
انتخابی دنگل کی تیاریاں شروع
انتخابی دنگل کی تیاریاں شروع
شہباز سعید
عید الفطر کے اختتام کے ساتھ ہی ملک بھر میں آمدہ الیکشن کے حوالے سے جاری سیاسی گہما گہمی میں مزید تیزی آچکی ہے۔ جبکہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل زور شور سے جاری ہے۔ کہیں پر کارکن ٹکٹ ملنے پر خوشی منارہے ہیں توکوئی ٹکٹ سے محروم رہنے پر سراپا احتجاج ہے۔جبکہ ریٹرننگ افسروں کی جانب سے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال اور منظوری یا نامنظوری کا مرحلہ اختتام پذیر ہوچکا۔اور اب سیاستدانوں کی جانب سے ریٹرننگ افسروں کے فیصلوں کیخلاف اپیلیں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان کی 71 سالہ سیاسی تاریخ کا یہ دوسرا موقع ہے جب جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی ہے اور اب اگر اللہ نے چاہا تو تیسری جمہوری حکومت بننے کا مرحلہ شروع ہے۔ جمہوریت کا فروغ یقیناً خوش آئند عمل ہے۔اب بس کچھ ہی دنوں میں ہر طرف ووٹ،ووٹ کی صدائیں بلند ہوناشروع ہوجائیں گی اور بھانت بھانت کے سیاستدان اپنے اپنے وعدوں وعیدوں سے ووٹرز کو گھیرتے نظر آئیں گے۔لیکن عوام اس بار اپنے شعور کسیاتھ فیصلہ کرنے کے موڈ میں دکھائی دے رہی ہے۔اور اسی شعور کو بھاپتے ہوئے سیاسی جماعتیں کوشاں ہیں کہ ان امیدواروں کو ہی پارٹی ٹکٹس دی جائیں جو اپنے حلقے کے نامور اور روائتی سیاستدان ہیں۔ اس لئے بھی شائد الیکٹیبل امیدرواں کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔اور جن جماعتوں کو الیکٹیبل امیدوار نہیں مل رہے وہاں نئے چہرے بھی متعارف کرائے گئے ہیں۔تاکہ جب امیدوار عوام میں جائے تو اسے نیا چہرا ہونے کی بنیاد پر ووٹ مل جائے۔اور کچھ جماعتوں نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان روائتی چہروں کو ٹکٹ نہیں دیئے جو پانچ سال اپنے حلقوں میں نظر تک نہیں آئے۔
اگرچہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے کارکنان ٹکٹوں کی تقسیم پر پارٹی قائدین سے نالاں ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے تو ٹکٹوں کی غلط تقسیم اور دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کرکے پارٹی میں شامل ہونے والے نئے افراد کو ٹکٹ دینے کے خلاف باضابطہ احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔عمران خان نے بنی گالہ میں دھرنا دینے والے پی ٹی آئی کے امیدواروں اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے بورڈ نے جوفیصلے کیے وہ کسی صورت تبدیل نہیں کیے جائیں گے کیونکہ اگرآج چند لوگوں کی موجودگی پر فیصلے تبدیل کیے تو کل اس سے زیادہ تعداد میں لوگ جمع ہوکر آئیں گے تو وہ بھی مطالبات پیش کریں گے۔عمران خان نے کہا کہ جن امیدواروں کو شکایات ہیں وہ درخواست جمع کرائیں اور دلائل دیں ہم ان کی درخواستوں پر نظرثانی کریں گے اور میرٹ پر فیصلے کریں گے لیکن کسی کے احتجاج پر فیصلے تبدیل نہیں کریں گے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما چوہدری نثار علی خان نے اپنی جماعت سے تیس سالہ رفاقت ختم کرنے کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کو خبردار کیا ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں، 25 جولائی کو ہمارے مخالفین کی صندوقچیاں خالیں ہوجائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ 34 سال سے میں نے نواز شریف کا بوجھ اٹھایا، نواز شریف کا مجھ پر نہیں بلکہ میرا ان پر اور ان کے خاندان پر قرض ہے، اس جماعت کی ایک ایک اینٹ میں نے رکھی ہے۔چوہدری نثار کے اس فیصلے سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ ایک دوسرے کی مخالف صف میں کھڑے ہو چکے ہیں جو پاکستان مسلم لیگ(ن) کیلئے انتخابات میں مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ دوسری طرف ملک میں انتخابی تیاریوں کے حوالے سے سیاسی گہما گہمی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے بھی عروج پر ہے۔امیدواروں کے کاغذات نامزدگیوں کی سکروٹنی کا عمل 20جون کومکمل ہوالیکن دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس تمام سیاسی گہما گہمی میں پیپلز پارٹی کہیں دور دور تک نظر نہیں آرہی ۔باز گشت تو یہ بھی ہے کہ آئندہ انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی پیپلز پارٹی کے حصے میں نہیں آئے گا بلکہ یوں کہیں تو بے جاءنہ ہوگا کہ اگر ایم ایم اے پوری حکمت عملی کے ساتھ انتخابی میدان میں اتر جائے تو شاید پیپلز پارٹی ملک کی تیسری بڑی جماعت بھی نہیں رہ سکے گی بلکہ اب تحریک انصاف کے بعد ایم ایم اے بھی پیپلز پارٹی سے آگے نکل جائے گی۔ اس پورے سیاسی منظر نامے میں اب تک پیپلز پارٹی اندرون سندھ کی ایک قوم پرست جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ آج پیپلز پارٹی کی جگہ تحریک انصاف نے لے لی ہے اور آئندہ انتخابات میں اصل مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے مابین ہوگا اور انہی دونوں جماعتوں میں سے ایک جماعت کی وفاق میں حکومت بنے گی۔ اگرچہ یہ احتمال ہے کہ کوئی بھی جماعت120کی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی اس لئے کوئی بھی وفاق میں تنہا حکومت نہیں بنا سکتا لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہی دونوں جماعتیں ہی دوسری جماعتوں یا آزاد امیدواروں کیساتھ ملکر حکومت بنائیں گی۔لیکن سیاسی پنڈٹ اب بھی اس بات پر ہی بضد ہیں کہ پنجاب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس ہی رہے گا۔
اگر نامور سیاسی رہنماﺅں کی اہلیت اور نا اہلیت کی بات کی جائے تو یہ واضح نظرآتا ہے کہ اس بار الیکشن کمیشن آف پاکستان شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے اپنی پوری کوشش کر رہی ہے کہ وہی امیدوارالیکشن میں حصہ لیں جو عوامی معیارپر پورا ترتے ہیں۔ کاغذات نامزدگیوں کے بعد جانچ پڑتال کے مرحلے میںبڑے بڑے سیاسی رہنماﺅں کے کاغذات پر اعتراضات لگ چکے ہیں۔ اور ان سیاسی رہنماﺅں کی دانش بھی یہی تھی کہ انہوں نے ایک سے زائد حلقوں سے کاغذات جمع کرائے تھے۔قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 53سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوچکے ہیں۔دونوں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے سے اس حلقے میں دلچسپ صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ اسی طرح سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے بھی حلقہ این اے ون چترال سے کاغذات نامزدگی مسترد ہوچکے ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 245 سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کردیے گئے۔جبکہ عمران خان، آصف زرداری اور شہباز شریف سمیت کئی سیاستدانوں کے کاغذات نامزدگی منظورہوچکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں کیا وہ کاغذات نامزدگی کی منظوری کیلئے الیکشن ٹریبونل کے سامنے پیش ہوں گے اور کیا کاغذات بحال کرا سکیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔