Buy website traffic cheap

Latest Column, Shahid Nadeem Ahmad, Minus Imran Khan

بچوں سے زیادتی کا مجرم سرعام پھانسی کا حقدار!

بچوں سے زیادتی کا مجرم سرعام پھانسی کا حقدار!
شاہد ندیم احمد

بچے کسی ملک کا ہی نہیں، بلکہ معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں، مستقبل کا معمار کہلانے والوں کو مہذب معاشروں میں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اگر کسی ملک کا قانون اور نظام خاص طبقے کو تحفظ فراہم نہ کر سکے تو مظلوم طبقہ سڑکوں پر احتجاج کرتا ہے،پارلیمنٹ میں اپنے حقوق غصب ہونے پر واویلا کرتا ہے اور حکومت پر دباؤ ڈالتا ہے کہ اس کے مطالبات تسلیم کرے،لیکن معصوم بچے لڑ نہیں سکتے،وہ اپنے حق میں کوئی تحریک نہیں چلا سکتے،اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات ملک کے لگ بھگ ہر علاقے میں ہو رہے ہیں، بچوں کے خلاف بھیانک جرائم کی سزا موجود ہے،مگر بیمار ذہن مجرموں کے دل میں سزا اور سماج کا کوئی خوف باقی نہیں رہا، صورت حال توقع سے زیادہ سنگین ہو چکی ہے، بچوں سے زیادتی کے پے در پے کیسز سے معاشرے کی ہولناک تصویر سامنے آرہی ہے۔ ہم نے مہذب معاشرے کاروشن چہرہ پیش کرنا ہے جو ناسوروں کے وجود سے پاک کرکے ہی ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کا حصول روایتی سزاؤں سیممکن نہیں، عبرتناک سزائیں ہی جرائم میں کمی کا سبب بنتی ہیں۔ قومی اسمبلی میں قرارداد منظور ہوئی،معاشرے میں بھی اسکی وسیع سطح پر حمایت پائی جاتی ہے۔ اس قرار داد کے مخالفین کے پاس سرعام سزاؤں کے علاوہ جرم کے خاتمے کی تجاویز ہیں تو ضرور سامنے آنی چاہئیں۔ شاید کسی کے افلاطونی دماغ میں اس ہولناک جرم کا تدارک ہو، مگر جو بھی جرم کرے گا، وہ دوسروں کی عبرت کیلئے سرعام پھانسی ہی کا حقدار ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی اور قتل کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کرلی گئی ہے، مگر اس پر حکومت اور پیپلزپارٹی کا ردعمل سمجھ سے بالاتر ہے۔ مذکورہ قرارداد کی منظوری کے بعد فواد چودھری اور شیریں مزاری نے اسے افسوسناک قرار دیا، جبکہ پوری پیپلزپارٹی مخالفت میں کھڑی نظر آئی، زیادتی کسی کے ساتھ ہو، انتہائی افسوسناک ہے اور جب بات بچوں تک پہنچ جائے تو اس کی سنگینی میں کئی سو گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس قرارداد کی مخالفت کرنے والے کیا زیادتی اور قتل کے مجرموں کو ہار پھول ڈالنا چاہتے ہیں۔یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ اقوام متحدہ نے سزائے موت کے خلاف قرارداد منظور کی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کو ایک مجرم کی زندگی تو بہت پیاری ہے، مگر پھول جیسے معصوم بچے اقوام متحدہ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے،بہتر ہوگا کہ ملک میں اس قسم کی مخالفت کرنے والوں کو نظر انداز کیا جائے اور سنگین جرائم کے لیے نہ صرف موثر قانون سازی کی جائے، بلکہ اس پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے۔ اغوا، زیادتی اور قتل جیسے قبیح جرائم کے خلاف موثر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے مجرموں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں۔
اس وقت معاشرہ بڑھتے جرائم کی حوصلہ شکنی کا متقا ضی ہے،یہ کسی ایک انفرادی سانحہ سے متعلق نہیں، کولیٹرل ڈیمیج کا مسئلہ ہے، معاشری انحطاط اور اخلاقی زبوں حالی کے المیہ سے نمٹنے کا ہے، حکومت اور اہل سیاست پوری سنجیدگی سے سسٹم کے قانونی سقوم کو دور کرنے کی تدبیر کرنی چاہئے، پولیس کی شفاف تحقیقات، تفتیش اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دلانے کے لیے بنیادی اقدامات پر توجہ دینی چاہئے۔ہر دور حکومت میں بچوں کے خلاف جرائم پر پولیس‘ سماجی اداروں اور حکومتوں کی طرف سے فکر مندی کا اظہار کیا جاتا رہا مگر یہ فکر مندی جرائم کی شرح کو کم نہ کر سکی‘ سماج اور قانون کا باہمی تعلق بتاتا ہے کہ افراد اگر کسی جرم میں بے باک ہو جائیں تو سمجھیں معاشرہ اور قانون دونوں کا خوف ان کے دل سے نکل گیا ہے۔ بچوں کے خلاف جرائم کیوں بڑھ رہے ہیں یہ الگ موضوع ہے‘ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کیا سزا دی جائے یہ وہ سوال ہے جس کی جانب سے معاشرے کے کچھ بااختیار حلقے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ حکومتی وزیر موصوف نے سرعام پھانسی کی قرار داد کو انتہا پسندی اور تشدد کو بڑھاوا دینے سے تعبیر کیا ہے۔ سوال تو یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب وزراء خود پر تنقید کرنے والوں پر سرعام تھپڑ برسائیں گے تو کیا معاشرے میں انتہا پسندی، قانون شکنی اور تشدد پسندی نہیں بڑھے گی۔ رہی بات سرعام پھانسی کی سزا کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کی حیثیت کی تو سعودی عرب اور ایران میں کچھ عرصہ قبل تک سرعام سزائے موت کا رواج رہا جس کے وجہ سے وہاں جرائم کی سطح ہمیشہ کم رہی ہے۔ سزا کا بنیادی مقصد لوگوں کے دل میں ریاست اور قانون کا خوف پیدا کرنا ہے، موجودہ قوانین مجرموں کو قرار واقعی سزا کی بجائے ان کے لئے قانونی آسانیاں پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔مستقبل کے معماروں کو تحفظ دینے کے لئے پارلیمنٹ کو مغربی معاشروں اور عالمی رواجات کی بجائے مقامی ماحول اور ضروریات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ پیپلزپارٹی کے جوقائدین اور وزرا کرام اس قرار داد کی مخالفت کر رہے ہیں انہیں ان معصوم بچوں اور ان کے لواحقین کی بے بسی کا خیال کرنا چاہیے جو اب بھی ریاست پر بھروسہ کرتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی کے حوالے سے قرارداد منظور کرنا اہم قدم ہے، تاہم اس سلسلے کو رکنا نہیں چاہیے،عبرت ناک قانون سازی کے عمل کے ساتھ کوئی ایسا مانیٹرنگ سیل بھی بنایا جانا چاہیے جس میں دیکھا جائے کہ اس قسم کے کیسوں کو حل کرنے میں پولیس کی کیا کارکردگی ہے اور مجرموں کو نشان عبرت بنانے میں کونسی روکاوٹیں کارفرما ہیں۔ گزشتہ تجربات یہی بتاتا ہے کہ مجرم پولیس کی مدد سے بچ نکلتے ہیں۔ اول تو ایسے مجرم کبھی پکڑے ہی نہیں جاتے اور کبھی گرفت میں آ بھی جائیں تو ان کے خلاف پولیس اتنا کمزور مقدمہ بناتی ہے کہ وہ باآسانی عدالت سے رہا ہوجاتے ہیں۔یہ افسوس بات ہے کہ مخالفت کرنے والوں نے تمام حدیں عبور کر لی ہیں اور سرعام پھانسی دینے کو حیوانیت اور بربرازم قرار دے رہے ہیں۔ کاش مسلمانوں جیسے نام رکھنے والوں نے اللہ کے احکامات بھی جان لیے ہوتے۔ آئین میں اگر سرعام سزا دینے پر رکاوٹ ہے تو آئین شریعت اور سنت سے بالاتر نہیں ہوسکتا، خدا نہ کرے کہ مخالفت کرنے والوں کے بچوں پر کوئی افتادآن پڑے، کیونکہ جس کے بچوں کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی، اس نے یہی مطالبہ کیا کہ ان قاتلوں کو سرعام پھانسی دی جائے۔ یہ اعتراض انتہائی احمقانہ ہے کہ سخت سزاؤں سے جرائم کم نہیں ہوتے،کیا اسلام کے نام پر بننے والی مملکت خداداد میں اسلامی قوانین پرکبھی عمل کرکے بھی دیکھا ہے؟ہمارے معاشرتی وسیاسی بڑھتے مسائل کی وجہ اپنے دین اسلام سے روح گردانی ہے،جب تک اہم اغیار کی رضاکیلئے اپنے اسل دین ا سلام کے قوانین سے نظریں چراتے رہیں گے،دنیاوآخرت میں زلیل وخوار ہونے کے ساتھ عدم تحفظ کا شکار رہیں گے۔