Buy website traffic cheap


عاجزی انسان کو بادشاہ بنا دیتی ہے

رانا شہزاد
دنیا میں ہر کونے میں بسنے والا انسان اپنے رویے سے پہچاناجاتا ہے جس طرح کا رویہ انسان کا ہو گا ٹھیک اُس ہی طرح کی رائے اُ س کے بارے میں قائم ہو گئی ۔انسان معاشرے میں رہتے ہوئے لوگوںکے ساتھ جو باہمی لین دین کرتا ہے اُس سے انسان کی سوچ ظاہر ہوتی ہیںاور اسی سلوک کی بنا پر ہم کسی بھی انسان کے بارے میں اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں ۔اگر ہم انسان کی سب سے اچھی خوبی ، صفات کی بات کر ے تو ہم کو سب سے اچھی صفت عاجزی لگتی ہے۔اگر ہم اپنے اسلامی عقائد کی بات کر ے تو ہم کو ہر وقت عاجز رہنے کا حکم ملتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا جوکچھ یوں ہے کہ ”اپنے پروردگار کو عاجزی سے اور چپکے سے پکارا کرو بے شک ! وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا “ (سورة الاعراف۔55) ، قرآن پاک کے آیت سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کو ہر وقت عاجزی و انکساری میں رہنا چاہئے اس سے نہ صرف اللہ پاک کی ذات خوش ہوتی ہے بلکہ انسان کو پہلے سے بھی زیادہ نوازتی ہے۔نبی اکرام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے: ”کوئی بھی ایسا شخص نہیں جس نے عاجزی اختیار کی ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے سرفرازی سے نہ نوازا ہو“ ۔مختصر لفظوں میں بات کرے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو نوازے تو عاجز و انکساری اختیار کر نی چاہیے نہ کہ غرور و تکبر میں پڑنا چاہیے اس طر ح سے اللہ تعالیٰ کی ذات انسان کو ذلیل و رسوا کر دیتی ہے
حال ہی میں میراایک پرائیو یٹ کمپنی میں جانا ہوا ۔جس میں میرے ایک دوست بطور سٹاف آفیسر کی جاب کر رہا ہے تو میں اُس کومبارک بات دینے کے لیے گیا تھا۔ ویٹنگ روم میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظارکر رہا تھا کہ ایک دم ایک سویپئر آیا جو بہت خوشی سے پھُولے سما نہیں رہا تھا ، آکر اپنے دوستوں کو بتانے لگا کہ وہ باجی جمیلہ جس کو کچھ دن پہلے مینیجر جزل پرتعینات کیا گیا تھا اُس کی اپنی ہی غلطی پر اُس کو عہدہ سے ہٹادیا گیا ہے۔میر ی احیرانیت اُس وقت اور بھی زیادہ ہو گئی جب میں نے سنا کہ کچھ دنوں میں ہی عہد ے سے فارغ کر دیااور وہ بھی اُس کی اپنی غلطی کی بنا پر تو میں نے اپنے طور پر سارے واقعے کا ایک بار شروع سے آخر تک پڑتال کر نے کی اُٹھان لی۔ بس پھر میں نے سویپئر کو اپنے پا س بلاکر بات کی تحقیق شروع کر دی ۔ سویپئر نے آنکھوں سے آنسوصاف کر تے ہوئے بتانا شروع کیا کہ باجی جمیلہ شروع سے ہی مینیجر جنر ل کی سیٹ پر کام نہیں کر رہی تھی ہمارے دفتر میں انتظامی تبدیلی کے بعد سب آفیسر تبدیل ہوئے تو باجی جمیلہ جو کافی سینئر تھی اللہ نے ان کی بھی سن لی تو ایک دن جنر ل مینیجر کی کر سی پر بیٹھ گئی ۔ جب اللہ کی ذات بند ے کو نواز تی ہے تو اس پر فرض ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے بندووں کا خیال رکھے نہ کہ وہ خود ہی انھوں کے لیے مصیبتوں کا سامان بننا شروع کر دے۔باجی جمیلہ جو کافی سینئر تھی مگر دفتر کے معاملات میں دوسروں پر بہت انحصار کر تی تھی ۔ کئی بار لوگوں نے سمجھایا کہ اب آپ کے کندوﺅں پر بہت باری ذمے داری آگئی ہے سوچ سمجھ کر اپنے فیصلے کیا کرے تاکہ کبھی بھی آپ کو کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑئے ۔ دفتر کافی بڑا تھالوگوں نے کام نہ کر نے کی قسم اُٹھا رکھی تھی اور باجی جمیلہ نے لوگوں کو سید ھا کرنے کی ۔ مگر باجی جمیلہ کے پاس اختیار ات بہت ہی محدود تھے جس کی وجہ سے وہ صرف چھوٹے سٹاف تک کی اپنی حکومت کر سکتی تھی ۔ لیکن یہ بات چھوٹے سٹاف کو بہت برُی لگتی تھی۔وہ چاہتے تھے کہ دفتر میں ایک ہی نظام ہو قانون ہو،جس کا اطلاق پورے دفتر پر ہو نہ صرف ایک طبقے پر۔باجی جمیلہ کی آفیسری سے چھوٹے ملازمیں بہت تنگ تھے جس وجہ شاید باجی کا قانون کے مطابق کام کر دائرہ کار تھا۔باجی جمیلہ کے مینیجر جزل بننے سے سویپئر بہت زیادہ تنگ تھے ،سویپئر جو صبح صبح آ کر دفتر کی صفائی و ستھرائی کر کے پاس کے چھوٹے چھوٹے دفتروں کی صفائی کے لیے چلے جاتے تھے ۔ باجی جمیلہ نے ان کا دفتر سے باہرجانا بند کر دیا تھا ۔ یوں کہے کہ سویپئر کی پارٹ ٹائم کی روزی مرگئی تھی۔ جس پر وہ بہت خفاءاور غمگین تھے اس بات کا شکوا ءوہ اکثر اپنے ادرگردکے دوستوں سے کرتے رہتے تھے ۔باجی جمیلہ بہت ہی غصیلے مزاج کی ملک تھی مگر اکثر باتوںسے ہی کا م چلا لیا کرتی تھی ۔ دفتر میں سٹاف کی کمی ہونے کی وجہ سے بہت مشکلات پیش آرہی تھی ۔ہر کوئی سٹاف کے پورے نہ ہونے پر باجی سے ناراضگی کا اظہار کرتا تھا ۔دفتر میں چھٹیو ں کا بھی ایک ضابطہ اخلاق تھا جس کو پیراعمل کر تے ہو ہر کوئی اپنی اپنی چھٹیاں کرتا تھا ۔ ایک بہن نے حال ہی میں اپنی تین ماہ کی چھٹی مکمل کر کے دفتر کا رُخ کیا تھا۔لیکن وہ اپنے رویے کو تبدیل کر نے کو تیار نہیں تھی کیونکہ گھر شہر سے دور تھا جس کی وجہ سے جمعہ کو جلد اور پیر کے روز دیر سے آنا ایک روٹین کا کام تھا۔اس بار پانچ چھٹیاں کر کے آئی تو باجی جمیلہ نے قانون کے مطابق اس کی خلاف قانونی چارجوئی کی اُٹھان لی ۔ باجی نے اپنی اسٹنٹ باجی فیاضی کو بلا کر اس کے آرڈر دو مختلف آفیسرز کے ساتھ کر نے کا حکم دے ڈالا۔ باجی جمیلہ کومینیجرجنر ل ہونے کی وجہ سے دن میں ایک دو میٹنگ پر ضرور جانا پڑتا تھا۔اُس دن باجی کی قسمت خراب کہ وہ جلد ی میں تھی اور اوپر سے پریشر بھی کام کابہت زیادہ تھا۔ باجی فیاضی نے حکم کی تکمیل اتنی تیزی کے ساتھ کی کہ کام کرتے ہوئے دوبارہ ری چیکینگ کر نا بھول گئی ،باجی جمیلہ جو کافی جلدی میں تھی بغیر دیکھے اور پڑھے ہوئے خط پر دستخط کر تی ہوئی میٹینگ پر چلے گئی ۔کسی نے بعد میں بھی پڑھنے کی تو فیق نہ کی ، اور خط مطعلقہ آفیسروںتک پہنچادیا۔باجی شکیلاجس کو سیلفی کا کافی شوق تھا اُس نے آرڈر کے ساتھ اپنی سیلفی بنائی اور سوشل میڈیا پر ڈال دی۔باجی شکیلاکی فوٹو منٹوں میں پوری دنیا میں گھومنے لاگی۔ کوئی گھنٹے بعد باجی جمیلہ میٹینگ ختم کر کے دفتر آئی تو پتہ چلا کہ آرڈر میں ایک لفظی غلطی تھی ، جس کی وجہ سے پورے محکمے کی بدنامی ہو رہی تھی۔لیکن اب پانی سر سے گزر چکا تھا۔یہ بات پورے شہر میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔باجی کو پورے ملک سے ایک نہ ختم ہونے والی فون کالز آنا شروع ہو گئی تھی۔ باجی کو خود سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ میں نے کو ن سی غلطی کر دی ، میرا کیا قصور ہے؟ باجی کو پتہ بھی نہ چلا اُس کی آنکھوں کے سامنے سے سب اختیارات چلے گئے ۔حقیقت میں کوئی بڑی غلطی بھی نہیں تھی نہ کوئی کرپشن کے چارجز ، نہ کوئی اختیارات کا غلط استعمال ، نہ کوئی مالی بے ضابطگی،اور نہ ہی کوئی خوردبرود کا معاملہ تھا بس ایک سیلفی نے باجی کے سارے کیر ئیر پر ایک سوالیہ نشان لگادیا ۔ باجی اس کو اپنے خلاف اغیار کی سازش سمجھنے لگی ۔ یہ کہہ کر سویپئر چلتا بنااتنے میں میرا دوست آگیا میں نے یہ معاملہ اس سے پوچھنا شروع کیا تو اس نے بتا یا کہ اللہ تعالیٰ نے باجی جمیلہ کو کچھ عرصہ پہلے ایک ساتھ ہی تین عہد ے د یے تھے۔باجی جمیلہ نے دفتر کو ایک احسن طریقے اور جامعہ پالیسی سے چلانے کی بجائے ہر ایک کے ساتھ اُلجھنے کی پالیسی اپنائی جس نے باجی جمیلہ کی ساخت کو کافی نقصان پہنچایا۔باجی جمیلہ نے اپنے محسن دوستوں کے ساتھ بھی برُا رویہ شروع کر دیا تھا جو لوگ باجی کو ترقی دلوانے میں شریک تھے ایک دن وہ بھی باجی کے ہاتھوں تنگ آکر اللہ تعالیٰ کے سامنے شکوے کرنے لگے تھے بہت لوگوں نے باجی کو سمجھایا بھی تھا کہ جیسے نظام چل رہا ہے چلنے دو مگر باجی نے کسی کی ایک نہ ماننی ۔ باجی کی اپنی حماقتوں کی وجہ سے ایک ایک کر کے باجی سے سب عہدے جاتے گئے۔اس وقت باجی پہلے کی طرح بغیر کسی عہدہ کے دفتر میںآتی ہے ایک کونے میں کچھ وقت گزارنے کے بعد چلے جاتی ہے۔اب باجی کے پاس نہ کچھ بولنے کو ہے اور نہ ہی کہنے کو،باجی کے پاس اب کافی وقت ہوگاتو باجی کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے کہ باجی کے دوست کون تھے ، دشمن کون تھے اور منافق کو ن تھے ،اتنے ٹھوڑے وقت میں کس کو خوش کیا کس کو ناراض ،باجی کو کس نے اس مقام تک پہنچایا۔ باجی نے کسی کی خوشی کے لیے نہ جانے کتنوں کے دل دکھے ہو گئے ۔باجی نے کیوں کسی کے کہنے پر لوگوں کی جواب طلبی کی ۔کیوں افسروں کو خوش کر نے کے لیے چھوٹے سٹاف پر قلم کی تلوار سے وار کی۔باجی میںخامیوں کے ساتھ ساتھ اچھائیاں بھی بہت تھی باجی مالی طور پر کمزور بندوں کی مدد بھی کر دیا کرتی تھی ۔ باجی بڑوں چھوٹوں کا اخترام بھی کیا کرتی تھی ۔باجی مینیجز جنرل کی کرسی پر خوش بھی نہیں تھی مگر قسمت کے فیصلہ کے آگے باجی مجبور بھی تھی۔ ضروری نہیں کہ یہ واقعہ حقیقی زندگی میں بھی رونما ہوا ہو۔اتنے میں ہماری بات چیت ختم ہوئی۔میں نے اپنے گھر کا راستہ تلاش کیا ۔ میں نے اس سارے واقعہ سے یہ نتیجہ نکلاکہ اگر ہم اللہ کی قدرت پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو گاآج تک کسی بھی انسان کو بلندی بغیر عاجزی و انکساری کے نہیں ملی۔میں نے اپنی زندگی میں کئی لوگ دیکھے ہیں جن کو اللہ ہر روز اپنی لاکھو ں نعمتوں سے نوازتا ہے ۔نہ انہوں کے پاس کوئی ہنر ہوتا ہے نہ ہی کوئی تعلیم ، اگر ہوتا ہے تو ایک عاجزی و انکساری ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔