Buy website traffic cheap


بدترین جمہوریت بہترین آمرانہ حکومت سے بہتر !

بدترین جمہوریت بہترین آمرانہ حکومت سے بہتر !
تحریر: شاہد ندیم احمد
عمران خان نے تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر عوام میں اچھے مستقبل کے حوالے سے اُمید کی جوت جگائی اور انہوں نے اپنا مستقبل عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ کر لیا، عوام کو یہی توقع تھی کہ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد سابقہ حکمرانوں کا ڈالا گیا کرپشن،اقربا پروری اور ناانصافیوں کا گند توقعات کے مطابق صاف ہونا شروع ہو جائیگا اور عمران خان ریاست مدینہ کے جس تصور کی بنیاد پر ایک اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کی تشکیل کی کوششوں میں مگن ہیں، اس کے عملی قالب میں ڈھلنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو گی،مگر ایک سال گزرنے کے باوجود عوام کی توقعات کے برعکس تحریک انصاف حکومت سے فوری ریلیف ملنے کے بجائے ان کے غربت،مہنگائی اور روٹی روزگار کے مسائل میں اضافہ ہونے لگا تو ان کے دلوں میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہونا فطری امر تھا۔عوام آزمائے ہوؤں سے نجات پا کر نئی قیادت کے ناقابل فہم فیصلوں سے مایوس ہونے لگے ہیں،حکومت مخالف احتجاج اور ہڑتالوں سے عوامی ردعمل ظاہر ہونے لگا ہے،اس سے اپوزیشن کے مردہ سیاسی گھوڑے میں بھی جان آئی اور ایک دوسرے سے مختلف سیاسی ایجنڈا رکھنے والی جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر حکومت کے خلاف چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے کا سلسلہ شروع کر دیاہے۔ یہ جماعتیں جن کے اکثر قائدین احتساب کے عمل میں نیب کے مقدمات بھگت رہے ہیں اور ان میں سے بعض احتساب عدالتوں سے سزا بھی پا چکے ہیں،عوامی اضطراب سے فائدہ اٹھا کر حکومت مخالف تحریک کی فضا استوار کر چکے ہیں،وہ کسی بھی قیمت پر حکومت گرانا چاہتے ہیں،اس کے لیے جمہوریت کی قربانی دینا بھی قابل قبول ہے،اس وقت سیاسی مزاحمت ہمہ جہت زیادہ ہو نے کے باعث سیاسی تنازعات کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ ریاست کے بنیادی ڈھانچہ کی چولیں ہلا سکتی ہیں۔
بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے دہرانے کی عادی ہیں،حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے غیر جمہوری رویئے نشاندہی کرتے ہیں کہ حکمران اقتدار کو دوام دینے اور اپوزیشن حکومت گرانے کی روش پر گامزن ہے۔ہردور اقتدار میں حکومت جس کی جہاں بھی ہو ہمیشہ طاقت کے نشے میں لڑکھڑاتی رہتی ہے، حکمران غرور و تکبر کا شکار رہوکرخود کو عقل کل اور سیاہ و سفید کا مالک سمجھتے ہیں، تاہم اپوزیشن کا کردار حکومت کے قبلہ کو درست سمت رکھنا ہے، اس کا تنقیدی ر ردعمل ہی حکومت کی گاڑی کو پٹڑی پر چلنے پر مجبور کرتا ہے، ورنہ حکومت تو ایک بار نہیں کئی بار پٹڑی سے اُتر جاتی ہے۔ہر جمہوری ملک کی کامیاب حکومت کو دانشمند اپوزیشن کی ضرورت ہوتی ہے جس کی مدد و رہنمائی سے حکومت اپنی آئینی مدت کو باعزت اور احسن طریقے سے مکمل کرتی ہے، مگر پاکستان کی جمہوری و سیاسی تاریخ میں پہلی اپوزیشن ایسی آئی ہے جسے حکومت کا گھیراؤ کرنے اور گرانے کے مواقع ملے، مگر وہ حکومت کے ناک پر بیٹھی مکھی تک نہ اُڑا سکی۔ ویسے بھی اپوزیشن کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ قومی خزانے کے تمام چور تقریباً اپوزیشن ہی کی صفوں سے گرفتار ہورہے ہیں، تاہم اپوزیشن جماعتوں کی وہ قیادت جو بدعنوانی کے الزامات سے بری الذمہ تھی، اُس میں کوئی سیاسی بصیرت ہوتی تو وہ حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی تھی،کیونکہ مقدمات اور گرفتاریوں سے حکومت پر دباؤ دالنے کے تمام آپشن ختم نہیں ہوجاتے۔ مولانا فضل الرحمن کی ”اے پی سی“ کی ناکامی محض مولانا کی کوئی ذاتی ناکامی نہیں،بلکہ پوری اپوزیشن کی بدنامی ہے جو جلسوں سے لے کر جلوسوں تک ہر جگہ موجود ہونے کے باوجود حکومت کے دروازے تک نہ پہنچ سکی۔ اپوزیشن کوجلسے کرنے اور جلوس نکالنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،کیونکہ پاکستان کی سڑکیں کافی لمبی اور پارک بہت بڑے ہیں، نعرے لگانے اور بھنگڑا ڈالنے پر کوئی پابندی نہیں، چیخ و پکار اورتقا ریرکرنے کی بھی اجازت ہے، رائے عامہ ہموار کرنے کے بہانے اسلام آباد کی بجائے دوسرے شہروں کا رُخ کرنا بھی آسان ہے، 25 جولائی کا یوم سیاہ بھی ویسے ہی گزر جائے گا جیسے گزشتہ حکومت مخالف احتجاجی تحریکیں گزر گیں،تاہم عوام کے سروں پر پانچ سال تک ایک نئی حکومت کے مسلط رہنے کا جو آئینی فیصلہ ہوچکا ہے اُس کو منسوخ یا تبدیل کرنا اپوزیشن کی بس کی بات نہیں ہے۔متحدہ اپوزیشن کو وزیراعظم ہٹانے پر اتفاق اور حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت تھی،جبکہ وہ چیئرمین سینیٹ ہٹانے پر اتفاق کررہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی ”اے پی سی“ کے مشترکہ اعلامیے میں حکومت کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینے کے باوجود اس خطرے سے نمٹنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔اگر اپوزیشن رہنما پوری ذمے داری کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ حکومت ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے تو اس کے ردعمل میں اپوزیشن ابھی تک کوئی لائحہ عمل کیوں نہ دے سکی۔ مشترکہ اعلامیے میں حکومت پر سنگین الزامات لگائے گئے، تاہم ایسی حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوئی موثر منصوبہ بندی سامنے نہ آسکی، حالانکہ کہ غربت، افلاس کی بڑھتی ہوئی صورت حال اور عوام دشمن بجٹ پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا جو بالکل بجا تھا،مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی دوبڑی جماعتیں اپنی داخلی کمزوریوں اور کرپشن مقدمات کی وجہ سے اس قدر خوفزدہ اور پسپا ہوچکی ہیں کہ وہ وزیراعظم عمران خان سے براہ راست استعفے کا مطالبہ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ بات بھی سمجھ لی جائے کہ موجودہ دور حکومت میں پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور محفوظ مستقبل کو جس حد تک نقصان پہنچے گا، اس کی ایک ذمے داری براہ راست موجودہ اپوزیشن پر بھی عائد ہوگی۔
اس میں شک نہیں کہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر اپوزیشن بے اعتمادی کا شکار ہے،ایک سیاسی پارٹی کو دوسرے پر اعتبار نہیں،خود کو بچانے کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانا چاہتے ہیں، مولانا فضل الرحمن کی ”اے پی سی“ نے مایوسی میں مزید اضافہ کیاہے۔ امریکا اور اُس کے غلام عالمی مالیاتی اداروں نے جس طرح مجبورحکومت کو ٹریپ کیا، اُس سے کہیں زیادہ اپوزیشن رہنماؤں نے عوام کو دھوکا دیاہے، کیو نکہ یہ عوام کی مدد سے عوام ہی کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے، مگر ایسا لگتا ہے کہ کرپشن مقدمات اور الزامات میں ڈوبے اپوزیشن رہنما بھی بیرونی آقاؤں کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے راستہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں عوام کی نظرمیں ناکام ہیں،حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آئی تھی، اس کی قوت برداشت اور رویے محل نظر ہیں، اپنے مخالف کو مخالفانہ یا اختلاف فکر رکھنے کا حق دینا،روح جمہوریت ہے۔اختلاف فکر کو طاقت،جبر اور دھونس سے دبانے کی کوشش کی موجودگی میں جمہوری نظام کہاں جمہوریت کہلا سکتا ہے۔ جمہوریت بدترین ہو کر بھی بہترین آمرانہ حکومت سے بہتر ہوتی ہے تو اس لئے کہ وہ مخالف یا ناقد کے وجود کو اختلاف فکر کی آزادی کے ساتھ قبول کرتی ہے۔ ہمارے سیاست داں اور حکمران جب تک جمہوریت کے محاسن کو اپنی فکر اور اپنے وجود کا حصہ نہیں بنائیں گے حقیقی جمہوریت کاخواب محض خواب ہی رہے گا اور ملک کبھی باہمی انتشار کی فضا میں ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکے گا۔