Buy website traffic cheap

قصور وار

آخر قصور وار کون ؟

آخر قصور وار کون ؟
تحریر سدرہ اسلم
گزشتہ چند روز قبل ایک انسانیت سوز واقع رونما ہوا جس پر حوا کی ایک اور بیٹی کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوا اس واقع میں اسما نامی خاتون پر شوہر کی طرف سے تشدد کیا گیا اور اس کے سر کے بال کاٹ دئیے گئے۔ کانہہ کی رہائشی اسما کے مطابق جب وہ پولیس اسٹیشن پہنچیں تو ان کی ایف آئی آر کاٹنے کے لئے پولیس نے پانچ ہزار روپے کا مطالبہ کیا۔ پاکستان کا چوتھا ستون میڈیا جس نے سب سے پہلے آواز اٹھا?ی تاکہ بے بس اور لاچار اسما کو انصاف مل سکے۔ مگر جیسے جیسے کھتی سلجھتی گئی ایسے حقائق سامنے آئے جو میڈیا کے نمائیندگان کے لئے بھی لرزا خیر تھے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے ایسا کیا ہوا جو الجھی ہوئی گھتی سلجھتی چلی گئی۔سوشل میڈیا پر اسما کے ڈانس کی ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کیس کا رخ تبدیل ہوگیا۔ بقول اسما کے اس کا شوہر اسے شراب پینے کا کہہ رہا تھا اور اپنے دوستوں کے سامنے ڈانس کرنے کا کہہ رہا تھا جس پر انکار کرنے کے باعث اس کے شوہر نے اسے مارا پیٹا اور اس کے کان کا پردہ بھاڑ کر اس کے سر کے بال کاٹ کر اسے گنجا کر دیا۔ جب کے میڈیا کی سورسز کے ذریعے یہ بات کا انکشاف ہوا کہ فیصل اسما کا دوسرا شوہر تھا اور اسما کا پہلا شوہر بیرونی ملک کماتا تھا جبکہ اسما پاکستان میں رہیتی تھیں اور پہلے شوہر سے اسما کے دو بچے ہیں جن میں انیس سال کا بیٹا اور پندرہ سال کی بیٹی شامل ہیں۔ یہی نہیں وہ پاکستان میں او ایل ایکس پر گاڑیاں سیل کرنے اور خریدنے کا کام بھی کرتی تھیں اسی دوران ان کی ملاقاتیں فیصل سے ہونا شروع ہوئیں اور بات اگے بڑھی تو اسما نے اپنے پہلے شوہر سے خلا لے کر فیصل سے دوسری شادی کر لی۔ جبکہ فیصل بھی پہلے سے شادی شدہ تھا۔ اس کے علاوہ یہ انکشاف بھی ہوا ہے۔ اسما اپنے پہلے شوہر کے گھر سے بھاری نقدی اور بہت کچھ لے کر بھاگی تھیں جس کی وجہ سے ان پر بھاگنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ یہ کہنا تب تک قبل از وقت تھا کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ جب تک اسما کی ڈانس کی ویڈیو وائرل نہیں ہوئی تھی۔ اسما نے یہ بات پر زور دیا تھا کہ فیصل اسے زبردستی ڈانس کرنے کے لئے اکساتا رہا ہے جبکہ اس ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے وہاں کہیں بھی فیصل نظر نہیں آرہا اور اسما اپنی مرضی اور رضامندی سے ایک انجان مرد کے ساتھ ڈانس کرتی دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس سب معاملات سے یہ بات عیاں ہوگ?ی ہمارا ملک پاکستان اتنا لبرل اور مأڈرن ہو چکا ہے کہ اس نے ویسٹرن کلچر کو مکمل طور پر اپنا لیا ہے۔ جہاں عورت آج بھی مظلومیت کا چولہ پہین لے تو مردوں کو بڑے سے بڑی سزئیں ہوجاتی ہیں۔ مگر میرا اسما سے سوال ہے اگر وہ اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ یہ سلوک نہ کرتی تو شاید انہیں یہ سب نہ جھیلنا پڑتا۔ یہ دنیا ایک مکافات عمل ہے جہاں ہر انسان کو اس کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں مل جاتا ہے۔ یہاں میڈیا اور دنیا کی نظر میں اسما نے خود کو مظلوم اور فیصل کو ظالم ثابت کرنے کی بہت کوشش کی تمام تر کاروائی بہت اچھے طریقے سے پلین کی گئی مگر میں فخر محسوس کرتی ہوں اپنے میڈیا کا جنہوں نے مکمل اور جامع حقائق کا پتہ لگایا اور ایک بہس جو بہت سے دنوں سے زیر بحث رہی اس کا پردہ فاش کر کے یہ بتایا کہ ہر بار بھی عورت مظلوم نہیں ہوتی کہیں بار انسان کی اپنی کرنی اس کے اگے آجاتی ہے۔ اس تمام تر معاملے میں دونوں ہی غلط تھے اور جب ان لوگوں سے متعلق اہل محلے سے پوچھا گیا کہ یہ کس قسم کے لوگ تھے تو ان کی جانب سے بھی یہ کہا گیا کہ ان کے گھر کے باہر روز بہت سی گاڑیاں آکر رکتی تھیں۔ اہل محلے کے مطابق اندر کچھ مشکوک سر گرمیوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ اگر اسما بے قصور ہیں تو انہوں نے اس کاروائی سے قبل پولیس یا میڈیا کے سامنے کسی قسم کے ظلم اور جبر کی آواز کیوں نہیں اٹھائی انہوں نے یہ سب اس وقت ہی کیوں کیا جب ان کے سر کے بال کاٹ دئیے گءئے۔ سر کے بال کاٹے جانا بھی ایک عجیب معاملہ ہے کیونکہ اگر کسی کے سر کے بال تشدد کر کے کا ٹے جاتے ہیں تو اتنی صاف شفاف حالت میں بال نہیں کٹتے بلکہ بے ترتیبی واضح ہوتی ہے مگر اسما کے سر کے بال اس صفاء سے کاٹے گئے ہیں جیسے انہوں نے اپنی مرضی اور رضا مندی سے بال کٹوائے ہیں۔ باقی کے معاملات بھی آئینے کی طرح صاف ہیں ہر بار قصور وار مرد نہیں ہوتا یہ سچ ہے غلط کاموں میں فیصل برابر کا شریک ہے اور اسے سزا ہونی چاہیے مگر جو انکشافات اس کیس کے دوران سامنے آئے ہیں انہوں نے کیس میں موجود عورت پر تشدد اور مار پیٹ کے معاملے کو بہت حد تک کمزور کردیا ہے۔ یہاں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو نے میڈیا کو ایک سرا دیا جس کے بعد اور مزید معلومات اکھٹی کرنے میں ہمارے نمائندگان کو مشکل تو بہت پیش آئی مگر وہ ہمت نہ ہارے انہوں نے یہ بتادیا سکے کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں