Buy website traffic cheap


نیب کا کرپشن فری پا کستان!

نیب کا کرپشن فری پا کستان!
شاہد ندیم احمد

قومی احتساب بیورو کے قیام کا بنیادی مقصد کرپشن کی روک تھام کے لیے نہ صرف اقدامات کیئے جائیں، بلکہ بدعنوان افراد کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے،جہاں ان کو قانون کے مطابق سزا دی جاسکے۔ ادارہ نیب قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ، کرپشن اور دیگر مالی بدعنوانیوں کے خاتمے کے لئے طویل عرصہ سے سرگرم عمل ہے اور اب تک بدعنوان عناصر سے اربوں روپے کی لوٹی ہوئی دولت وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرائی جا چکی ہے۔ نیب کی اس کارروائی کو جہاں بے پناہ سراہا گیا وہاں کرپشن کے کیسز میں اس کے انویسٹی گیشن کے طریق کار، ٹھوس ثبوتوں کے بغیر سمنوں کے اجرا، گرفتاریوں، ریفرنس دائر کرنے میں غیر معمولی تاخیر، بغیر مقدمہ کے ملزموں کو لمبے عرصے تک جیلوں میں بند رکھنے اور اس نوعیت کی دوسری شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔ یہ شکایات سیاستدانوں سے لے کربیورو کریسی تک،ہرطبقہ ئفکرکو ہیں، جنہیں دور کرنے کے لئے سفارشات کے ساتھ نیب قوانین میں ترمیم کا مسودہ تیار کر لیا گیاہے۔مجوزہ ترامیم کے تحت نیب 90 دن کے بجائے ملزموں کو 14 روز تک تحویل میں رکھ سکے گا، نیب انکوائری کو چھ ماہ کے عرصہ میں مکمل کرنا لازم ہو گا۔ سرکاری افسروں کے خلاف انکوائری سکروٹنی کمیٹی کی منظوری سے مشروط ہو گی، اس کمیٹی میں بیوروکریٹ شامل ہوں گے،یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ نیب عوامی عہدہ رکھنے والے شخص، اثاثے ظاہر یا بے نامی رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کا مجاز نہ ہو گا۔نیب قانونین میں ترمیم کا مقصدسب کے لیے یکساں نصاف کی فراہمی ہونا چاہئے۔اس سے کسی طبقے کے بارے میں تعصب کا پہلو نہیں نکلنا چاہئے۔ اگر حکومت کسی نئے تنازعے سے بچنا چاہتی ہے تو اسے اپوزیشن کو ساتھ ملا کر افہام و تفہیم کے ساتھ نیب قوانین میں ترمیم کرنی چاہئے، تاکہ کسی کو اس کے خلاف ہنگامہ کھڑا کرنے کا موقعہ نہ مل سکے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ابتدا میں نیب کا ادارہ ایسے احتساب کے لئے تشکیل دیا گیا جس کا مقصد اپوزیشن کو دباؤ میں رکھنا تھا۔ میاں نواز شریف کے ادوار حکومت میں سیاسی مخالفین پر جو مقدمات بنائے گئے وہ ابھی تک نیب تحقیقات کی فائل میں موجود ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے اقتدار کا ایک جواز ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی بتایا تھا۔ اس بدعنوانی کو روکنے کے لئے انہوں نے پولیس، ایف آئی اے اور سی آئی اے سٹاف کی بجائے قومی احتساب بیورو کی تشکیل نو کرکے نظام ترتیب دیا، آغاز میں اس ادارے نے قابل قدر کردار ادا کیا،مگر جنرل پرویز مشرف جوں جوں سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوتے گئے،نیب کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کرنے والی شخصیات نے اپنے کام کی ترجیحات اسی طرح تبدیل کرنا شروع کر دیں۔ چیئرمین نیب کی تقرری کا معاملہ سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے دور میں دونوں بڑی جماعتوں نے باہمی مشاورت سے طے کیا کہ وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن باہمی مشاورت سے چیئرمین کا تقرر کریں گے۔ اس مشاورت کے نتیجے میں جسٹس (ر) دیدار حسین، ایڈمرل فصیح بخاری، قمر الزماں چودھری اور پھر 2017ء میں موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کا تقرر ہوا۔ادا رہ نیب پر اعلیٰ عدلیہ، پارلیمنٹ اور بیوروکریسی شدید تنقید کرتی رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس(ر) جواد ایس خواجہ نیب کی پلی بارگین پالیسی کو ہدف تنقید بناتے رہے ہیں،جبکہ نیب حکام کا کہنا ہے کہ وہ اب تک 240 ارب روپے سیاستدانوں، بیوروکریٹس، سابق فوجی افسران اور وائٹ کالر جرائم میں ملوث دیگر افراد سے برآمد کر چکے ہیں۔نیب کا نصب العین کرپشن فری پا کستان ہے،جس کے لیے کار کردگی کو غیر متازع بنانا ہوگا۔ اس وقت نیب نے احد چیمہ اور فواد حسن فواد جیسے بیوروکریٹس کے خلاف کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ حکومت نئے مقدمات بنانے کی بجائے پہلے سے موجود مقدمات کے جلد فیصلوں میں دلچسپی رکھتی ہے،تاکہ ان مقدمات کو الگ کیا جا سکے جن میں ثبوت ناکافی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف حکومت نے عوام سے بے رحم احتساب کا وعدہ کر رکھا ہے،لیکن جن بااثر حلقوں سے لوگ وائٹ کالر کرائمز میں ملوث ہیں وہ نیب کے قانون، طریقہ کار اور اختیارات کے معاملات کو متنازع بنا کر حسب منشا ترامیم کے خواہاں ہیں۔ نیب کو داخلی طور پر کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں، عدالتی عمل میں سست روی، قانونی چارہ جوئی کے قابل قبول ثبوت کی تلاش اور عملے کی تفتیشی صلاحیت میں اضافہ ان مسائل میں شامل ہیں۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بطور چیئرمین حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی روایات کو بڑھاوا دیا ہے۔وہ اپنی ترجیحات کا ذکر وہ مختلف مواقع پر کی جانے والی تقاریر میں کرتے رہتے ہیں۔ نیب سے متعلق ترامیم میں تجویز ہے کہ ملزم کو 90 روز حراست میں رکھ کر چالان پیش کرنے کی بجائے پہلے اس کے خلاف ثبوت اکٹھے کئے جائیں اور پھر 14 روز کا ریمانڈ دیا جائے، تاہم اس ضمن میں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہئے کہ یہ معمول کے ملزم نہیں ہوتے اور نہ ان کے خلاف ثبوت جمع کرنا آسان ہوتے ہیں۔ حمزہ شہباز کی طرح اگر کوئی ملزم نیب تفتیش کے لئے پیش ہونے سے انکار کر دے تو پھر اسے کس طرح قابو کیا جائیگا،احتساب کے شور میں طاقتورمجرم عبرت کا نشان بننے کی بجائے قانونی کمزوریوں سے مستفید ہو کر آزاد گھوم رہے ہیں۔اگرچہ احتساب سے سیاست دان مستثنیٰ ہو سکتے ہیں نہ تاجر، بیورو کریٹس یا دوسرے طبقات، مگر اس حوالے سے آئین اور قانون پر سختی سے عملدرآمد ضروری ہے۔احتساب کے نام پر کسی بھی شخص کے خلاف اس وقت تک کارروائی نہیں ہونی چاہئے جب تک اس کے خلاف ٹھوس ثبوت اور شواہد حاصل نہ کر لئے جائیں۔ اس وقت کئی لوگ جیلوں میں بند ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ نیب کے پاس ان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات دائر کرنے کے لئے ٹھوس ثبوت نہیں، یہی وجہ ہے کہ آئے روز ان کا ریمانڈ لیا جاتا ہے جس سے ایک طرف زیر حراست افراد کی حق تلفی ہوتی ہے تو دوسری طرف نیب کی ساکھ پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔
بالا شبہ عوام میں اداروں کی ساکھ کی خرا بی کی ذمہ دارناقص کا رکردگی ہو تی ہے،تاہم قوانین میں ترمیم ا داروں کی کار کردگی کوبہتر بنا نے کے لیے ہی کی جاتی ہے،مگر عام طورپردیکھنے میں آیا ہے کہ طاقتور کے پریشر کے زیر اثرآسانیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ حکومت پہلے ہی تاجر برادری کے دباؤ پر ا ن کے خلاف شکایت کا جائزہ لینے کے لئے خصوصی کمیٹی بنا چکی ہے، اب بیوروکریٹس کے لئے الگ خصوصی کمیٹی بنا کر گویا احتساب کے عمل پر سمجھوتے کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ نیب قوانین میں بہتری کے لیے ترامیم پر اعتراض نہیں،مگر ترامیم کی آڑ درامیں طاقتور مافیا کو رلیف کا تاثر قائم نہیں ہو ناچاہئے۔نیب قوانین میں ترامیم کے ساتھ پراسیکیوشن کے شعبے کو زیادہ موثر اور ذمہ دار بنانے کی ضرورت ہے۔ 90 روز کی حراستی مدت تبدیل کرنے کی بجائے بہتر ہو گاکہ کمزور تفتیش کرنے پر متعلقہ تفتیشی عملے کے خلاف کارروائی کی جائے،کیونکہ ادارہ اہل کاروں کی ملی بھگت سے ہی طاقتور کرپٹ مافیامحفوظ ہو تاہے۔پاکستان کا سماج جس بڑے پیمانے پر بدعنوانی میں مبتلا ہے، اسے کڑے احتسابی عمل سے گزارنے کے ساتھ متوازن اور شفاف رکھنا ہو گا، پا کستانی عوام کرپشن سے پاک پا کستان بنانے کی شدت سے خواہاں ہے،اس کے لیے نیب افسران اور اہلکارو کوعملی طورپر تمام تر توانائیاں بروئے کار لا تے ہوئے عوامی توقعات پر پورا اُترنا ہوگا۔