Buy website traffic cheap

,,الوداع ماہ رمضان،،

,,الوداع ماہ رمضان،،

,,الوداع ماہ رمضان،،
از تحریر مولانا شہباز احمد
(اتحاد بین المساجد پاکستان)

ماہ رمضان کا چاند نظر آتے ہی ساری دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمان آباد تھے انہوں نے ایک دوسرے کو مبادکباد دی تھی،مبارک ہو اللہ نے رمضان پھر نصیب فرمایا۔اگر ہم کو اس سے پہلے اٹھالیا ہوتادنیاسے یا کسی اور طریقہ سے مفلوج کر دیاہوتا یا معذور کر دیا ہوتا،تو جیتے جی بھی ہمیں رمضان میں کوئی مزاہ نا آتا،کوئی فائدہ اس سے ہم نہیں اٹھا سکتے تھے۔اللہ تعالی نے اسلام کی حالت میں،عقل وشعورکی حالت میں،صحت وتندرستی کی حالت میں،امن وامان کی حالت میں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایمان و توفیق کی حالت میں اللہ تعالی نے رمضان نصیب فرمایا۔ایک دن وہ تھا جب ہم نے اس پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور ایک دوسرے کو مبادکباد دی تھی۔ بھائی! مبارک ہو،اللہ نے رمضان پھر نصیب فرمایااور آج وہ دن ہے کہ ہم ایک دوسرے سے تعزیت کرتے ہیں،ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے ہیں اور رمضان کوآج ہم گویا الوداع کہ رہیے ہیں گویا اب وہ دنیا سے جارہا ہے۔
اب کیسی کو معلوم،خودکی خبر نہیں،ایک دوسرے کی خبر نہیں،آج کل کیا پل کی بھی خبر نہیں،رمضان تو آے گا جب تک اللہ کو منظور ہے۔جب تک یہ دنیا قائم ہے رمضان کو تو آنا ہے،رمضان ہر سال آے گا اور بڑی آن بان سے آے گا،بڑی شان سے آے گا روزہ رکھنے والے روزہ رکھیں گے،تراویحیں ہوں گی،مساجد آباد ہوں گی،لیکن مسئلہ یہ ہے،سوال یہ ہے کہ ہم بھی ہوں گے کہ نہ ہوں گے؟
اگر ہوں گے تو کس حال میں ہوں گے؟
اس لیے بھائی! یہ رمضان جو اللہ تعالی نے ہمیں اس سال عطاءکیا یہ بہت بڑی نعمت تھی۔اس کے آنے پر خوشی،اس کے جانے پر رنج قدرتی ہے اس پر ہم جتنا بھی رنج کریں تو کم ہیں۔
لیکن لوگوں نے اس کے برعکس کام شروع کرلیا ہیں رمضان کو رخصت کرنے پر بھی جشن،بڑی دھوم دھام،ڈھول کی تاب پر رخصت کرتے ہیں۔
حالاکہ رمضان کا حق تو یہ تھا کہ جتنا وقت ملے تنہا ہی میں مسجد کے کونے میں گزارے،اللہ اللہ کرے،اللہ کے حضور سر سجدہ میں رکھ کہ آنسو بہاتا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتا۔
اب ہم کوتاہیوں پر ندامت کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں۔اب ہم جیسے سوگ منایاجاتا ہے،ہم سوگ منائیں اور الوداع،الوداع ایک ہزار بار بھی کہیں تواس کا کچھ فائدہ نہیں، ایک بات تو یہ کہ جو اب تھوڑا سا وقت باقی ہے یہ استغفار اور ندامت میں گزارے اور اپنی کوتاہیاں یاد کریں کیونکہ کوتاہیاں ہماری ساری کھلی ہوئی ہیں ۔کون سی نماز ہم نے ایسی پڑھی کہ خدا کے حضور پیش کرنے کے قابل ہو؟
ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم کبھی بھی نہیں کہ سکتے کہ ہم نے کوئی تراویح بھی ایسی پڑھی ہو کہ جس میں یہ خیال آیا ہو کہ ابھی اور پڑھتا،ابھی اور پڑھتا اور دنیا ومافیہا کی خبر نہ رہی ہو۔تراویح ہم نے سنی تو ہے لیکن اگر کسی سے پوچھا جاے بھئی! تراویح میں کتنے پارے سنے؟ تو جواب میں کوئی کیوں کہتا ہے کہ ہم نے پانچ پارے سنے،کوئی کہتا ہے کہ ہم نے سات پارے پڑھے۔ ارے بھائی!ذرادل سے پوچھے کہ ہم ان پاروں میں تھے کہاں؟ ہم تھے کہاں ان پانچ پاروں میں؟کیا پانچ پارے اس طرح سنے کہ ہمارے کانوں میں کوئی آواز نہیں آرہی تھی اور ہمیں لطف آرہا تھا اور دل چاہ رہا تھا کہ اور پڑھیں۔۔
سارا دل دماغ اسی میں لگا ہوا تھا کہ اللہ توفیق دے کہ جلدی سے پڑھ لیں بلکہ دو پاروں کی بجاے ایک ہی پڑھ لیں اور پھر روز پاروں کی گنتی کرنا اور امام صاحب سے پوچھنا کہ آج زیادہ پڑھنا ہے یاکم۔
اگر ہم نماز،روزے کی بات کریں تو اس کا حال بھی یہ ہی نظر آتا ہیں۔یہ روزے ہی کیا رکھے ہم نے جیسے ہم ویسے ہی ہمارے روزے،نہ ہم سے اس کے روزے رکھے گے اور نہ ہم سے ٹھیک سے نماز پڑھی گئیں،
کیا ہم نے یکسوئی کے ساتھ نماز پڑھی؟کیا بغیر ادھر ادھر کے خیال کے قرآن مجید کی تلاوت کی؟کیا ہم نے واقعی چھپا کر کسی اللہ کے بندے کو اس طرح سے کچھ دیا کہ کانوں کان کیسی کو خبر نہ ہو؟
کیا ہم نے کیسی ایسے آدمی کا پیٹ بھراجو روٹی کے ٹکڑے کے لیے ترستاتھا اور ہماری وجہ سی پورے رمضان میں اس کے گھر کا جولہ جلا ہو؟ کوئی کام ایسا ہیں جو ہم نے کیا۔
کیا ہم نے اپنے ہمسایوں کا خیال بھی رکھا کہ نہیں؟کیا ہم نے کوئی رات تڑپتے ہوے،بلکتے ہوے اور بلبلاتے ہوے گزاری؟
ہم اللہ کے حضور کون سی چیز پیش کر سکتے ہیں،پیش کرنے کے لیے ہمارے پاس ہیں ہی کیا! ہاں یہ آنسو ہیں اور یہی ندامت ہے۔آنسو اختیاری نہیں ہیں جو کبھی نکلاتے ہیں اور کبھی نہیں نکلتے وہ تو ایک دلیل ہے،اصل چیز نہیں،اصل چیز کیا ہے؟ اصل چیز دل کی کیفیت ہے۔اگر دل کی گہرائی میں یہ چیز ہے کہ ہم سے کچھ نہیں ہوسکا،ہم کچھ نہیں کر سکے تو اللہ تعالی کو آپ کی یہ ادا بہت پسند آے گی کیونکہ اللہ رب العزت کا اپنی مخلوق سے محبت کا اندازہ حدیث مبارکہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہیے،اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں ٹوٹے ہوے دلوں کے پاس ہوں۔
مہمان اب رخصت ہو رہا ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ مہمان ہمارے گھر آیا،گھر آکر اس نے کیا پایا،اس کی کتنی خاطر ہوئی،
اب وقت آپہنچا اس کے رخصت ہونے کا جتنی ہم نے اس کی قدر کی اس پر اللہ تعالی کا شکرادا کریں اور جو کمی،کوتاہیاں ہوئی ہم سے اس پر اللہ تعالی سے معافی مانگیں اور ندامت۔
سب سے زیادہ اللہ تعالی کے ہاں جو چیز کسی چیز کو قیمتی بناتی ہے اور جو کچھ اس میں خامی اور کسر رہے جاتی ہے یہ ندامت اس کو پورا کرتی ہیے،دیکھے بچوں کو دیکھے،بچے شرارت کر بیٹھتے ہیں،شوخی کر بیٹھتے ہیں،غلط کا کر بیٹھتے ہیں اور پھر مارنے کے لیے ہاتھ اٹھائیے تو وہ رونے لگتا ہے ایک دم سے بلبلا کر رونے لگتا ہے تو محبت آجاتی ہے۔الیسا ہی کچھ معاملہ اللہ تعالی اور بندہ کے درمیان ہے وہ کریم ذات تو پھر ستر ما¶ں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔اس مہمان کو ہم اس طرح رخصت کریں کہ دل ہمارا گواہی دے کہ ہم سے کچھ نہیں ہو سکا،نہ ہم اس رمضان کے قابل تھے اور نہ ہم ان روزوں کے قابل تھے۔
بس اللہ نے ہمیں نصیب فرمایا،ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہم سے اس کی کوئی قدرنہ ہو سکی،ہم سے کوتاہیاں ہوئی انسان سے ہوئی ہیے اللہ تعالی معاف کرے،اللہ تعالی ماہ رمضان کا صحیح معانی میں حق ادا کرنے کی توفیق عطاءفرماے،رمضان المبارک کے علاوہ توبہ کے لیے بہتر دن کوئی نہیں ہو سکتا ہم اپنے اپنے گربان میں جھکا کر اپنے آپنے گناہوں کو یاد کرکے،توبہ سے ان کو معاف کرایں اس سے بہتر اور کوئی وقت نہیں، معلوم نہیں اور کب تک جئیں۔۔۔۔۔