Buy website traffic cheap

موبائل

موبائل کمپنی ہواوے کے خلاف مقدمہ دائر کرنے پر چین کا سخت رد عمل

لاہور(ویب ڈیسک) امریکا اور چین کے درمیان نیا تنازع شدت پکڑ گیا – امریکی وزارت انصاف کی جانب سے چین کی مشہور موبائل فون کمپنی ہواوے کے خلاف مقدمہ درج کرنے پر چین نے سخت ردعمل دیتے ہوئے اسے چینی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش قرار دیا۔

تفصیلات کے مطابق : امریکا کی جانب سے کینیڈا میں ہواوے کی سربراہ کی گرفتاری اور ایران کے ساتھ رقوم کی غیر قانونی لین دین، دھوکا دہی اور صنعتی جاسوسی جیسے 13 سنجیدہ الزامات کے تحت مس مینگ کی کینیڈا سے حوالگی کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ نے ملکی موبائل کمپنی پر امریکی الزامات کی تردید کرتے ہوئے مقدمہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ موبائل کمپنی ہواوے نے بھی امریکی الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ چین کی معروف موبائل کمپنی کی صدر کو امریکا کی درخواست پر یکم دسمبر کو کینیڈا میں حراست میں لیا گیا تھا تاہم 10 ملین کینیڈین ڈالر کی زر ضمانت پر انہیں رہا کردیا گیا تھا لیکن وہ کینیڈا سے باہر نہیں جاسکتیں۔

واضح رہے کہ امریکا ہواوے کمپنی کی سربراہ کی حوالگی کے لیے آئینی مدت 30 جنوری تک درخواست دائر کرسکتا تھا، چین کے مقدمہ دائر کرنے سے باز رہنے کی تنبیہ کے باوجود امریکا نے گزشتہ روز مقدمہ دائر کردیا۔

افغان حکومت اورطالبان کےدرمیان امن معاہدے کے مسودے پراتفاق
لاہور(ویب ڈیسک): امریکہ کے اعلیٰ مذاکرات کارزلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق ہو گیا ہے تاکہ افغانستان میں جاری 17 سالہ لڑائی کو ختم کیا جا سکے۔گذشتہ ہفتے قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان چھ روز تک مذاکرات جاری رہے۔افغان صدر نے طالبان کو براہ راست مذاکرات کی نئی پیشکش کی، لیکن انھوں نے حکومت کو کٹھ پتلی کہتے ہوئے مسترد کر دی۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک پختہ امن معاہدے کو کئی سال لگ سکتے ہیں۔افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد دوحا میں چھ روزہ مذاکرات سے متعلق افغان حکومت کو آگاہ کرنے کے لیے کابل میں موجود تھے۔زلمے خلیل زاد نے نیو یارک ٹائمز کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہمارے پاس ایک مسودہ ہے اور معاہدہ بنانے سے قبل کچھ تفصیلات حاصل کرنا ہیں۔ مجوزہ معاہدے کے تحت طالبان کو عہد کرنا ہو گا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو شدت پسندی کے گڑھ کے طور پر استعمال ہونے سے روکیں گے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی حکمت عملی یہی رہی ہے کہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور کیا جائے۔جنگ بندی اور ان براہ راست مذاکرات میں طالبان کی شرکت کے بدلے میں افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کی بات کی جا رہی ہے۔ انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ طالبان نے القاعدہ جیسے شدت پسند گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں نہ دینے کا عہد کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ طالبان نے ہمارے اطمینان کے لیے عہد کیا ہے کہ وہ افغانستان کو بین الاقوامی شدت پسندوں کے لیے پلیٹ فارم بننے سے روکنے کے لیے ہر ضروری اقدام کریں گے۔اس انٹرویو سے قبل خصوصی ایلچی کی جانب سے ان مذاکرات کے بارے میں چند سلسلہ وار ٹوئٹس سامنے آئی تھیں جن میں انھوں نے کہا تھا خاطرخواہ پیشرفت ہوئی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی وقت حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کریں گے جب غیر ملکی افواج کے انخلا کی صحیح تاریخ دی جائے گی۔افغانستان میں 17 سال سے جاری اس لڑائی میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2009 کے بعد سے ہر سال چھ سے نو ہزار کے درمیان عام شہری مارے گئے ہیں۔ ادھر دفاع اور سفارتی امور کے ماہر جوناتھن مارکس کے مطابق اکثر کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کوئی فوجی حل موجود نہیں ہے۔ امریکہ کی کوشش یہ ہے کہ وہ طالبان کو اس بات پر قائل کرے کہ وہ جیت نہیں سکتے ہیں۔لیکن کیا یہ حکمت عملی کامیاب ہو رہی ہے؟ حالیہ مذاکرات کو دیکھتے ہوئے تو لگتا ہے کہ کسی حد ایسا ہو رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان ایک قدرے مستحکم پوزیشن سے بات کر رہے ہیں۔افغان سکیورٹی فورسز کو بہت نقصان ہوا ہے۔ کل آبادی کا دو تہائی حصہ حکومت کے زیر کنٹرول یا زیر اثر ہے۔سکیورٹی صورت حال کا صحیح اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔ امریکی فوجی ذرائع کی جانب سے بڑے پیمانے پر اتار چڑھا سامنے آ رہے ہیں۔ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ اشارے دے رہے ہیں کہ وہ کچھ اور بالآخر تمام امریکی فوجیوں کو نکالنا چاہتے ہیں لیکن امریکی انخلا کی حکمت عملی غیر یقینی اور غیر واضح ہے۔ واضح رہے کہ 2014 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد سے طالبان کی طاقت اور رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔نیٹو سربراہی میں ہزاروں فوجی تربیت، امداد اور دہشت گردی کے خاتمے میں لگے رہے۔سب سے زیادہ فوجی امریکہ کے ہیں جن کی تعداد 14000 ہے۔ اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ ان میں سے نصف فوجیوں کو نکالنے کا سوچ رہے ہیں۔دیگر 38 ممالک کے آٹھ ہزار فوجی بھی افغانستان میں موجود ہیں۔جمعہ کو صدر اشرف غنی نے کہا کہ 2014 میں ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک کی سکیورٹی فورسز کے 45000 ارکان سے زائد مارے جا چکے ہیں۔