Buy website traffic cheap

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ؛؛ حسیب اعجاز عاشرؔ

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ؛؛ حسیب اعجاز عاشرؔ

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
حسیب اعجاز عاشرؔ
سقوط ملتان کے مجرم رنجیت سنگھ کی برسی پر اُسے میڈیا پر پنجاب کے مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا مگر ملتان کے آخری مسلمان حکمران نواب والئی ملتان مظفر خان،جو مہارجہ رنجیت سنگھ جیسے باطل کے سامنے ڈٹ گئے اورحق کا ساتھ دینے اور سرنگوں نہ ہونے کے پاداش میں جام شہادت نوش کرگئے، کی دو جون کی یومِ شہادت ایسی خاموشی سے گزر گئی جیسے اُن کا وجود اِس دنیا میں کبھی رہا ہی نہ ہو۔اصل تاریخ کو بالا طاق رکھ کر ایک لمحہ کے لئے تھوڑا تفکر کریں تو یہ تو عام فہم سی بات ہے کہ مہاراجہ قدموں کی تھاپ کی آواز کے بغیر ہی کشمیر،ملتان اور دیگر علاقوں پر قابض نہیں ہوا ہوگا یقینا دوسری جانب سے مزاحمت بھی ہوئی ہوگی اور اِ س محاذ پر بھی مسلمانوں نے اپنی گردنیں کٹائیں ہوں گی۔اورحقیقت بھی یہی ہے کہ اصل تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ پشاور،افغانستان اور دیگر علاقوں سے مسلمانوں نے جذبہ جہاد کے ساتھ رنجیت سنگھ سے مقابلہ کیا۔پھر بھی تعجب ہے موجودہ حکمرانوں کی سوچ وفکر پر کہ جسے بھیانک سپنا سمجھ کر بھلا دینا چاہیے تھا اُسے یاد رکھنے کے لئے اپنے وسائل اور صلاحیتوں کو صرف کیا جارہا ہے۔
بڑی ہی تلخ اور کڑوی حقیقت ہے کہ ہم نے ایک طرف تو اپنے اسلاف کی قربانیوں کو نظرانداز کرنے کی روایت کو اِس بار بھی قائم رکھا اوردوسری طرف ایک قدم آگے بڑھ کر قربانیاں لینے والوں کی صفوں میں جا کھڑے ہوئے۔ کہا گیا کہ مہاراجہ سماجی مساوات اور مذہبی آزادی پر یقین رکھتا تھا۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کی اپنے وزیرخارجہ فقیر عزیز الدین سے ہونے والی اِس بات کا بھی حوالہ دیا جاتا رہا کہ ”رب چاہتا ہے کہ میں ہر مذہب کو ایک نظر سے دیکھوں اس لیے رب نے مجھے صرف ایک آنکھ ہی دی ہے“۔ تحقیق کی جستجو میں سرکھپایا جائے تو انکشاف ہوگا کہ یہ باتیں ہندو اور سکھ تاریخ دانوں کی کتابوں سے کشید کر کے آگے پھیلائی جا رہی ہیں دوسری طرف کسی مسلمان تاریخ دان کی کتابوں میں ایسا تاثر بالکل نہیں ملتا کہ مہاراجہ پنجاب کے لئے کوئی فرشتہ صفت حکمران تھا بلکہ فتنا ودجال اور جلاد سے کسی درجے کم نہ تھا۔
آج ہمارے ہر ملتانی بھائی کی آنکھ پرنم اور دل آشکبار ہے کہ اُن کے قاتلوں کو سرکاتاج بنا دیا گیا۔اصل تاریخ بتاتی ہے کہ سکھوں کی فوج میں سقوط ملتان ڈھانے کے بعد علاقے اور گردونواح میں خوب لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کررکھا تھا۔بچوں بڑوں کا بے دردی سے قتل عام کیا۔یہاں تک کہ چادر اورچار دیواری کی حرمت اور عظمت کو پامال کرتے ہوئے گھروں میں جا دھمکے تو اپنی عزتوں کوبچاتی خواتین خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوگئیں۔اُس پُرآشوب دور میں کتب خانوں کو نظر آتش کردیا گیاشعائر اسلام کی بے دریغ بے حرمتی کی گئی۔ایسے میں ایک مجاہد اسلام فخر ملتان نواب مظفر خان ہی تھا جس کے دو بیٹے شہید کر دیئے گئے مگر باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تو دختر صبیحہ بی بی اور اِس کے دوسرے بھائی کو بھی قتل کر دیاگیا۔کسی شاعر نے بیٹی صبیحہ اخترکی جنگ میں شمولیت اور شہادت پراس طرح منظر کشی کی ہے۔ ”او تاں گئی اے گھول گھمائی سارے خویش توں اس کوں حوراں مہندی لائی وچ رن دے“۔بات اِدھر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ رنجیت سنگھ کے اِس پیغام پر کہ تمہاری نسل ختم ہونے کے قریب ہے،ہاتھ کھڑے کر دو،جواب ملتا ہے کہ پانچ کیا پانچ لاکھ بچے بھی ہوں تو دھرتی ماں کیلئے قربان کر دوں۔تاریخ بتاتی ہے کہ اٹھارہ سو افراد لقمہ اجل بن گئے جن میں زیادہ تر نواب کے قبیلے اور خاندان ہی کے افراد شامل تھے،افسوس تو یہ کہ کچھ لوگ غداری کر کے دشمنوں کے ہاتھ بن گئے۔موت سرپر منڈلا رہی تھی مگر نواب مظفر غیرمتزلزل رہے اور فرمایا کہ میں مہاراجہ کی پناہ پراپنے رب کی پناہ کو ترجیح دینا پسند کروں گا۔یوں ملتان کا آخری مسلمان حاکم نواب آخری سانسیں بھر رہاتھا مگر لب پر کلام الہی جاری رہاتھا۔ ایک طرف مسلمان کا سچاکھرا اور بہادر حاکم کربلا کی تاریخ دھراتے ہوئے بہادری اور شجاعت کی عظیم داستان رقم کر رہا تھا تو دوسری طرف رنجیت سنگھ کے چاپلوس اور درباری تاریخ دان حقائق مسخ کرتے ہوئے من گھڑت تاریخ سپرد قرطاس کر رہے تھے۔یہی وجہ ہے آج نواب مظفر خان کی قبر پر پھول نہیں بلکہ اُن کی شہادت کی تاریخ 2 جون 1818ء پر دھول ڈالی جارہی ہے جب 27جون کو رنجیت سنگھ کی برسی کو منا کر اِس کی جھوٹی تاریخ کو زندہ رکھنے کی ناپاک کوششیں کرنے میں ملک کے کرتا دھرتابھی فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔یہی سکھا فوج کے ظلم و ستم کا تسلسل جاری رہتا ہے اوراِن کے ہاتھوں 6 مئی 1831ء کو بھی بالا کوٹ میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید سمیت سینکڑوں مسلمانوں کو شہید کر کے خون کی ندیاں بہائی جاتی ہیں۔ 1947میں مسلمانوں کی گردنوں پر خنجر چلا کرگلیاں بازار خون سے رنگنا بھی سکھا فوج کی اُسی سفاکی کی ایک اور کڑی تھی۔
اس پس منظر کے پیش نظر رنجیت سنگھ سے ہمارا لگاؤ اور سکھ یاتریوں کا والہانہ استقبال دیکھ کر کے ملتان کے باسی شکوہ کناں ہیں کہ پہلے دشمن سامنے سے حملہ آوار ہوتے تھے لیکن اب اپنوں کو ہی اپنوں کے خلاف استعمال کر کے ہماری کمر پر چھرے گھو نپ رہے ہیں۔ملتانیوں کے زخموں پر مرہم نہیں لگا سکتے تو کم ازکم اُن زخموں کو کرید کرید کر پھر سے تازہ تو نہ کریں۔ تصویر کے ایک رُخ کے مطابق ہم پر لازم ہے کہ آج سب ذمہ داران سر جوڑ کر فیصلہ کر کے اپنی نسل نو کو بتائیں کہ حق پر کون تھا؟ اور باطل کون؟کون ہیروتھا؟ اور کون قاتل؟ او راِس طرح تصویر کے دوسرے رُخ کے مطابق ملتان والوں کا شکوہ بے جا تو نہیں مگریہاں ملتان والوں سے بھی سوال ہے کہ اُنہوں نے اصل تاریخ کو زندہ رکھنے کے لئے اپنے اپنے دائرہ کار میں کیا کیا کاوشیں کی؟ کتنا لکھا گیا؟ کتنے سیمینارمنعقد ہوئے؟دو جون کو سقوط ملتان کے حوالے سے کہاں کہاں تقریبات منعقد کی گئیں؟؟یہاں یہ وضاحت بھی اہم ہے کہ حکمران کی اپنی کوئی سٹریٹیجی ضرور ہوسکتی ہے مگر رنجیت سنگھ کی سمادھی لاہور میں ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ لاہوریے اُن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یقین رکھیئے کہ یہ یاتری تو آ کر چلیں جائیں گے مگر ہم کو ہر دُکھ اور سکھ میں ایک ساتھ رہنا ہے، ملتان کل بھی ہمارا تھا اور آج بھی اور انشاء اللہ تعالی کل بھی ہمارا ہی رہے گا۔