Buy website traffic cheap


”یونین سازی طلباء کا بنیادی حق ”

”یونین سازی طلباء کا بنیادی حق ”
سلمان احمد قریشی
سند ھ اسمبلی نے طلباء یونین سے پابندی ہٹانے کی قرار داد منظور کر لی۔ اس موقعہ پر وزیر اطلاعات و محنت سندھ سید غنی کا کہنا تھا ”سیاست کیلئے کسی ڈگری کی نہیں بلکہ تربیت کی ضرورت ہو تی ہے اور اسکی نرسریاں کالجز اور جامعات ہیں۔ ملک میں جمہوریت اور سیاست کو اگر مضبوط کرنا ہے اور عوام میں شعور اور ووٹ کی طاقت کا بتانا ہے تو طلبا ء و مزدور یونین پر سے پابند ی ہٹانا ہو گی ”۔
طلباء یونین پر پابندی کے خلاف گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب پر سندھ پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔ اس پر ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی کا موقف سامنے آیا کہ طلباء یونین پابندی ہٹانے کیلئے ضرورت پڑی تو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی اس پر آواز بلند کی جائے گی۔ قارئین کرام!
قومی سیاست میں طلباء کا کردار کیا ہونا چاہئے؟ اس کا حتمی جواب نہیں کیونکہ پاکستان نے تو سیاست سے متعلق بھی منفی رجحان کو پروان چڑھانے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ یہاں تک کے جمہوریت کو غیر اسلامی تصور بھی قرار دیا گیا۔جنرل ضیاء الحق نے جہاں اپنی غیر آئینی حکومت کے تحفظ کیلئے دیگر اقدامات کئے وہیں 9فروری 1984کو طلباء کی سیاست پر پابندی کا اعلان کیا۔ یہ فیصلہ بظاہر طلباء میں نظریاتی تقسیم اور بڑھتے تشدد کی وجہ سے کیا گیا مگر اس کے محرکات سیاسی تھے۔ 1983ء میں پاکستان میں کالجز اور جامعات میں طلباء یونین کے الیکشن ہوئے تو حکومت مخالف نظریات کی حامل طلباء تنظیموں نے بھرپور کامیابی حاصل کی۔اس موقعہ پر جنرل ضیاء الحق کو خوف محسوس ہوا کہیں ایوب خان کی

طرح کوئی بڑی طلباء تحریک اس غیر آئینی اقتدار کے خاتمے کا باعث نہ بن جائے۔چنانچہ طلبہ یونین پر پابندی لگا دی گئی۔جنرل ضیاء الحق تو اسمبلی میں بھی سیاسی جماعتوں کے وجود کو برداشت نہیں کر سکتے تھے اس لئے 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر عام الیکشن کا انعقادہوا۔ ایسے ماحول میں طلباء کو کس طرح سیاسی سر گرمیاں جاری رکھنے کی اجازت ہو سکتی تھی۔
1988میں جمہوریت بحال ہوئی تو وزیر اعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو نے طلباء یونین پر عائد پابند ی ختم کر دی۔ 18ماہ کے اس مختصر اقتدار کے ساتھ دوبارہ جنرل ضیاء الحق کے نظریاتی حامیوں کی حکومت قائم ہوئی۔ 1990ء میں طلباء یونین کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیا گیا اور 1993ء میں دوبارہ پابندی عائد کر دی گئی۔طلباء سیاسی پلیٹ فارم محروم رہے، عرصہ گزر گیا 2008ء میں پیپلز پارٹی نے دوبارہ بر سر اقتدار آنے کے بعد طلبا ء یونین کی بحالی کے عزم کا اظہار کیا۔ تاہم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اپنا یہ وعدہ پو را نہ کر سکے۔پیپلز پارٹی ہی کی طرف سے 2017میں ایک اور کوشش کی گئی سینیٹ نے طلباء یونین کی بحالی کی قرار داد پیش کی، سندھ اسمبلی سے قرار داد کا پاس ہونا بھی ایک اور کوشش ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی تنہا یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ طلباء کا سیاست میں کیا کردار ہونا چاہئے اس کے لئے دیگر جمہوری نظریات کی حامل جماعتو ں کو باہم فیصلہ کر نا ہو گا۔
تاریخ عالم میں طلباء سیاسی مقاصد، روشن مستقبل اور بہتر تعلیم کیلئے کئی بار سڑکوں پر نکلے،ماضی بعید یا ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو طلباء تحریکوں کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ میکسکو، فرانس، سپین، جرمنی اور پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں طلباء تحریکوں سے ایوان اقتدار لرزتے رہے، بڑے بڑے سیاسی رہنما ایسے ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز طالبعلمی کے دور سے کیا۔ ماضی میں ہونے والی طلبا سیاست آج بھی نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔ طوالت سے بچنے کیلئے پاکستان میں طلباء تحریک کی بات کریں تو 1936ء میں آل انڈیا سٹوڈنٹ سے فیڈریشن سے الگ ہو کر قائم ہونے والی طلباء تنظیم آل انڈیامسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن سے شروع کرتے ہیں۔ اس سے قبل پنجاب میں 1933ء میں علامہ محمد اقبال کی خواہش پر طلباء تنظیم انٹر کالجیٹ مسلم برادرہڈ وجود میں آئی۔ برصغیر کے تمام مسلم طلباء نے خواہ انکا تعلق کسی بھی طلباء تنظیم سے ہو ہمت،جرات، حوصلہ اور پر جوش انداز میں تحریک آزادی میں شراکت داری کی لازوال مثال قائم کی۔قیام پاکستان کے بعد ترقی پسند طلباء تحریک، اسلامی جمعیت طلباء و دیگر مذہبی رجحان رکھنے والی تنظیمیں اپنی الگ الگ تاریخ رکھتی ہیں۔ایوب خان کو سب سے بڑا چیلنج طلباء ہی کی طرف سے پیش آیا۔قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو کامیاب لیڈر بنانے میں طلباء کا کردار کلیدی رہا۔ جنرل ضیاء الحق نے غنڈہ گردی کو جواز بنا کر طلباء کو سیاست میں داخلے پر پابند ی سے جہاں طلباء سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا وہیں تعلیمی ادارے بھی بد ترین گھٹن کا شکار ہوئے۔ طلباء مایوس ہوئے اور غیر جمہوری طاقتوں نے انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں یونین پر پابند ی کے باوجود ایک طلباء تنظیم جو حاکم وقت کے نظریات کی حامی تھی تعلیمی اداروں پر قابض ہو گئی۔ مسلم لیگ ن کے صفحہ اول کے لیڈر جو اس وقت جنرل ضیاء الحق کے ساتھی تھے طلباء یونین پر پابندی کے حمایتی تھے اور آج بھی طلباء یونین پر سے پابندی اٹھائے جانے کیلئے آواز بلند نہیں کرتے۔تن تنہا پاکستان پیپلز پارٹی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
طلباء اور سیاست کو الگ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ میر ولادی لینن نے کہا تھا ”ہم چاہیں یا نہ چاہیں سیاست کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ ایک دن یہ خود ہمارے دروازے پر دستک دیتی ہے”طلباء کو سیاست، معاشرتی اور ثقافتی سر گرمیوں سے دور رکھا ہی نہیں جا سکتا،ا یسی پابندیاں مزید مسائل پیدا کر تی ہیں۔مایوس ذہین ہی پابندیوں کی حمایت کر تے ہیں۔
ایوب خان کا زوال اور عمران خان کا عروج دونوں میں ایک چیز مشترک ہے وہ ہے طلباء کی طاقت۔ مولانا مودودی نے بہت سنجیدہ بات کہی تھی ”آدمی اپنے دشمن سے بخوبی لڑ سکتا ہے لیکن وہ اپنے ہاتھ پاؤں سے نہیں لڑ سکتا ”۔ فرانس کے رہنما ڈیگال دنیا کے سامنے نہیں جھکے لیکن اپنے طالبعلوں کے سامنے ٹھہر نہیں سکے۔پاکستان کی 66فیصد آبادی 30سال سے کم ہے اور زمانہ طالبعلمی 20سے 22سال تک محیط ہوتا ہے ایسے میں طالبعلموں پر سیاسی سر گرمیوں میں حصہ لینے کی پابندی جمہوری اصولوں کے بھی خلاف ہے۔نظریاتی سیاست پر پابندی کے باوجود پنجاب یونیورسٹی کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں جمعیت مضبوط رہی۔سیاست اور طلباء سیاست کو اس قدر بد نام کر دیا گیا کہ والدین بھی اپنے بچوں کو سیاست سے دور رہنے کا درس دینے لگے۔ یہ سارا مسئلہ سیاسی نہیں اس کے کچھ اور بھی محرکات ہیں۔تعلیمی اداروں میں فیسوں میں اضافہ، سہولیات کا فقدان، بے شمار مسائل، طلباء یونین پر پابندی سے بڑے ہیں ان میں کمی واقع نہیں ہوئی۔پرائیویٹ تعلمی ادارے خالصتاً منافع کو مد نظر رکھ کر چلائے جاتے ہیں اور طالبعلم اپنے مسائل کسی بھی پلیٹ فار م پر بیان نہیں کر سکتے۔ جنرل ضیاء کی آمریت سے قبل طلباء یونین بحال تھیں تو انکے لیڈرز کو یونیورسٹی سینڈیکیٹ میں بھر پور نمائندگی حاصل تھی۔ تمام درپیش مسائل یونیورسٹی کے پلیٹ فار م پر زیر بحث آتے۔ ملک میں جاری سیاست اور سیاسی فیصلوں پر بھی طلباء اپنی واضح رائے دے سکتے تھے۔ طلباء یونین پر پابندی کے بعد تعلیمی اداروں کی صورتحال بد سے بدتر ہوئی۔طلباء اور طالبات کے قتل کے واقعات بھی سامنے آتے رہے سب سے بڑھ کر پاکستان نے نظریاتی سیاست دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔
دنیابھر میں طلبا ء آج پہلے سے کئی گنا زیادہ متحد اور منظم ہیں مگر بد قسمتی پاکستان میں طالبعلم استحصالی نظام کے خلاف جدو جہد کرنے کے قابل بھی نہیں رہا۔تعلیم اور تعلمی سہولیات کیلئے پیسہ سب سے بڑی شرط بن گیا۔ فیصلہ سازی میں طلباء کا کوئی کردار نہیں۔ معاشرے میں منفی رجحانات پروان چڑھ رہے ہیں ان معروضی حالات میں طلباء کو منظم و متحرک ہونا ہوگا اور پاکستان کی سیاسی قیادت کو سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر طلباء کو انکے حقوق دینے ہوں گے۔انسانی حقوق کا عالمی منشور کے آرٹیکل 19کے مطابق لکھا ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے اور اسکو ظاہر کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں یہ عمل بھی شامل ہے کہ ہر شخص آزادی کے ساتھ بغیر کسی قسم کی مداخلت کے اپنی رائے پر قائم رہے۔پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19اور 19Aرائے اور آزادی اظہار رائے کی گارنٹی دیتا ہے۔ جہاں ووٹ کو عزت دیے جانے کی بات کی جاتی ہے وہاں طلباء کو یونین سازی کے حق سے محروم رکھنا کسی بھی طرح مناسب نہیں اس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو پیپلز پارٹی کی کوششوں اور موقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چائیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔