Buy website traffic cheap

جو سب کوعزیز تھے اللہ کو عزیز ہو گئے

جو سب کوعزیز تھے اللہ کو عزیز ہو گئے

جو سب کوعزیز تھے اللہ کو عزیز ہو گئے
مبارک علی شمسی
طارق عزیز (مرحوم) ملک پاکستان کا ایک قیمتی سرمایا تھے اور ہمارا فخر تھے۔ وہ ایک باہمت اور بلند حوصلہ انسان تھے، مرحوم ایک منجھے ہوئے سیاست دان بھی تھے، “دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام” ان کا تکیہْ کلام تھا جبکہ “نیلام گھر” ان کا مشہور پروگرام تھا اور ان کی انتھک محنت اور ٹیلیویژن سے ان کی بے لوث محبت کا ایک جیتا جاگتا اور منہ بولتا ثبوت تھا جس کی بدولت آپ نے شہرت کے تمام بام و در عبور کرلیئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دبیا بھر میں ان کے مداحوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ طارق عزیز (مرحوم) سے میری پہلی ملاقات آج سے تقریباً12 برس قبل پی ٹی وی ہوم لاہور سنٹر میں اس وقت ہوئی جب میں اپنے دیرینہ دوست معروف شاعر،ادیب،اینکر اور محقق محترم افتخار مجاز صاحب سے ملنے پی ٹی وی سنٹر لاہور گیا تھا، کیونکہ افتخار مجاز ان دنوں پاکستان ٹیلی ویڑن پہ ایک ادبی پروگرام کیا کرتے تھے یعنی میزبان تھے۔ اور آغا سید ذوالفقار حسین سبزواری ان دنوں پی ٹی وی سنٹر لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ طارق عزیز کے ساتھ ہونے والی یہ پہلی ملاقات تقریباً دو گھنٹے جاری رہی جس سے میں بھی بہت متاثر ہوا اور طارق عزیز بھی پیر پرست ہونے کی وجہ سے میرا معترف ہوگیا اور پھر بعد میں تو ان سے متعدد بار اور مختلف اوقات میں ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تو وہ مجھے برملا طور پہ یہ کہتے تھے کہ مرشد آپ میرا زائچہ بنا دیں؟ اور میں انہیں ٹالنے کیلئے محض یہی کہتا کہ طارق عزیز صاحب آج کل آپ کا ستارہ عروج پر جا رہا ہے یہ سنتے ہی وہ خوش ہو جاتے تھے اور ان کے چہرے پر خوشی کی اک نئی لہر دوڑ اٹھتی تھی۔ ان سے زیادہ تر ملاقاتیں پی ٹی وی سنٹر لاہور،شاہ نور اسٹوڈیو، ایورنیو فلم اسٹوڈیو،باری اسٹوڈیو، الحمرا ہال اور سیکرٹریٹ میں ہوتی تھیں، کبھی کبھی وہ ہمیں اپنے دولت خانہ پہ بھی بلا لیتے تھے اور پھر وہاں خوب محفلیں جمتیں اور چائے کے دور چلتے، طارق عزیز (مرحوم) میرے دوستوں کے بارے میں خیریت دریافت کرتے اور میرے علاقہ ریاست بھاول پور اور قائم پور کے بارے میں پوچھتے، اور پھر ہم خوش گپیوں میں مصروف ہو جاتے۔ ان کیساتھ ہونیوالی ملاقاتوں میں اکثر میرے ساتھ میرے دیرینہ دوست اور عقیدت مند حاجی ارشاد خان عباسی اور ان کے بھانجے اور میرے کلاس فیلو اور جگری دوست پروڈیوسر محمد اسلم عباسی اور لاہور شہر کے مایہ ناز میوزیشن اور سنگر شاذ علی ہوتے تھے۔
طارق عزیز (مرحوم) ایک اچھا انساب ہونے کیساتھ ساتھ ایک اچھیاناوْنسر، کمپیئر، اور اچھے لیڈر بھی تھے۔ وہ ایک بہترین مہمان نواز بھی تھے اور مہمانوں کی خدمت کرکے بہت خوش ہوتے تھے۔
طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو برطانوی ہندوستان میں تحصیل شاہ کوٹ ڈسٹرکٹ  جالندھر کے آرائیں گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انکے والد میاں عبدالعزیز آرائیں 1947 میں پاکستان ہجرت کر آئے۔ اور پاکستان کے شہر ساہیوال میں سکونت پذیر ہو گئے، اس وقت ساہیوال کا نام منٹگمری تھا جسے بعد میں منٹگمری سے ساہیوال میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ طارق عزیز نے ابتدائی تعلیم ساہیوال سے ہی حاصل کی۔ اس کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔اور اپنی خوبصورت آواز کا جادو جگا کر ریڈیو سے دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات کے دل موہ لیئے۔ جب 1964ء میں پاکستان ٹیلی وڑن کا قیام عمل میں آیا تو طارق عزیز نے پی ٹی وی کا رخ کیا اور طارق عزیز پاکستان ٹیلی ویڑن کے سب سے پہلے مرد اناؤنسر منتخب ہوئے۔ تاہم 1975ء میں شروع کئے جانے والے ان کے سٹیج شو نیلام گھر نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔اور اس پروگرام کو بچے بوڑھے مرد اور خواتین سبھی بڑے ذوق و شوق سے دیکھتے تھے۔یوں ملک بھر میں اس پروگرام کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیااور طارق عزیز کے مداحوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی، یہ پروگرام کئی سال تک جاری رہا، اور بعد میں اسی پروگرام کو “بزمِ طارق عزیز” کا نام دے دیا گیا تھا۔
طارق عزیز ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے  ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کے علاوہ فلموں میں بھی کام کیا اور اپنی بہترہن اداکاری کے ذریعے مداحوں کے دل جیت لیئے، ان کی سب سے پہلی فلم انسانیت تھی جو1967ء میں بنائی گئی تھی، اور ان کی دیگر مشہور فلموں میں “سالگرہ”، “قسم اس وقت کی”، “کٹاری”، “چراغ کہاں روشنی کہاں ” ، اور “ہار گیا انسان” قابل ذکر ہیں۔غرض طارق عزیز (مرحوم) نے فلمی دنیا میں بھی خوب نام کمایا۔
طارق عزیز کو ان کی فنی خدمات پر ملنے والے ایوارڈز کی تعداد تو بہت زیادہ ہے کیونکہ انہیں مختلف علمی و ادبی و فلمی اور ثقافتی تنظیموں کی جانب سے بیشمار ایوارڈز مل چکے ہیں اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے 1992ء میں حسن کارکردگی کے تمغے سے بھی نوازا گیا۔ طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1997 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔اور ایک منجھے ہوئے لیڈر کے طور پر سیاست کے میدان میں بھی خوب نام کمایا۔
طارق عزیز (مرحوم) ملک پاکستان کا ایک قیمتی سرمایا تھے اور ہمارا فخر تھے۔ وہ ایک باہمت اور بلند حوصلہ انسان تھے، مرحوم ایک منجھے ہوئے سیاست دان بھی تھے، “دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام” ان کا تکیہْ کلام تھا جبکہ “نیلام گھر” ان کا مشہور پروگرام تھا اور ان کی انتھک محنت اور ٹیلیویڑن سے ان کی بے لوث محبت کا ایک جیتا جاگتا اور منہ بولتا ثبوت تھا جس کی بدولت آپ نے شہرت کے تمام بام و در عبور کرلیئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دبیا بھر میں ان کے مداحوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ طارق عزیز (مرحوم) سے میری پہلی ملاقات آج سے تقریباً12 برس قبل پی ٹی وی ہوم لاہور سنٹر میں اس وقت ہوئی جب میں اپنے دیرینہ دوست معروف شاعر،ادیب،اینکر اور محقق محترم افتخار مجاز صاحب سے ملنے پی ٹی وی سنٹر لاہور گیا تھا، کیونکہ افتخار مجاز ان دنوں پاکستان ٹیلی ویڑن پہ ایک ادبی پروگرام کیا کرتے تھے یعنی میزبان تھے۔ اور آغا سید ذوالفقار حسین سبزواری ان دنوں پی ٹی وی سنٹر لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ طارق عزیز کے ساتھ ہونے والی یہ پہلی ملاقات تقریباً دو گھنٹے جاری رہی جس سے میں بھی بہت متاثر ہوا اور طارق عزیز بھی پیر پرست ہونے کی وجہ سے میرا معترف ہوگیا اور پھر بعد میں تو ان سے متعدد بار اور مختلف اوقات میں ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تو وہ مجھے برملا طور پہ یہ کہتے تھے کہ مرشد آپ میرا زائچہ بنا دیں؟ اور میں انہیں ٹالنے کیلئے محض یہی کہتا کہ طارق عزیز صاحب آج کل آپ کا ستارہ عروج پر جا رہا ہے یہ سنتے ہی وہ خوش ہو جاتے تھے اور ان کے چہرے پر خوشی کی اک نئی لہر دوڑ اٹھتی تھی۔ ان سے زیادہ تر ملاقاتیں پی ٹی وی سنٹر لاہور،شاہ نور اسٹوڈیو، ایورنیو فلم اسٹوڈیو،باری اسٹوڈیو، الحمرا ہال اور سیکرٹریٹ میں ہوتی تھیں، کبھی کبھی وہ ہمیں اپنے دولت خانہ پہ بھی بلا لیتے تھے اور پھر وہاں خوب محفلیں جمتیں اور چائے کے دور چلتے، طارق عزیز (مرحوم) میرے دوستوں کے بارے میں خیریت دریافت کرتے اور میرے علاقہ ریاست بھاول پور اور قائم پور کے بارے میں پوچھتے، اور پھر ہم خوش گپیوں میں مصروف ہو جاتے۔ ان کیساتھ ہونیوالی ملاقاتوں میں اکثر میرے ساتھ میرے دیرینہ دوست اور عقیدت مند حاجی ارشاد خان عباسی اور ان کے بھانجے اور میرے کلاس فیلو اور جگری دوست پروڈیوسر محمد اسلم عباسی اور لاہور شہر کے مایہ ناز میوزیشن اور سنگر شاذ علی ہوتے تھے۔
طارق عزیز (مرحوم) ایک اچھا انساب ہونے کیساتھ ساتھ ایک اچھیاناوْنسر، کمپیئر، اور اچھے لیڈر بھی تھے۔ وہ ایک بہترین مہمان نواز بھی تھے اور مہمانوں کی خدمت کرکے بہت خوش ہوتے تھے۔
طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو برطانوی ہندوستان میں تحصیل شاہ کوٹ ڈسٹرکٹ  جالندھر کے آرائیں گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انکے والد میاں عبدالعزیز آرائیں 1947 میں پاکستان ہجرت کر آئے۔ اور پاکستان کے شہر ساہیوال میں سکونت پذیر ہو گئے، اس وقت ساہیوال کا نام منٹگمری تھا جسے بعد میں منٹگمری سے ساہیوال میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ طارق عزیز نے ابتدائی تعلیم ساہیوال سے ہی حاصل کی۔ اس کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔اور اپنی خوبصورت آواز کا جادو جگا کر ریڈیو سے دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات کے دل موہ لیئے۔ جب 1964ء میں پاکستان ٹیلی وڑن کا قیام عمل میں آیا تو طارق عزیز نے پی ٹی وی کا رخ کیا اور طارق عزیز پاکستان ٹیلی ویڑن کے سب سے پہلے مرد اناؤنسر منتخب ہوئے۔ تاہم 1975ء میں شروع کئے جانے والے ان کے سٹیج شو نیلام گھر نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔اور اس پروگرام کو بچے بوڑھے مرد اور خواتین سبھی بڑے ذوق و شوق سے دیکھتے تھے۔یوں ملک بھر میں اس پروگرام کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیااور طارق عزیز کے مداحوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی، یہ پروگرام کئی سال تک جاری رہا، اور بعد میں اسی پروگرام کو “بزمِ طارق عزیز” کا نام دے دیا گیا تھا۔
طارق عزیز ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے  ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کے علاوہ فلموں میں بھی کام کیا اور اپنی بہترہن اداکاری کے ذریعے مداحوں کے دل جیت لیئے، ان کی سب سے پہلی فلم انسانیت تھی جو1967ء میں بنائی گئی تھی، اور ان کی دیگر مشہور فلموں میں “سالگرہ”، “قسم اس وقت کی”، “کٹاری”، “چراغ کہاں روشنی کہاں ” ، اور “ہار گیا انسان” قابل ذکر ہیں۔غرض طارق عزیز (مرحوم) نے فلمی دنیا میں بھی خوب نام کمایا۔
طارق عزیز کو ان کی فنی خدمات پر ملنے والے ایوارڈز کی تعداد تو بہت زیادہ ہے کیونکہ انہیں مختلف علمی و ادبی و فلمی اور ثقافتی تنظیموں کی جانب سے بیشمار ایوارڈز مل چکے ہیں اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے 1992ء میں حسن کارکردگی کے تمغے سے بھی نوازا گیا۔ طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1997 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔اور ایک منجھے ہوئے لیڈر کے طور پر سیاست کے میدان میں بھی خوب نام کمایا۔
بالآخر اچانک 7 جون 2020 ء کو طارق عزیز کی زندگی کی وکٹ گر گئی اور وہ اپنے پسماندگان سمیت اپنے لاکھوں مداحوں کو روتا ہو اور تنہا  چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔اِنّا لِلہِ وَاِنّا اِلیہَِ رَاجِعْون۔یوں لوگوں کے کانوں میں رس گھولنے والی اور لسنرز کے دلوں کے تار ہلا دینے والی آواز ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئی۔
ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے وہ کبھی پر نہ ہو سکے گا ہمیں ان کی یاد ہمیشہ تڑپاتی رہے گی، وہ اپنے نام اور کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ میری دعا ہے کہ خالق اکبر جل شانہ طارق عزیز کو غریق رحمت کرے اور ان کی مغفرت فرمائے۔۔آمین۔