Buy website traffic cheap


سانحہ نیوزی لینڈ، سمت درست کرنے کی ضرورت کس کوہے؟ وقار اسلم

جمعہ کی نماز کے وقت دو مساجد میں 60 لوگوں کو لقمہ اجل بنانے والا ایک جنونی شخص جس نے بربریت کی مثال رقم کردی اس نے لوگوں کے مرنے کے بعد بھی ان کے اجسام پر فائرنگ کی،یہ شخص ایک نسل پرست شخص ہے، اور مسلمانوں سے شدید نفرت رکھتا ہے جس کا بائیو ڈیٹا یہ ہے کہ الیکشن میں ٹرمپ کو اس لئے سپورٹ کیا کہ وہ گورا ہے اس انتہا پسند کا تعلق اسٹریلیا کے شہر گرافٹن سے ہے اور حیرت انگیز طور پر اس نے اپنے سوشل میڈیا پروفائل پر یہ درج کیا کہ وہ صبح یہ حملہ کرنے جا رہا ہے اگر بچ گیا تو ملیں گے ورنہ گڈ بائے،
” See you in Valhalla” یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اسٹریلیاء سے تعلق رکھنے والا یہ شخص یہ گن مین ایک ٹورسٹ ہے جو گوروں کی حکمرانی چاہتا ہے اور سپریمیسی کے فلسفے نے اسے حیوان بنادیا اسے اپنے کئے کرائے پر ندامت نہیں ہے بلکہ اس نے وکیل ہٹا کر خود ہیٹ اسپیچ کرنے کی کوشش کی جس سے اسے روک دیا گیا۔ ٹرمپ نے گوروں،خصوصا پس ماندہ دیہی علاقوں کے سفید فام ووٹرز کے دلوں میں چھپی نسل پرستی اورتارکین وطن سے نفرت کے جذبات کو ابھار اورانہیں بڑی ہوشیاری سے اپنے حق میں استعمال کر کے بازی جیت لی۔امریکا کی زیادہ تر شہری آبادی پڑھے لکھے،برسر روزگار،متمول اورمراعات یافتہ طابقات پر مشتمل ہے۔ان میں گورے بھی شامل ہیں کالے بھی اور ایشیا اور افریقا سے ترک وطن کر کے آنے والے باشندے بھی جب کہ دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی بھاری اکثریت ناخواندہ غریب یا متوسط طبقے کے سفید فام باشندوں پر مشتمل ہے۔یہ طبقات دو تہائی امرکیا کی نمائندگی کرتے ہیں اوردوسرے ممالک سے نقل مکانی کر کے آنے والے افراد کو اپنی تمام تر محرومیوں کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ 2008ء کی کساد بازاری نے ان محرم طبقات کے لیے روزگار کے مواقع مزید محدود کر دیے اوران کی جگہ زیادہ باصلاحیت اورپڑے لکھے تارکین وطن نے لے لی۔اس صورت حال سے متاثرہ سفید فام فام ووٹرز میں مایوسی پھیلتی چلی گئی۔ جس کا دوسرے سیاست دانوں کو تو ادراک نہ ہوسکا،لیکن ارب پتی ٹرمپ نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا اوران کی ہم دردیاں حاصل کرنے لے لیے’’امریکا جن کا تھا،وہ اس میں اجبنبی بنتے جا رہے ہیں،جیسا متعصبانہ نعرے کو مزید پرکشش بنانے کے لیے انہوں نے دوسرے ممالک کے شہریوں خصوصاً مسلمانوں،لاطینی اورچینی باشندوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی تحریک چلا دی اوراعلان کیا کہ وہ اپنے اقتدار کے پہلے سود نوں میں مجرمانہ پس منظررکھنیوالے ایسے 30لاکھ تارکین وطن کو امریکا سے نکال دیں گے کہ جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں اورمزید غیر ملکیوں کی آمد روکنے کے لیے امیگریشن پالیسی سخت کردیں گے جو وہ چاہتے ہوئے بھی نہ کر سکے اور ڈسٹرکٹ جج نے ان کو یہ حرکت کرنے سے روک دیا تھا ۔ امریکی مقبول ترین گلوکار راجر اسٹیفن جان لیجنڈ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ صدرٹرمپ واقعے کے براہ راست ذمہ دارنہیں ہیں لیکن ان کے بیانیے نے قاتل کو نیوزی لینڈ جیسے واقعے کے لیے اکسایا ہے۔ انہیں یہ تسلیم کرناہوگا کہ وہ ایسی بیان بازی کرکے غلط کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے نفرت انگیز بیانات مسلمانوں اور مہاجرین کو بدنام کرتے ہیں برائی کے اس نظریے کی مذمت کریں اوراس کامقابلہ کرنے کے لیے حقیقی اقدامات کریں۔ قارئین یہ بھی واضح طور پر جان لیجے کہ امریکا نے تاج برطانیہ سے جو آزادی حاصل کی،وہ صرف سفید فاموں کے لیے تھی،ریڈ انڈینز اورسیاہ فام غلاموں کے لیے نہیں اوریہ ہی نسل پرستی کی وبا تھی جو سرائیت کرتی گئی۔۔انہوں نے طاقت کے زور پر یہاں آبادیوں کی بنیاد رکھی۔انگریز فوج یہاں آئی۔تو انگریز تاجر بھی آنے لگے اوراپنا کام کروانے کے لیے افریقا سے سیاہ فام غلاموں کو بھی لانے لگے اورپھرغلاموں کی باقاعدہ تجارت شروع ہوگئی۔جب مقامی باشندوں کو باہر سے لوگوں کی آمد کا پتا چلا،تو انہوں نے مزاحمت شروع کی۔مگر یہ ریڈ انڈینز ایک تو بکھرے ہوئے تھے اوردوسری جانب جدید ہتھیاروں سے محروم تھے۔اس لیے جرات اوربہادری کیعدیم المثال مظاہروں کے باوجودان کا راستہ نہ روک سکے۔ان جنگوں میں ہزاروں ریڈ انڈینز مارے گئے اورسیکڑوں کو بغاوت کے الزامات میں پھانسی دے دی گئی۔انگریزوں نے تو آباد یاں قائم کیں،تو فرانسیسی،ولند یرزی اورپرتگیزی بھی مختلف علاقوں میں اپنی حکومتیں قائم کرنے لگے۔اوراس دوران ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ان کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں،جن میں انگریزوں کا پلہ بھاری رہا اورایک وقت آیا کہ تقریبا سارے امریکا پر برطانیہ کا تسلط قائم ہوگیا۔انگریز حکم رانوں نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے باہر سے آنے والے آباد کاروں،پرانے مقامی باشندوں اورسیاہ فام غلاموں پر ظلم کے پہاڑ تو ڑ ڈالے اوران کے تمام وسائل قر قبضہ کرلیا۔امریکی اس دور کو جبر اورناانصافیوں کے سیاہ ترین دور کے طور پریا د کرتے ہیں۔ہم برصغیر پاک وہند میں رہنے والے چوں کہ خود بھی انگریزوں کی چیرہ دستبوں کا شکار رہے ہیں،اس لیے آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امریکیوں پر،جن میں خود انگلینڈ سے مختلف ادوار میں مختلف وجود کی بناپر ترک وطن کرکے آنے ولے انگریز بھی شامل تھے،کیا بیتی ہو گی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف نو آبادیوں نے متحد ہو کر برطانوی راج کے خلاف بغاوت کردی۔انہوں نے اپنی مشترکہ فوج ’’کانٹی نینٹل آرمی‘‘منظم کی اورجنرل جارج واشنگٹن کو اس کا کمانڈر ان چیف مقرر کردیا۔نوآبادیاتی ریاستوں کی سیاسی تنظیم’’کانٹی نینٹل کانگریس‘‘نے1776ء کے اعلان آزادی میں برطانوی بادشاہ کے خلاف جو تفصیلی چارج شیٹ جاری کی،اس میں یہ بھی درج ہے کہ’’بادشاہ نے ہمارے سمندر لوٹ لیے،ہمارے ساحل تباہ کر دیے،ہمارے شہر جلا دیے اورہمارے عوام کی زندگی اجیرن کردی،چارج شیٹ میں یہ الزام بھی لگایا گیا۔ برینٹن ٹیرنٹ نامی گھٹیا شخص نے نا صرف یہ دلدوز سانحہ رونما کیا بلکہ یہ مناظر فیس بک پر اپنے پروفائل میں بھی لائیو نشر کئے اس بربریت پر اسے قرار واقعی سزا دی جائے، دنیا کے لئے یہ شرم کا مقام ہے کہ وہ سوچے کہ کیا یہ شخص بھی مسلمان تھا؟ یہ مسلمانوں کے لئے حقارت رکھنے والا شخص تھا جس نے 73 صفحات پر مشتمل منشور بنایا اور نفرت کی آگ میں اپنی انسانیت کو جھلسا کر اپنے تعفن زدہ وجود کو بے رحم کردیاجس نے انسانیت کوپستی میں ڈال دیا اس شخص نے اپنی اس قدر نفرت پر اندھا دھند عمل کیا کہ عینی شاہدین کا کہنا ہے سڑک پر اسے جو بھی مسلم لباس میں نظر آیا اس نے اس پر گولیوں کی بوجھاڑ کی، تفصیلات کے مطابق اس دہشتگرد نے اپنے ہیلمٹ میں کیمرہ نصب کر رکھا تھا یہ اندر جا کر گولیاں چلاتا باہر نکلتا گاڑی میں بیٹھتا اگلی مشین گن اٹھاتا اور پھر انسانی جانوں کے قتل پر لگ جاتا اتنی سفاکیت اور بربریت سے اس نے اس قبیح ٖفعل کو انجام دیا اس نے نعشوں پر مزید گولیاں برسا کر انہیں مسخ تک کیا اور ان کی مزید بے حرمتی کی۔ اس ایسے واقع کے بعد جس کا نیوزی لینڈ میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ، سیکیورٹی کو بڑھادیا گیا اور پھر خودکار اسلحے پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔ یہ بھی یاد رہے کے اسٹریلیا کے وزیراعظم نے بھی اس دلخراش واقعہ کے مناظر سوشل میڈیا پر نشر ہونے کی خوب پوچھ گچھ کی اور برہمی کا اظہار کیاسانحہ نیوزی لینڈ کی ویڈیو وائرل ہونے پر سوشل میڈیا کمپنیوں سے جواب طلب کر لیا گیا ہے۔امریکی ایوان کی ہوم لینڈ سیکیورٹی کمیٹی نے فیس بک، یوٹیوب، ٹوئٹر اور مائیکرو سوفٹ سربراہان کو 27 مارچ کو طلب کر لیا ہے۔خبر ایجنسی کے مطابق سانحہ نیوزی لینڈ کی براہِ راست ویڈیو فیس بک پر بہت کم صرف 200 افراد نے دیکھی تاہم اسے بڑی تعداد میں کاپی کر کے دوبارہ پوسٹ کیا گیا اور سوشل پلیٹ فارمز اسے پھیلنے سے نہ بچا سکے۔وائرل ہونے سبب سانحہ نیوزی لینڈ کی ویڈیو کروڑوں افراد نے دیکھی ہے۔فیس بک کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فیس بک سے 15 لاکھ ویڈیوز کو ہٹا دیا گیا ہے۔یہ بھی بتاتا چلوں کے گزشتہ برس اس شخص کے پاکستان آنے والی خبروں میں بھی کوئی صداقت نہیں تھی کیونکہ جن زرائع نے یہ خبر جاری کی ہے ان کا ٹریک ریکارڈ جھوٹ سے سنسنی پھیلانے کا ہے اور وہ سکرین شاٹ بھی فیک معلوم ہوتا ہے.دنیا کے ہر ملک میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جب حکومت کے خلاف بھی مظاہرے ہوتے ہیں اور عمالِ حکومت کے خلاف بھی جمہوری حکومتوں میں یہ سب حقوق عام شہری کو حاصل ہوتے ہیں۔ اسی طرح قانون ہاتھ میں لیا جاتا ہے اور توڑا بھی جاتا ہے اور اس چیز کو قابو کرنے کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فعال کردار ادا کرتے ہیں پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ اس کا سوراغ لگایا جائے گا اورپاکستان اس کی معلومات حاصل کر رہا ہے اور اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی اس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس دلدوز سانحے کی سخت الفاظ میں مذمت کی وزیراعظم عمران خان نے واضح موقف دیتے ہوئے کہا کہ کرائسٹ چرچ (نیوزی لینڈ) میں مسجد پر دہشت گرد حملہ نہایت تکلیف دہ اور قابل مذمت ہے۔ یہ حملہ ہمارے اس مؤقف کی تصدیق کرتا ہے جسے ہم مسلسل دہراتے آئے ہیں کہ: ”دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں”۔ ہماری ہمدردیاں اور دعائیں متاثرین اور انکے اہل خانہ کیساتھ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان بڑھتے ہوئے حملوں کے پیچھے 11/ 9کے بعد تیزی سے پھیلنے والا ”اسلاموفوبیا” کارفرما ہے جس کے تحت دہشت گردی کی ہرواردات کی ذمہ داری مجموعی طور پر اسلام اور سوا ارب مسلمانوں کے سر تھوپنے کا سلسلہ جاری رہا۔ مسلمانوں کی جائز سیاسی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کیلئے بھی یہ حربہ آزمایا گیا۔ بلکل اسلام و فوبیا بھی دہشتگردی جیسا بھیانک ہے جس کے نتائج انسانیت کی معراج کے برخلاف ہیں اور یہ نقصان بڑھتا جا رہا ہے.عمران خان نے پوری قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنی نیوزی لینڈ کی ہم منصب کو کال کردی اور ان کی داد و تحسین فرمائی کیونکہ جس طرح سے یہ امن کی داعی بن کر ابھری ہیں وہ قابلِ افتخار ہے۔نیوزی لینڈ کی وزیراعظم بھی کہہ چکیں اور اسٹرویلوی وزیراعظم اسکوٹ موریسن بھی بتا چکے کہ وہ بہت مغموم ہیں اور یہ کہنے میں انہیں کوئی قباحت نہیں کہ یہ دہشتگردی ہے، ترک صدر رجب طیب اردوگان نے بھی اس سانحہ کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ یہ اسلام کے خلاف اس بڑھتی نفرت کا شاخسانہ ہے یہ کوئی اچانک نہیں ہو ا بلکہ اس کے پیچھے لمبی چوڑی پلاننگ تھی یہ وہ مائنڈسیٹ وہ ناسور ہے جو مغربی معاشروں کو کینسر کی طرح کھائے جا رہا ہے۔سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا‘ممبران نے سانحے کے سوگ میں ایک منٹ خاموشی اختیارکی گئی. وزیراعظم جیسنڈا ایرڈن نے پارلیمنٹ سے خطاب کا آغاز ’’اسلام وعلیکم‘‘ سے کیا اور سانحہ کرائسٹ چرچ کے متاثرین سے یکجہتی کا اظہار کیا ، جو کہ بہت ہی شاندارطرز عمل ہے اور ان کی اچھائی ہے جس کو سراہا جانا چاہیے ان کی دور اندیشی قابل تحسین ہے کہ انہوں نے اس دہشتگرد کا نام لینا چھوڑ دیا تاکہ اس کا مقصد مکمل نہ ہوجائے کہ وہ اپنی وحشت مت پھلا سکے اس کے بعد انہوں نے بشریت کو مذہب سے بالائے طاق رکھا اور مسلمانوں سے ہمدردی کے لئے آج بروز جمعہ سرکاری ریڈیو اور لاوٗڈسپیکر پر اذان نشر کرنے کے احکامات جاری کر کے ہمیت اور جراٗت کی شمع کو روشن کردیا وہ اس قدر ہمدردی سے مسلمانوں سے گلے لگیں کہ دنیا بھر نے ان کے دکھ درد کو سمجھا اور ان کے کردار کی مداح سرائی کی۔
یہ اسلا م دشمن واقع اس قلعی کو کھول دیتا ہے کہ دہشتگردی کا تعلق کسی بھی صورت کسی مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا یہ ایک سو چ ہے،ایک مائینڈ سیٹ ہے جو دنیا کی بربادی کا موجب ہے،دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں یہ تباہی اور بربادی پھیلانے پر لگے ہوئے ہیں جس کا نشانہ بن کر سب سے زیادہ نقصان ہمیشہ مسلمانوں نے ہی اٹھایا ہے اور مسلمان ہی قربانیاں دیتے رہے ہیں اور دنیا بلاوجہ ان پر ہی انگلیاں اٹھاتی رہی ہے آنکھوں کو غم سے خیرہ کردینے والی بات یہ ہے کہ عالمی میڈیا اسے حملہ آور تو کہہ رہا ہے مگر دہشتگرد نہیں محض اس لئے کہ وہ سیاہ فام ہے اس کا تعلق اسلام سے نہیں، وہ اسلام جس کی بنیاد ہی امنیت و سلامتی ہے اسے دنیا مشکوک نگاہوں سے دیکھتی ہے تو کیا مسلمانوں کو یخلخت کرتے ان کے گھروں میں صفِ ماتم بچھاتے یہ غیر مسلم اقوامَِ عالم کودکھتے نہیں یا انہوں نے ان سے شرما کر پٹی باندھ رکھی ہے۔ اب تمام ممالک کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اس کشمکش کوکب ختم کر یں اور ڈکلئیر کریں کہ مسلمان دہشتگرد نہیں ہیں اور دہشتگردی کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہے ۔