Buy website traffic cheap

پروین شاکر, 25 برس, برسی

معروف شاعرہ پروین شاکرکو مداحوں سے بچھڑے 25 برس بیت گئے

لاہور(ویب ڈیسک): معروف شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 25 برس بیت گئے لیکن ان کے الفاظ آج بھی ہزاروں دلوں میں اپنے زندہ ہونے کا احساس دلا رہے ہیں ، اوراس عظیم شاعرہ کے ہمارے درمیان موجود ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر 24 نومبر 1952ءکو کراچی کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئیں،

ان کے والد سید ثاقب حسین بھی ایک شاعر تھے۔ انہوں نے انگلش لٹریچر اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر کو ایم بی اے کی ڈگری امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی سے حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔پروین شاکر نو سال تک استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ 1986ءمیں کسٹم ڈیپارٹمنٹ میں بحیثیت سیکرٹری خدمات سر انجام دیں۔ جبکہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے مکمل کیا گیا مقالہ، زندگی کے ساتھ نہ دینے کے سبب پیش کرنے سے قاصر رہیں۔ آپ کو اردو کے منفرد لب و لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت قلیل سی متاع حیات میں وہ کارنامے سرانجام دیے جن کی بدولت آپ کو پرائیڈ آف پرفارمنس اور آدم جی کے ایوارڈ ز کے ساتھ ساتھ ”خوشبو کی شاعرہ “ کے خطابات و القابات سے نوازا گیا۔پی ٹی وی کے پروگرامز میں بہترین میزبان کی حیثیت سے بھی جلو ہ گر ہوئیں۔ وہ اپنی اولین کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی ادبی رسالوں کے ذریعے ہزاروں دلوں کو اپنا مداح بنا چکی تھیں، جبکہ 1976 ءمیں محض 24برس کی عمر میں پروین شاکر کی پہلی کتاب” خوشبو“ شائع ہونے پر اس کتاب کو بے حد پذیرائی ملی، اور پروین شاکر کے فکرو فن کی خوشبو چار سو پھیل گئی۔ خوشبو کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ پہلی اشاعت کے چھ ماہ بعد ہی اس کا دوسرا ایڈیشن چھاپنا پڑا۔ اور کتاب نے تحفوں کی شکل اختیار کرنا شروع کردی ، اس کتاب نے پروین شاکر کے ادبی کیئریر میں نئی روح پھونک دی۔ پروین شاکر نے کچی عمراور نسل نو کے جذبات کی ترجمانی سے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر سادہ الفاظ میں نسائی انا، خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا،گہری شاعری کے اسلوب بیاں نے پروین شاکر کو جلد ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ پروین شاکر کی ذاتی زندگی پر نظر دوڑائی جائے توان کی ذاتی زندگی کا دکھ ازدواجی زندگی کے اختتام پر منتج ہوا۔ انہوں نے کراچی کے ڈاکٹر نصیر علی سے شادی کی جس سے ایک بیٹا مراد علی پیدا ہوا، بعدا زاں ڈاکٹر نصیر سے طلاق لیکر ازدواجی زندگی کو خیر آباد کہہ دیا۔ پروین شاکر کی شاعری کے موضوعات میں جہاں محبت ،عورت اور اقدارکا گراں قدر احساس موجود ہے، وہاںان کی شاعری میں دکھ اور حزن کی کیفیت بھی ابھر کر سامنے آئی۔ پروین شاکر کا شما ر ان چند ایک خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے خود کو منوایا۔ انہوں نے عورت کے مشرقی احساس ،کٹھن، دکھ اور ملال کی جومنظر کشی کی ان سے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اتنی نزاکت سے بیان نہیں کیا۔ماں کے جذبات ، شوہر سے ناچاقی اور علیحدگی، ورکنگ وومن کے مسائل، ان سبھی کو انہوں نے بہت خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے۔ جبکہ ان کی شاعری میں روایت سے انکار اور بغاوت بھی نظر آتی ہے۔پروین شاکر کی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات اور درد کائنات کے احساسات کا اظہا رہے، ان کی شاعری میں قوس قزح کے ساتوں رنگ نظر آتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہیں دور جدید کی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ان کے شعری مجموعے 1976ءمیں خوشبو، 1980 ءمیںصد برگ ،1990ءمیںخود کلامی ، 1990ءمیں ہی انکار ، اور 1994ءمیں ماہ تمام شائع ہوئے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نویسی بھی کی۔ ابھی فن وادب کے متوالے پو ری طرح سیراب بھی نہ ہو پائے تھے کہ خوشبو بکھیرتی پر وین شاکر 26 دسمبر 1994 ءپیر کے دن اسلام آباد اپنے آفس جاتے ہوئے ٹریفک حادثے میں 42 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملیں. برسی