Buy website traffic cheap


انٹارکٹیکا پر 9 کروڑ سال پہلے گھنا بارانی جنگل ہونے کا انکشاف

برلن(ماینٹرنگ ڈیسک) سائنسدانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ آج سے 9 کروڑ سال پہلے انٹارکٹیکا پر گھنا جنگل تھا جہاں بھرپور بارش ہوتی رہتی تھی۔ اسے ہم ایک طرح کا بارانی جنگل بھی سمجھ سکتے ہیں جس کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ آج سے کروڑوں سال پہلے انٹارکٹیکا اچھا خاصا گرم تھا۔

 

تحقیقی مجلّے ”نیچر“ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی، برطانیہ اور ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی اس مشترکہ ٹیم نے انٹارکٹیکا میں 30 میٹر گہرا لیکن پتلا سوراخ (بورہول) کرکے وہاں سے مٹی کے نمونے حاصل کیے۔

ان نمونوں کا تین سال تک بڑی احتیاط اور تفصیل سے خردبینی مشاہدہ کیا گیا جس کے بعد یہ بات حتمی طور پر طے ہوگئی کہ ان میں سے مٹی کے وہ نمونے جو خاصی گہرائی میں تھے اور اندازاً 9 کروڑ سال قدیم تھے، ان میں درختوں کی خردبینی جڑوں اور زردانوں (پولنز) کی باقیات موجود تھیں۔
واضح رہے کہ آج براعظم قطب جنوبی ”انٹارکٹیکا“ پر برف کی دبیز تہہ موجود ہے جس کی موٹائی 2 کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے، اس لیے ماہرین کو پہلے اس برف میں سوراخ کرنا پڑا جس کے بعد مزید 30 میٹر گہرائی میں خصوصی آلات کے ذریعے کھدائی کی گئی اور مٹی کے نمونے حاصل کیے گئے۔

جڑوں کی گنجانی اور زردانوں کی تعداد کا مزید باریک بینی سے تجزیہ کرنے کے بعد ماہرین نے اندازہ لگایا کہ یہ درخت ہمارے موجودہ اندازوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ گھنے رہے ہوں گے جبکہ ا?ج سے 9 کروڑ سال قبل یہاں بارش بھی خوب برستی ہوگی۔

دیگر براعظموں کے برعکس، انٹارکٹیکا کی ٹیکٹونک پلیٹ پچھلے کروڑوں سال سے اپنے موجودہ مقام ہی پر ہے۔ یعنی 9 کروڑ سال پہلے وہاں پر آج کی طرح چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوا کرتی تھی۔ ہر سال رات والے چھ مہینوں میں سے 4 مہینے ایسے بھی گزرتے تھے جب وہاں بہت تاریکی رہتی تھی؛ اور شاید ٹھنڈک بھی بہت ہوتی ہوگی۔

ان تمام کیفیات کی موجودگی میں اتنا گھنا جنگل اپنا وجود کیسے برقرار رکھتا ہوگا؟ یہ ایک اہم سوال تھا۔اس سوال کا جواب حاصل کرنے کےلیے بھی ماہرین نے اسی کروڑوں سال قدیم مٹی کا مطالعہ کیا اور بتایا کہ تب انٹارکٹیکا کا اوسط درجہ حرارت آج کے مقابلے میں پورے 12 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔ علاوہ ازیں، کرہ ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار (جو آج کل 412 حصے فی دس لاکھ یعنی 412 پی پی ایم ہے) اس زمانے میں 1120 پی پی ایم سے 1680 پی پی ایم کے درمیان تھی۔

قبل ازیں ماہرین کا خیال تھا کہ آج سے 9 کروڑ سال پہلے کے زمانے میں کرہ ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح 1000 پی پی ایم کے قریب رہی ہوگی۔
ہزاروں میٹر موٹی برف کے نیچے دبی ہوئی مٹی تک پہنچنا اور پھر اس کی گہرائی میں برما کاری کرکے مٹی کے نمونے حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ماہرین کی کوئی اور ٹیم بھی اس دریافت کی تصدیق کرے تاکہ یہ ثبوت بھی اپنی سند کو پہنچ سکیں۔