کفالت پروگرام۔۔۔مستحسن اقدام
کفالت پروگرام۔۔۔مستحسن اقدام
مبارک علی شمسی
کروناوائرس ایک عالمی وبا ہے جس نے اس کرہ ارض کے کونے کونے میں تباہی مچا رکھی ہے اور کوئی بھی ملک اس کی پہنچ سے دور نہیں رہا۔ امریکہ برطانیہ اٹلی سپین سعودی عریبیہ افغانستان ایران اور وطن عزیز پاکستان سمیت دیگر ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں۔ جبکہ پاکستان میں کروناوائرس کو آئے ہوئے ابھی 45 دن ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں لاک ڈاو±ن جاری ہے پارکس سنسان ہیں اور شاہرائیں ویران ہیں جس کی وجہ سے نظام زندگی درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔لاک ڈاو±ن کے باعث گھروں میں رہنے کی وجہ سے غریب اور دیہاڑی دار طبقہ کے لوگوں کو ضروریات زندگی کی اشیاءکے حصول کیلئے اور اپنے اپنے گھروں کا نان و نفقعہ چلانے کیلئے شدید مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے مسلسل گھروں میں مقید ہونے کی وجہ سے ان کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت حال میں لاک ڈاﺅن کی وجہ سے متاثرہ مفلس اور غریب خاندانوں کی کفالت کیلئے وزیراعظم عمران خان نے احساس کفالت پروگرام شروع کیا ہے جس پر تیزی سے عمل درآمد جاری ہے۔ اور اس پروگرام کے تحت مستحق خواتین کو حکومت کی جانب سے مبلغ 12 ہزار روپے دیئے جا رہے ہیں۔ اور اس رقم کے حصول کیلئے صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب میں مجموعی طور پر 17 ہزار سینٹرز بھی قائم کر دیئے ہیں جوفنکشنل بھی ہو چکے ہیں۔اور حالیہ اطلاعات کیمطابق ان کی تعداد مزید بڑھانے کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔احساس کفالت پروگرام کے پہلے مرحلہ میں ان خواتین کو رقم فراہم کی جا رہی ہے جو پہلے سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مستحق ہیں اور اس پروگرام کے تحت امدادی رقم وصول کرتی چلی آ رہی ہیں۔ جبکہ اس کے فوراً بعد اسی پروگرام کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گا جس میں اس پروگرام کے تحت ان لوگوں کو امداری رقوم ملے گی جو موبائل میسج کے ذریعے رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ جو لوگ اس پروگرام کیلئے اہل ہوں گےانہیں موبائل پر میسج موصول ہوگا جس پر ان کو رقم وصول کرنےکی تاریخ بھی بتائی جائے گی اور سینٹرکی بابت بھی بتایا جائے گا اور انہیں بائیومیٹرک کے بعد ہی رقم مل سکے گی۔
وزیراعظم عمران خان کی طرف سے شروع کیئے گئے اس احساس کفالت پروگرام کی قابل ذکر اور قابل فخر بات یہ ہے کہ لاک ڈاﺅن کے پیش نظر حکومت نے غرباءکو فراموش نہیں کیا اور ان پوائنٹس پر سوشل ڈسٹینس کو برقرار رکھنے کیساتھ ساتھ حفاظتی انتظامات کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔ جہاں پر خواتین بآسانی اپنے پیسے وصول کررہی ہیں اور وزیراعظم عمران خان سمیت ان کی پوری ٹیم کو سلام پیش کررہی ہیں۔ ہاں مگر سندھ کے چند مراکز سمیت ملتان میں مقامی انتظامیہ کی غفلت اور ان سینٹرز کے عملہ کی نا اہلی کی وجہ سے بدانتظامی دیکھنے میں آئی ہے جس کے باعث ایک عورت زندگی کی بازی ہار گئی اور متعدد خواتین زخمی بھی ہوئی ہیں اور یہی بات قابل تشویش ہے۔ جس پر حکومت کو چاہیئے کہ ذمہ داران کے خلاف سخت نوٹس لے تاکہ کفالت سینٹرز پر نظم و ضبط اور امن و امان کو یقینی لگایا جا سکے۔
تاریخ شاہد ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر تاحال جب بھی پاکستانی قوم پہ کوئی کڑا وقت آیا ہے یا اسے کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا ہے یا پھر یہاں پر کوئی وبا پھوٹ پڑی تو سب سے پہلے پاک فوج اور ہماری حکومت وقت ہی اس قوم کے کام آئی ہے اور اس قوم کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ پاکستان میں سیلاب زدگان کی امداد کا مسئلہ ہو یا زلزلہ زدگان کی بحالی کا مرحلہ ہو ڈینگی بخار یا کانگو وائرس کا مسئلہ ہو یا کروناوائرس کی حالیہ صورتحال ہو حکومت چاہے وہ سابقہ ہو یا موجودہ اس کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہی رہا ہے کہ ان متاثرین تک امداد کیسے پہنچائی جائے اور جن لوگوں یا گھرانوں کو امدادی رقوم وغیرہ سے نوازنا ہے کیا وہ لوگ اس کی اہلیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ پچھلی حکومتوں کے دور میں امداد کی ترسیل ایم این ایز ،ایم پی ایز، ڈی سی اوز، اسسٹنٹ کمشنرز، تحصیل داران، پٹواری حضرات اور سول انتظامیہ کے ذریعے کرائی جاتی تھی جس کا نصف حصہ وہ خود اپنی اپنی تجوریوں میں ڈالتے تھے اور بقیہ رقم ان صاحبان کے عزیزواقارب ان کے چہیتوں اور ان کے درباریوں میں بانٹی جاتی تھی اور ظلم در ظلم تو یہ کہ حکومتی مشینری کے کارکنان اگر کسی مستحق اور ضرورت مند تک یہ امداد پہنچابھی دیتی تھی تو ان میں بھی ان کے سپورٹران اور ان کے مخالفین کا فرق حائل ہوتا تھا۔ یوں 75 فیصد غریب اور مستحق لوگ اپنے ان حقوق سے محروم رہ جاتے تھے جو حکومت ان کیلئے متعین کرتی تھی تاہم حکومت کے نورنظر افراد اہل نہ ہونے کے باوجود بھی اس امداد سے نوازے جاتے تھے۔
مگر وزیراعظم عمران خان نے اس غیرمنصفانہ نظام کو تبدیل کرتے ہوئے نادرا کی مدد سے ایک ایسا ڈیٹا بیس قائم کردیا ہے جس کے تحت پاکستان میں مستحق اور غیر مستحق افراد کوان کے ڈیٹا کی مدد سے تحقیق کی جا سکے گی جو اس پروگرام کا اہل ہو گا اسے کفالت پروگرام کے تحت رقم مہیا کی جائے گی اور جو اس پروگرام کا اہل نہ ہوا اسے اس پروگرام سے باہر کردیا جائے گا۔ احساس کفالت پروگرام کے چند ایک اہم نکات درج ذیل ہیں۔
احساس کفالت پروگرام کیلئے ہر وہ شخص یا گھرانہ مستحق سمجھا جائے گا جس میں سے کوئی فرد حاضرسروس سرکاری ملازم نہ ہو اور نہ ہی پنشن ہولڈر ہو اور اس گھرکے افراد نے بیرون ملک کوئی سفر اختیار نہ کیا ہو اور نہ ہی اس گھر کے کسی آدمی نے حج یا عمرہ ادا کیا ہو۔ اور اس خاندان کے افراد کے بنک اکاﺅنٹس میں 25 ہزار سے زائد کی رقم جمع نہ ہو۔ اور نہ ہی اس فیملی کے نام پر رہائشی گھرسمیت کسی قسم کی جائیداد رجسٹرڈہو۔
وزیراعظم عمران خان کا یہ احساس کفالت پروگرام پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکج ہے جس کیلئے 8 ارب ڈالرز کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ گویا موجودہ حکومت کا یہ کفالت پروگرام اک مستحسن اقدام ہے جس پر حکومت پاکستان اور خصوصاً وزیراعظم عمران خان خصوصی مبارک باد کے مستحق ہیں۔وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایسے حالات میں (جب پوری دنیا لاک ڈاﺅن ہے اور اس کروناوائرس کی وجہ سے خوفزدہ ہے اور بڑے بڑے ممالک کے حکمران بڑے بڑے یوٹرنز لے رہے ہیں) غرباءاور کم آمدنی والے لوگوں کی کفالت پروگرام کے ذریعے امداد کر کے ان کے دل جیت لیئے ہیں۔