Buy website traffic cheap


آزادی مارچ اور اپوزیشن میں اختلاف

آزادی مارچ اور اپوزیشن میں اختلاف
مہر اقبال انجم
آزادی مارچ کے ہر طرف چرچے ہیں،مولانا فضل الرحمان بضد ہیں کہ انہوں نے اسلام آباد جانا ہے اور حکومت سے استعفیٰ لینا ہے، اس ضمن میں جمعیت علما اسلام بھر پور تیاریوں میں مصروف ہے، اجلاس پر اجلاس ہو رہے ہیں، ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے، اپوزیشن جماعتوں سے بھی اجلاس ہورہے ہیں، مولانا فضل الرحمان سے کبھی ن لیگی وفد ملاقات کر رہا ہے تو کبھی پیپلز پارٹی کا، مولانا کا دعویٰ ہے کہ پندرہ لاکھ لوگ اسلام آباد لے کر آئیں گے اور حکومت کا استعفیٰ لے کر گھر جائیں گے۔
اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کے لانگ مارچ کی ابھی تک کھل کر حمایت نہیں کی، مسلم لیگ ن کے تاحیات قید میاں نواز شریف جو العزیزیہ ریفرنس میں سات برس کی قید کوٹ لکھپت جیل میں کاٹ رہے تھے انہیں نیب نے چودھری شوگر ملز کیس میں دوبارہ گررفتار کر کے احتساب عدالت میں پیش کیا تو وہاں نواز شریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن آزادی مارچ میں شرکت کرے گی،میاں نواز شریف کا دو ٹوک موقف سامنے آیا تو مسلم لیگ ن میں اختلاف کی جو خبریں آ رہی تھیں ان کو مزید تقویت ملی، ن لیگ مولانا کے آزادی مارچ کو لے کر اختلافات کا شکار ہے، شہباز شریف جن پر نیب کیسز چل رہے ہیں اور وہ ضمانت پر ہیں وہ چاہتے ہیں کہ مولانا کے آزادی مارچ میں شرکت نہ کی جائے اگر آزادی مارچ ناکام ہوا تو پھر کیا بنے گا، شہباز شریف کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابھی تک مولانا ہمیں آزادی مارچ کے حوالہ سے کچھ بھی واضح نہیں بتا رہے کہ مارچ کا آغاز کہاں سے،کیسے ہو گا، صرف میڈیا پر خبریں آ رہی ہیں،ہمیں مولانا پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے، ایک اجلاس میں شہباز شریف نے مولانا کے آزادی مارچ کی مخالفت کی،اسی روز شہباز شریف اپنے بھائی سے ملنے کوٹ لکھپت جیل نہیں گئے تو اختلافات کی خبریں میڈیا پر آنا شروع ہو گئیں،اگلے روز کیپٹن ر صفدر نے کہا کہ نواز شریف نے آزادی مارچ میں شرکت کے لئے حسین نواز کو خط لکھا ہے وہ مولانا سے رابطے میں رہیں گے اور ن لیگ مارچ میں شرکت کرے گی تا ہم نواز شریف نے خود کہہ دیا کہ انہوں نے شہباز شریف کو خط لکھا ہے جس میں آزادی مارچ میں شرکت کا کہا ہے، نواز شریف کا خط بھی سامنے آ گیا بعد میں وہی خط ن لیگی وفد مولانا فضل الرحمان کے پاس بھی لے کرگیا جہاں مولانا کو یقین دہانی کروائی گئی کہ ن لیگ ان کے ساتھ ہے تا ہم شہباز شریف ابھی تک بڑے بھائی کی بات ماننے کو تیار نہیں، شہباز شریف کی کمر درد آئے روز اتنی شدید ہوتی جا رہی ہے کہ شاید شہبا ز شریف آزادی مارچ سے قبل ہسپتال میں داخل ہو جائیں اور وہاں سے تماشا دیکھیں۔
نواز شریف کے دو ٹوک اعلان کے بعد ان کے داماد کیپٹن ر صفدر نے آزادی مارچ کے حوالہ سے باقاعدہ مہم شروع کر دی ہے، لاہور میں داتا دربار پرکیپٹن ر صفدر نے حاضری دے کر کہا کہ آج سے آزادی مارچ کا آغاز ہو گیاہے،کیپٹن ر صفدر مانسہرہ سے ن لیگ کا بڑا قافلہ لے کر آزادی مارچ میں شریک ہوں گے،ان کا مولانا سے بھی رابطہ ہے، بحرحال آزادی مارچ کے حوالہ سے مسلم لیگ ن میں دو مختلف بیانئے دیکھنے میں آ رہے ہیں، ن لیگ کس صورت میں اور کتنا شریک ہو گی یہ تو آنے والا وقت بتائے گالیکن کم از کم شہباز شریف آزادی مارچ سے دور ہی رہیں گے، وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی کم ازکم ایک پیشنگوئی تو درست ثابت ہوئی، شیخ رشید کئی بار کہہ چکے کہ شہباز شریف مارچ میں شرکت نہیں کریں گے اور ان کی یہ واحد بات سچ ثابت ہو رہی ہے، شیخ رشید نے تو مولانا کو بھی مشورہ دیا ہے کہ ڈینگی آیا ہوا ہے اس لئے اسلام آباد نہ آئیں لیکن مولانا کسی کی نہیں مان رہے۔
پیپلز پارٹی بھی مولانا کے آزادی مارچ میں باقاعدہ تو شریک نہیں ہو رہی البتہ بلاول زرداری نے اعلان کیا ہے کہ وہ بھر پور حمایت کریں گے، سندھ حکومت مولانا کے ساتھ بھر پور تعاون کریں گے،اسی لئے مولانا آزادی مارچ کا باقاعدہ آغاز کراچی سے کرنا چاہتے ہیں کیونکہ سندھ حکومت مولانا کے آزادی مارچ میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کرے گی، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں آزادی مارچ کے لئے رکاوٹیں ہوں گی، گرفتاریاں بھی ہو سکتی ہیں، راستے بھی بند ہو سکتے ہیں اس لئے مولانا فضل الرحمان نے آسانی کے لئے کراچی کا انتخاب کیا، سہراب گوٹھ سے آزادی مارچ نکلے گااور اندرون سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا پنجاب میں داخل ہو گا،بلاول زرداری متوقع طور پر سکھر میں آزادی مارچ میں خطاب کر سکتے ہیں،انہی دنوں میں بلاول زرداری نے بھی ملک بھر میں جلسوں کا اعلان کر رکھا ہے، اٹھارہ اکتوبر سے کراچی میں ہونے والے جلسے سے باقاعدہ بلاول بھی حکومت کے خلاف تحریک شروع کر رہے ہیں، شیڈول جاری کر دیا گیا ہے،آخری جلسہ نومبر کے آخری تاریخوں میں مظفر آباد میں ہو گا،مولانا آزادی مارچ اسلام آباد لے کر آئیں گے اور بلاول مختلف شہروں میں ماحول گرمائیں گے۔مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے حوالہ سے اسوقت الیکٹرانک میڈیا میں اگرچہ بلیک آوٹ ہے اور یہ حکومت کی غلطی ہے،آزادی اظہار رائے کو دبایا نہیں جا سکتا اسکا متبادل مولانا کے پاس سوشل میڈیا ہے، ٹویٹر پر ان کے فالورز متحرک ہیں،الیکٹرانک میڈیا کے بلیک آوٹ کے باوجود باغی ٹی وی آزادی مارچ کے حوالہ سے مسلسل بہترین کوریج کر رہا ہے، باغی ٹی وی کے اونر کا اگرچہ مولانا کے ساتھ اختلاف ہو سکتا ہے اور شاید ہو بھی سہی لیکن باغی ٹی وی پر جو کوریج آزادی مارچ کے حوالہ سے ہو رہی ہے وہ شاید باقی میڈیا نہیں کر رہا، باغی ٹی وی کی خبریں آزادی مارچ کے حوالہ سے غیر جانبدار ہوتی ہیں اور یہی میڈیا کا کام ہے لیکن شاید باقی میڈیا کسی دباوکی وجہ سے کوریج نہیں کر رہا، باغی ٹی وی کی موبائل ایپ بھی ہے جو پلے سٹور پر جا کر ڈاونلوڈ کی جا سکتی ہے،نہ صرف آزادی مارچ بلکہ باغی ٹی وی پر جو بھی خبر ملے گی حقیقت پر مبنی، غیر جانبدار اور صحافتی اصولوں کے تقاضوں کے عین مطابق ملے گی،ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی میڈیا کا ادارہ غیر جانبدار رہے لیکن باغی ٹی وی موجودہ حالات میں آزادی اظہار رائے کے لئے سب سے موثر اور اہم ترین کردار ادا کر رہا ہے،مجھے باغی ٹی وی کا اسوقت معلوم ہوا جب میرے ایک دوست نے بطور نیوز ایڈیٹر جوائن کیا،پہلے تو میں نے اسے سیریس نہیں لیا لیکن جب باغی ٹی وی کی کوریج دیکھی تو اب کہیں اور جانے کی بجائے موبائل ایپ کے ذریعے باغی ٹی وی پر ہر لمحہ آنے والی نئی اپڈیٹ کو دیکھتا رہتا ہوں۔
اپوزیشن جماعتوں کی تو آزادی مارچ کے حوالہ سے تیاریاں جاری ہیں تو حکومت بھی آزادی مارچ کو روکنے کی تیاریاں کر رہی ہے، حکومتی وزرا پر آزادی مارچ اتنا سوار ہو گیا کہ انہیں کشمیر بھول گیا ہے، جو بھی وزیر بولتا ہے آزادی مارچ کے خلاف بولتا ہے، فردوس عاشق اعوان ہو یا فواد چودھری، غلام سرور ہو یا گورنر پنجاب و سندھ، وزیر اعلیٰ پنجا ب ہو یا خیبر پختونخواہ سب آزادی مارچ کے خلاف ایسے لب کشائی کرتے ہیں جیسے انہیں یقین ہو چکا کہ مولانا اسلام آباد آئیں گے اور انکی حکومت سے استعفیٰ لے کر ہی جائیں گے، حکومتی وزرا کے آزادی مارچ کے مخالف بیانات سے آزادی مارچ کو مزید شہہ مل رہی ہے،اگرچہ پاکستان کے سینئر و معروف اینکر،جرنلسٹ مبشر لقمان نے گزشتہ روز وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کی اور انہوں نے ملاقات کا حال بتاتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ وزرا کو اس بات سے روکیں گے کہ ذاتیات پر نہ اتریں، مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم انتظار کر رہے ہیں کہ مولانا اسلام آباد آئیں حکومت ان کو نہیں روکے گی،وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ آزادی مارچ اتنا بڑا نہیں ہو گا، اگر ان کے ساتھ لوگ ہوتے تو یہ قومی کی نہیں تو صوبائی اسمبلی کی سیٹ ہی جیت جاتے لیکن مولانا نہیں جیت سکتے، وزیراعظم عمران خان آزادی مارچ کو لے کر قطعی طور پر پریشان نہیں بلکہ وہ اسوقت امت کے لئے جو کچھ کر رہے ہیں وہ مطمئن ہیں، وزیراعظم عمران خان ایران گئے اور ایران نے سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کے لئے فری ہینڈ دیا، امریکی صدر، سعودی عرب نے بھی ایران کے ساتھ ثالثی کے لئے وزیراعظم عمران خان کو کہا تو ایسے میں وزیراعظم عمران خان امت کے لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں جو اسلامی ممالک میں پائی جانے والی کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے کردار ادا کر رہے ہیں اور ایسا پہلی بار رہو رہا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کو اسلامی ممالک کشیدگی کم کروانے کے لئے خود کہہ رہے ہیں، وزیراعظم نے کشمیر پر اقوام متحدہ میں دو ٹوک موقف پیش کیا جسے نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ دنیا بھر میں سراہا گیا،وزیراعظم عمران خان آزادی مارچ کی فکر کو چھوڑ کر اسوقت امت کے مسائل کو سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں، وقت آنے والا ہے کہ ایٹمی پاکستان عالم اسلام کی قیادت کرے گا اور وزیراعظم عمران خان کو اگر مولانا فضل الرحمان وزیراعظم نہیں مانتے تو نہ مانیں لیکن امت مسلمہ عمران خان کو اپنا لیڈر تسلیم کر چکی ہے اور کرے گی۔