Buy website traffic cheap

قومی پالیسی

قومی پالیسی اشتہارات تنقید کی زد میں ، آزاد صحافت کی بقاءکیلئے اہم فیصلوں کی ضرورت

گزشتہ چند ماہ سے صحافت اپنے کڑے وقت سے گزر رہی ہے۔ایک طرف اگرچہ ایسی صورتحال میں بھی صحافیوں میں باہمی یک جہتی کا فقدان ہے مگر پھر بھی کسی نہ کسی صورت میں صحافی برادری کی جانب سے ”صحافیوں کو معاشی قتل عام بند کرو“کے مطالبے کی بازگزشت بھی سنائی دے رہی ہے تو دوسری طرف اشتہارات کے حوالے سے قومی پالیسی پرسیاسی حلقوں میں گرما گرم بحث کا آغاز ہوچکا ہے ۔گزشتہ روز سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے وزارت کی اشتہارات کے حوالے سے قومی پالیسی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کےلئے اشتہارات کی پالیسی بنانے سے قبل اسے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے ،کمیٹی اراکین نے وفاقی وزیر اطلاعات کی اجلاس میں عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اگلے اجلا س میں شرکت یقینی بنانے کی سفارش کی ہے ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آج اجلاس میں حکومت کی اشتہارات کی پالیسی کے حوالے سے انتہائی اہم ایجنڈے کو زیربحث لانا تھا جس میں وزیر اطلاعات کی شرکت انتہائی ضروری تھی انہوں نے کہا کہ اس پالیسی سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اشتہارات کی پالیسی بناتے وقت قائمہ کمیٹی کو اعتماد میں لینا انتہائی ضروری تھا انہوںنے کہاکہ اراکین کمیٹی کو بھی حکومت کی ڈرافٹ کردہ پالیسی پر بے شمار تحفظات ہیں قائمہ کمیٹی سفارش کرتی ہے کہ حکومت نئی پالیسی کو قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں زیر بحث لائے بغیر منظور نہ کرے ۔چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ضم کرنے سے معاملات میں بہتری نہیں آئے گی میکنزم واضح نہیں ہے ، اشتہارات کے بغیر معاملات چل ہی نہیں سکتے اور میڈیا کےلئے بھی اشتہارات انتہائی اہم ہیں ڈرافٹ پالیسی میںیہ تاثر ہے کہ گروتھ آف میڈیا میںرکاوٹ ، ریجنل کوٹہ ، تقرریاں اور اشتہارات کمپنیوں کو نکالا جارہا ہے اور پروڈکشن ہاﺅسز سے وزارت کس طرح ڈائریکٹ معاملات طے کر سکتی ہے اشتہارات کے حواے سے ریٹ بڑھانے اور کم کرنے کا طریقہ کار ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا علیحدہ علیحدہ میکنزم ہوتا ہے میڈیا ویلیو ایڈیشن پرائیوٹ سیکٹر کو آفر کرتا ہے کہ اچھا بزنس کس طرح بنتاہے اس کا ذکر تک نہیں ہے انہوں نے کہا کہ اداروںکے بجٹ میں پروجیکشن کےلئے بجٹ مختص کرنے سے بھی بہتری آسکتی ہے اور ویب سائٹ پر بھی معلومات و اشتہارات بہتری لا سکتے ہیں سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ کسی بھی ملک کی ترقی جانچنے کےلئے اس ملک کی آرٹ اور کلچر کی ترقی کو دیکھا جاتا ہے ۔ ایسے موقع پر سیکرٹری اطلاعات و نشریات شفقت جلیل کا اظہار خیال حوصلہ افزاءہے کہ پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کیا جارہا ہے اور میڈیا سے متعلق شکایت کے ازالے کے حوالے سے قوانین تیار کیے جارہے ہیں انہوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ برس 86 ارب کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بزنس ہوا تھا جو موجودہ سال 81.6 ارب کا رہا ۔ گزشتہ برس الیکٹرانک میڈیا نے 42 ارب کا بزنس کیا اور موجودہ سال 38 ارب کا تھا پرنٹ میڈیا نے گزشتہ برس20 ارب کا اور اس سال 19.5 ارب کا بزنس کیا ہے البتہ ڈیجیٹل میڈیا کے بزنس میں بڑا فرق آیا ہے ۔یہاں یہ بات قابل غوروفکر ہے کہ حکومت خود تسلیم کر رہی ہے میڈیا متاثر ہوا ہے اور متاثر ہو بھی رہا ہے ،قوانین نے کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہے کہ وہ وجوہات اور محرکات ڈھونڈے جائیں جس کے باعث صحافت اس کڑے وقت سے گزر رہی ہے اگر حکومت کا یہ دعوی درست ہے کہ سواارب روپے دیئے گئے ہیں تو پھر بھی میڈا کرائسز میں کیوں ہے؟کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟ حکومت کو چاہیے کہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر حکمت عملی مرتب کر ے جو صحافت کی بقاءکیلئے نہایت اہم اور ضروری ہوچکا ہے