Buy website traffic cheap


پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں میں کمی ۔عدالتی احکامات اورحکومتی اقدامات خوش آئندمگر مزید غوروفکر کی ضرورت

ایک خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے ایک بار پھر 5 ہزار روپے سے زائد فیس لینے والوں اسکولوں کو فیس میں 20 فیصد کمی کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ یہ حکم تمام اسکولوں کے لیے ہے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نجی اسکولوں کی اضافی فیسوں سے متعلق کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں پرائیوٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے صدر، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سمیت سیکریٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن عدالت میں پیش ہوئے۔دورانِ سماعت سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی نے عدالت کو بتایا کہ فیسوں میں کمی کے ساتھ ایک اسکول نے بچوں سے سوتیلوں جیسا سلوک شروع کر دیا، بچوں کیساتھ ناروا سلوک ہوا ہے، متعد اسکولوں نے فیس کم کی ہے لیکن عدالتی فیصلے کے بعد اسکول میں بچوں کو حاصل سہولیات میں بھی کمی کرنا شروع کردی گئی ہے۔چیف جسٹس پاکستان کے نوٹس میں یہ بات بھی لائی گئی کہ ایک اسکول میں ناظرہ قرآن پڑھانا ختم کردیا ہے اور ایک ہزار روپے فیس کم کی ہے۔اس پر جسٹس ثاقب نثار نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسکول فیسوں میں کمی کے بعد ری ایکشن دکھا رہے ہیں، یہ اسکول عدالت کے فیصلے کا مذاق اڑا رہے ہیں، عدالتی فیصلے کی تضحیک کی جارہی ہے، ہم ان اقدامات کو برداشت نہیں کریں گے، ان لوگوں کو پکڑیں گے اور ان کا ٹرائل کریں گے، ہمارا آرڈر بہت واضح ہے، پانچ ہزار روپے تک فیس لینے والوں کے لیے ایسا نہیں ہوگا لیکن جن کی فیسیں اس سے زیادہ ہیں ان کو کم کرنا پڑیں گی اور چھٹیوں کی فیس بھی واپس کرنا پڑے گی، یہ حکم تمام اسکولوں کے لیے ہے۔اس موقع پر پرائیوٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے صدر زعفران الہی نے عدالت میں کہا کہ چھٹیوں کی فیس واپس کی تو اسکول بند ہوجائیں گے۔اس پر چیف جسٹس پاکستان نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ بند ہوجانے دیں ایسے اسکولوں کو، جو چھٹیوں کی فیس واپس کرنے پر بند ہوجاتے ہیں، آپ عدالت کو بلیک میل کرنے کی کوش کررہے ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں میں بھاری فیسوں کی وصولی کے خلاف جہاں عدالت اعظمی کا نوٹس اور احکامات خوش آئندہیں وہاں حکومت کی جانب سے بھی اقدامات حوصلہ افزاءہیں،گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں پرائیویٹ سکولوں میں بھاری فیسوں کی وصولی سے متعلق بحث کے موقع پر صوبائی وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس نے کہاکہ 17 نجی سکولز کو زائد فیس لینے پرجرمانے کئے جاچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے کا جائزہ لینے کے لئے اتھارٹی قائم کر رہے ہیں جو باریک بینی سے تمام نجی سکولوں کے بارے جائزہ لے گی اور بہت جلد جامع پالیسی مرتب کر لیں گے۔ اتھارٹی قائم کرنے کے لئے وزارت قانون و انصاف کو ڈرافٹ بھیجا جا چکا ہے جس کی منظوری کے فوری بعد اقدامات کئے جائیں گے،تعلیم کے نام پر نجی سکولوں کی اجارہ داری قائم نہیں ہونے دیں گے،سب کو رولز اینڈ ریگو لیشن پر عمل کرنا ہو گا۔بظاہری طور پران سب احکامات اور اقدامات والدین کیلئے خوش آئند اور حوصلہ افزاءہی قرار دیا جاسکتا ہے مگر اس حوالے سے مزید غوروفکر کی ضرور ت ہے ۔اس وقت پنجاب پچاس ہزار سرکاری سکولوں کیساتھ اس خطے کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی خوش اسلوبی سے نگرانی ،سرپرستی اور رہنمائی یقینا ایک قابل ستائش فعل ہے ،مگر پھر بھی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر سکولوں کی تعداد ضرورت کے مطابق نہیں۔ یہی وجہ ہے کاروباری نقطہ نظر سے پرائیویٹ سکولوں کے قیام کا رحجان پیدا ہوا۔ جہاں سرکاری سکولوں کی نسبت زیادہ بہتر تعلیم و تربیت دینے کا دعوی بھی کیا جاتا ہے ۔باوجود اس کے کہ سرکاری سکولوں کے انتظامات اور تعلیمی معیار بھی کسی سے کم نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف پرائیویٹ سکولوں میں اُن بچوں کا رحجان زیادہ ہے جو سٹیٹس کے دلدادہ ہیں اور تمام اخراجات برداشت کرسکتے ہیں اور باخوشی پرائیویٹ سکولوں کو جاتے ہیںجبکہ دوسری طرف اُن بچوں کا رحجان زیادہ ہیں جو سفید پوش ہیں مگر معیار کے دلدادہ ہیں اور بچے کی اچھی تربیت کے مدنظر پرائیویٹ سکولوں میں جانے کو مجبور ہیں ،پالیسی سازوں کو سوچنا ہوگا کہ پانچ ہزار بھی ایک عام آدمی کیلئے بہت زیادہ ہے جبکہ پرائیویٹ سکولوں پر سختیوں کے باعث سہولیات میں کمی بھی کی جارہی ہے ۔ یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ سکولوں کے اوقات کار میں کمی کی جارہی ہے اور ایک استاد پر ذمہ داریاں بڑھا دی گئیں ہیں جیسے اُردو ٹیچر سے سائنس پڑھانے کا کام بھی لیا جارہا ہے ۔یقینا ایسے حالات میں تعلیمی معیار پر فرق آئیگا اور اگر والدین میں سرکاری سکولوں کا رُخ کرنا شروع کر دیا تو حکومت انتظامی حوالے سے فوری طور پر سکولوں میں بچوں کے اضافے کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ۔معاملہ اتناآسان نہیں جتنا بظاہر دیکھائی دے رہا ہے اور اتنا مشکل بھی نہیں جسکو سنبھالا نہ جاسکے مگر اس میں تاخیر مناسب نہیں ایسے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ والدین کو حقیقی ریلیف ملے اور غیرمعیاری تعلیم سے بچوں کا مستقبل بھی داﺅ پر نہ لگے