Buy website traffic cheap

POTUS, Trump, Middle East , Plan, Arab League, OIC, Rejection, Palestine

او آئی سی نے امریکہ کا مشرقِ وسطیٰ سے متعلق منصوبہ مسترد کردیا

لاہور(ویب ڈیسک): عرب لیگ کے بعد اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے مشرق وسطی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدی کی ڈیل کو مسترد کر دیا ہے۔

او آئی سی کا اجلاس سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہوا، اجلاس کے دوران 57 ممبران نے شرکت کی، اجلاس کے دوران تمام ممبران سے امریکی منصوبے کے نفاذ کے لئے ٹرمپ انتطامیہ کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر زور دیا۔ الجزیرہ کے مطابق فلسطینی حکام کی درخواست کے بعد اجلاس بلایا گیا، یہ اجلاس عرب لیگ کے اجلاس سے دو روز بعد بلایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ عرب لیگ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیش کردہ امن ڈیل کو مسترد کر دیا تھا اور اس کو فلسطینیوں کے لیے یکسر غیرمنصفانہ قرار دیا تھا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق عرب لیگ کے وزرائے خارجہ نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہفتے کے روز ہنگامی اجلاس میں امریکی صدر کے پیش کردہ امن منصوبے پر غور کیا ہے۔ امن منصوبے پر غور کرنے کے بعد تنظیم نے بیان جاری کیا اور کہا کہ امریکا، اسرائیل کی ’’صدی کی ڈیل ‘‘ کو مسترد کرتے ہیں، یہ فلسطینی عوام کے کم سے کم حقوق اور اُمنگوں کو پورا نہیں کرتی ہے۔ عرب لیڈروں نے اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ’’الجزیرہ‘‘ کے مطابق ایران نے آج اپنے علاقائی حریف سعودی عرب پر الزام عائد کیا ہے کہ اپنے عہدیداروں کو او آئی سی اجلاس میں شرکت سے روک رہے ہیں۔ واضح رہے کہ عرب لیگ اجلاس کے دوران فلسطینی صدر محمود عباس نے عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس میں لمبی تقریر کی ہے اور انھوں نے اسرائیل اور امریکا کے ساتھ سکیورٹی تعاون ختم کرنے کی دھمکی دی ہے۔ امریکی منصوبے میں فلسطینیوں کو مقبوضہ مغربی کنارے کے بعض حصوں پر محدود خود مختاری دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ اسرائیل تمام یہودی بستیوں کو ریاست میں ضم کرسکے گا اور کم وبیش تمام مشرقی القدس پر بھی اس کا کنٹرول ہوگا۔ فلسطینی اتھارٹی نے عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی تاکہ صدر ٹرمپ کے امن منصوبہ پر مشترکہ ردعمل کا اظہار کیا جاسکے۔ صدر محمود عباس نے تقریر میں کہا کہ میں نے اسرائیل اور امریکا کو بتادیا ہے کہ ہمارے ان کے ساتھ سکیورٹی سمیت کسی قسم کے کوئی تعلقات نہیں ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فون کالز سننے سے انکار کردیا تھا اور ان کے پیغامات کا بھی کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ امریکی صدر بعد میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے ہم سے مشاورت کی تھی۔ محمود عباس نے دوٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا کہ میں اس حل کو کبھی قبول نہیں کروں گا۔ میں اپنی تاریخ میں نہیں لکھوں گا کہ میں نے یروشلیم (بیت المقدس) کو فروخت کردیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فلسطینی اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور مشرقی القدس دارالحکومت کے ساتھ اپنی ریاست کے قیام کے لیے بدستور پُرعزم ہیں۔ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں امریکا کو کبھی واحد ثالث کار کے طور پر تسلیم نہیں کریں گے۔ محمود عباس کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، دوسری عالمی اور علاقائی تنظیموں میں فلسطینیوں کے مؤقف کو اجاگر کرنے کے لیے جائیں گے۔ ہم اب بھی امن میں یقین رکھتے ہیں لیکن یہ امن ’عرب امن اقدام‘ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق قائم کیا جانا چاہیے۔ فلسطینی صدر نے وزرائے خارجہ کو مخاطب ہوکر کہا کہ یروشلیم صرف فلسطینیوں ہی نہیں، تمام عربوں کا ہے۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے محمود عباس سے گفتگو میں اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے اور کہا ہے کہ مملکت ہمیشہ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہوگی ۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے بھی اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ سعودی عرب فلسطینی عوام اور ان کے منصفانہ نصب العین کی حمایت جاری رکھے گا۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیط کاکہنا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا امن منصوبہ اسرائیل، فلسطین تنازع کے بارے میں امریکا کے دیرینہ مؤقف سے سرمو انحراف کا عکاس ہے۔ اس تبدیلی سے امن اور تنازع کے منصفانہ حل کے حصول میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں نے امریکی تجویز کو مسترد کردیا ہے۔انھوں نےاسرائیلیوں اور فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ دونوں طرفین کے اطمینان کے مطابق تنازع کے حل کے لیے مذاکرات کریں۔انھوں نے عرب لیگ کے رکن ممالک پر بھی زوردیا کہ وہ امریکی صدر ٹرمپ کے مشرقِ اوسط امن منصوبے کے ردعمل میں ایک مشترکہ مؤقف وضع کریں۔