Buy website traffic cheap


بجٹ پر سینہ کوبی کی بجائے گرفتاریوں پر تالیاں!

بجٹ پر سینہ کوبی کی بجائے گرفتاریوں پر تالیاں!
تحریر:شاہد ندیم احمد
اپوزیشن کا حکومت کے خلاف تحریک چلنے کا امکان بہت کم ہے، حکومت اپنے وسائل، اختیارات اور اقتدار کے ساتھ مضبوط ہے جب کہ اپوزیشن کی دینی و سیاسی جماعتیں آپس کے اختلافات اور عدم اعتماد کی وجہ سے ایک ساتھ آگے بڑھنے کے لیے تیار نظر نہیں آرہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی دو بڑی جماعتوں کی قیادت کی گرفتاریوں کے بعد صورت حال مزید گمبھیر ہوگئی ہے، کیوں کہ کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار ہونے والی قیادت کو خالی جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے رہا کرانا ممکن نہیں رہاہے،چونکہ مقدمات کے چالان اور گرفتاریوں کے بعد معاملہ عدالتوں کے سپرد ہوچکا ہے،اس لیے سیاسی دباؤ عدالتوں کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوسکے گا۔ عوام بظاہر کرپٹ سیاسی قیادت کی گرفتاریوں پر خوش ہے اور مزید گرفتاریوں کا انتظار کررہے ہیں۔ حکومت مخالف تحریک چلانے کا مناسب وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) قیادت کی گرفتاریوں سے پہلے تھا،اس وقت اپوزیشن پا رٹیاں اپنے طور پر خوش فہمی کا شکار رہیں، گرفتاریوں کے بعد عام آدمی کی دلچسپی احتجاج کی بجائے کرپٹ عناصرکا منتقی انجام ہے۔حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے مولانا فضل الرحمن کا مشورہ اور تجاویزاپنی جگہ درست ہوں گی،تاہم بعض سیاسی اور دینی جماعتیں مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دے کر انہیں کوئی کریڈٹ نہیں دینا چاہتیں، بظاہر اے پی سی میں تمام سیاسی جماعتیں حکومت مخالف ایک پلیٹ فارم پر متحد نظر آنے کی کوشش کررہے ہیں،مگر اندرونی طور پر بے اعتمادی سب پرعیاں ہے،کوئی سیاسی جماعت کسی دوسرے کے لیے استعمال ہونے کو تیار نہیں ہے۔حکومت مخالف تحریک چلانے کاوقت اپوزیشن کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، آج کا وقت اور حالات وزیراعظم عمران خان کے لیے ساز گارنظر آتے ہیں۔
اگرچہ سیاست میں وقت وحالات بدلتے دیر نہیں لگتی، تاہم اس وقت وزیراعظم عمران خان اور ان کی پشت پر کھڑے دیگر ریاستی اداروں نے گرفتاریوں اور بجٹ کی ٹائمنگ اس طرح سے ترتیب دی ہے کہ عام آدمی بجٹ پر سینہ کوبی کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی گرفتاریوں پر تالیاں بجا رہا ہے۔ شاید عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ملک اور قوم کو موجودہ بحران اور دلدل میں اُٹارنے کے سب سے بڑے ذمے دار شریف خاندان اور زرداری فیملی ہے۔اس سیاسی آگاہی کا سارا کریڈٹ تحریک انصاف کو جاتا ہے،یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا کوئی بھی اقتدار پاکستان کے عوام کی قسمت بدلنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔عوام نے باریاں لینے والوں کوبڑی مشکل مسترد کرنے کے بعد تحریک انصاف کو موقع فراہم کیا ہے،تحریک انصاف حکومت نے ابھی تک کچھ زیادہ بہتر کار کردگی کا مظاہرہ نہیں کیا،عوام دن بدن معاشی طور پر مسائل کی دلددل میں دھنستے جارہے ہیں،اس کے باوجود نئی حکومت سے تبدیلی کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔پا کستانی عوام کو عمران خان کے علاوہ کوئی دوسرا اپشن نظر نہیں آرہا،تاہم برداشت اور قربانی دینے کا جذبہ اپنی آخری حدؤں کو چھونے لگا ہے،تحریک انصاف حکومت کو پکڑ دھکڑ سے آگے لوٹی گئی رقم کی وصولی کی جانب گامزن ہونا پڑے گا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مضبوط، محفوظ، خوشحال اور پُرامن پاکستان کے لیے صرف نواز، زرداری اور دیگر سیاسی قیادت کی گرفتاریاں کافی نہیں، لیکن اِن افراد کی گرفتاریوں کے دورس نتائج ضرور برآمد ہوں گے۔ قانون کی بالادستی قائم ہوگی، کرپشن کو روکنے میں مدد ملے گی اور عوام کو اپنی لیڈر شپ کو سمجھنے اور جاننے کاموقع ملے گا۔ کرپٹ
سیاستدان جنہوں نے ملک کے خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا،ان کی گرفتاریاں بہت ضروری تھیں،اس کا کریڈٹ حساس اداروں، عدالتوں اور وزیراعظم عمران خان کو جاتا ہے، تاہم ملک وقوم کے مفادات محض جیلوں کے دروازے کھولنے،بند کرنے اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگانے تک محدود نہیں ہوا کرتے، بلکہ بلا امتیاز سزاوجزا سے گزر کر کیف کردار تک پہنچانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ تحریک انصاف حکومت کی ساری کار گزاری احتسابی عمل کے گرد گھوم رہی ہے،احتساب سے کسی کو انکار نہیں،لیکن اس کے ساتھ عوامی مسائل کا تدارک وقت کی اہم ضرورت ہے،عوام کی خوشحالی، ترقی اور خوشی کے لیے عوام دوست بجٹ بنانابھی ضروری ہے۔اپوزیشن ایون میں بجٹ پر مثبت بحث کے ذریعے عوام کو رلیف دلوانے کی بجائے اپنے مفادی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کوشاں ہے،ایک طرف ملک کی معاشی بدحالی کو بہتر بنانے کیلئے میثاق معیشت کی تجویز دی جاتی ہے تودوسری جانب خود ہی اسے مذاق معیشت کہہ کررد کردیا جاتا ہے۔اپوزیشن ملکی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کے ایجنڈے پر وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں،جبکہ عوام بڑھتی مہنگائی پر سینہ کوبی کرنے کی بجائے سیاسی قائدین کی گرفتاریوں پر تالیاں بجاکراپنا غم غلط کررہے ہیں۔اپوزیشن کاباؤ بڑھاؤ ہاتھ ملاؤمقطہ نظر ہے،وہ خود کو بچانے کے ساتھ حکومت سے ڈیل اور ڈھیل چاہتے ہیں،جبکہ حکومت بار ہا ڈیل نہ کرنے کا عندیہ دے چکی ہے،تاہم پس پردہ سیاسی معاملات منتقی انجام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ حکمران اپوزیشن کو سینگ لڑانے کی مہیم جوئی سے گریز کرتے ہوئے قومی چیلنجز کے پیش نظرایک میثاق کی ضرورت ہے جس پر سب کا اتفاق ہوا،لیکن احتسابی عمل اور جمہوریت کو نقصان بھی نہ پہنچے،اسی میں سب کااجتماعی مفاد ہے۔