام شاپس سے پہلے ہی متعارف تھے ۔دیکھا تو اچھا لگا ۔اور یہ بھی محسوس ہوا کہ عالمی معیار کے مطابق بنا ہُوا ہے اس کے بعد ونڈوشاپنگ اور ڈور شاپنگ کا سلسلہ تھا ۔۔۔۔۔۔اور بعد کا مرحلہ پیٹ پوجا ۔۔یہاں بھی قیمتیں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھیں پہلی مرتبہ مجھے کچھ بے زاری محسوس ہوئی “ نہیں بھئ یہ تو بہت ہی غلط ہے اگر ہم آج یہاں سے کھانا کھاتے ہیں تو اتنی رقم میں ہم کسی ایک فیملی کو اچھا خاصہ راشن لے کے دے سکتے ہیں نہیں نہیں۔” آپی میں کھانا بنا کر آئی ہوں “ یہ تو بہت اچھا کیا آپ نے “ اُدھر ویٹر مسلسل مجھ پہ نظریں جمائے ہوئے تھا مگر وہ نہیں جانتا تھا “آج مجھے ایک پرچی اپنے رب کے حضور بھی لگانی تھی کیا آپ میرا ساتھ دیں گے” مجھے پتہ ہی نہیں چلا میرا دوپٹہ بھیگ رہا تھا۔۔۔۔!