
مریم نواز بھی والد کے نقش قدم پر ، واجد ضیاءکے خط بارے اہم بیان دیدیا

اسلام آباد (ویب ڈیسک) شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں زیرسماعت ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز نے بھی اپنا مکمل بیان قلمبند کرادیا، مریم نواز نےاحتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے تمام 128 سوالات کے جواب دیے جس میں مریم نواز نے کہا کہ میں کبھی بھی لندن فلیٹس نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کی بینیفشل مالک نہیں رہی،ن کمپنیوں سے کبھی کوئی مالی فائدہ لیا نہ کوئی اور نفع اٹھایا،جے آئی ٹی نے قطری شہزادے حمد بن کی رضامندی کے باوجود انکا بیان ریکارڈ نہیں کیا، زیک فونسیکا کا 22 جون 2012 کا خط پرائمری دستاویز نہیں،جد ضیا کا پیش کیا گیا 3 جولائی 2017 کا خط بھی بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا ، پرائیویٹ فرم کے خط میں کوئی حقیقت نہیں، خط لکھنے والے کو پیش کیے بغیر مجھے میری جرح کے حق سے محروم کیا گیا، کیپٹل ایف زیڈ ای کی دستاویز میرے متعلق نہیں، یہ دستاویزات مذموم مقاصد کے تحت پیش کی گئیں،،گلف اسٹیل ملزکے 25 فیصد شئیرز فروخت کا حصہ نہیں رہی اور 1980 کے معاہدے سے بھی کوئی تعلق نہیں ۔ پیر کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت کی، اس موقع پر نامزد تینوں ملزمان نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر)محمد صفدر کمرہ عدالت میں موجود رہے۔سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے مسلسل تیسری سماعت کے دوران اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے تمام 128 سوالات کے جواب دیے۔342سی پی سی کے تحت مریم نواز نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔سماعت کے دوران مریم نواز نے بیان قلمبند کرانے کے دوران کہا کہ موزیک فونسیکا کا 22جون 2012کا خط پرائمری دستاویز نہیں۔یہ دستاویز مروجہ قوانین کے مطابق تصدیق شدہ بھی نہیں۔خط لکھنے والے کو عدالت میں پیش نہ کر کے جرح کے حق سے محروم کیا گیا۔ سوال کیا گیاکہ پانچ نومبر 2016اور 22دسمبر کے قطری خطوط کو من گھڑت کہا گیا ؟ کیا کہتی ہیں جس پر مریم نواز کاکہناتھا کہ واجد ضیا نے بطور تفتیشی افسر رپورٹ دی۔تفتیشی افسر کی رائے قابل قبول شہادت نہیں ہے۔جے آئی ٹی نے دبئی حکام کو جان بوجھ کر اس معاملے پر گمراہ کیا ،یو اے ای سے موصول ہونے والا ایم ایل اے قابل اعتبار دستاویز نہیں۔حمد بن جاسم نے بار بار اپنے خط کی تصدیق کی۔جے آئی ٹی نے حمد بن جاسم کی آمادگی کے باوجود بیان ریکارڈ نہیں کیا۔حمد بن جاسم نے قطر میں بیان ریکارڈ کرانے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔گلف اسٹیل مل کے واجبات سے متعلق مجھے ذاتی طور پر کوئی علم نہیں ہے ۔ یہ درست نہیں کہ یہ دستاویز مجھے نیلسن اور نیسکول کی بینیفشل مالک کہتی ہیں پرائیویٹ فرم کے خط میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔موزیک فونسیکا کا 22جون 2012کا خط پرائمری دستاویز نہیں۔یہ دستاویز مروجہ قوانین کے مطابق تصدیق شدہ بھی نہیں ۔ تفتیشی افسر ان بتانے میں ناکام رہے جے آئی ٹی رپورٹ میں صفحات 240سے 290تک کس نے اور کب شامل کئے۔خط لکھنے والے کو عدالت میں پیش نہ کر کے جرح کے حق سے محروم کیا گیا۔واجد ضیا کا پیش کیا گیا تین جولائی 2017کا خط بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا ۔یہ خط مبینہ طور پر ڈائریکٹر فنانشل ایجنسی نے جے آئی ٹی کو بھیجا ۔یہ خط براہ راست جے آئی ٹی کو بھیجا گیا جو کہ قانون کے مطابق نہیں ۔خط میں درج دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔سوالنامے میں پوچھا گیا کہ کہتے ہیں حسین نواز کی بھی اتنی آمدن نہیں تھی، اس سے متعلق کیا کہتی ہیں، جس پر مریم نواز بولیں کہ یہ چارٹ میرے متعلق نہیں۔میری اطلاع کے مطابق حسین نواز نے فلیٹس نوے کی دہائی کے آغاز میں نہیں خریدے۔جے آئی ٹی اور نیب کے تفتیشی افسر نے جان بوجھ کر منروا مینجمنٹ کو شامل تفتیش نہیں کیاتاکہ میرے حق میں آنیوالے حقائق کو چھپایا جاسکے۔استغاثہ بری طرح کیس ثابت کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں زیرسماعت ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز نے تیسرے روز اپنا بیان قلمبند کر اتے ہوئے کہا کہ زیک فونسیکا کا 22 جون 2012 کا خط پرائمری دستاویز نہیں،جد ضیا کا پیش کیا گیا 3 جولائی 2017 کا خط بھی بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا ، پرائیویٹ فرم کے خط میں کوئی حقیقت نہیں، خط لکھنے والے کو پیش کیے بغیر مجھے میری جرح کے حق سے محروم کیا گیا، کیپٹل ایف زیڈ ای کی دستاویز میرے متعلق نہیں، یہ دستاویزات مذموم مقاصد کے تحت پیش کی گئیں،میں کبھی بھی لندن فلیٹس یا ان کمپنیوں کی بینیفشل مالک نہیں رہی،گلف اسٹیل ملزکے 25 فیصد شئیرز فروخت کا حصہ نہیں رہی اور 1980 کے معاہدے سے بھی کوئی تعلق نہیں ۔پیر کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت کی اس موقع پر نامزد تینوں ملزمان نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر)محمد صفدر کمرہ عدالت میں موجود تھے ۔سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز مسلسل تیسری سماعت پر اپنا بیان قلمبند کرا یا سماعت کے دوران مریم نواز نے بیان قلمبند کرانے کے دوران کہا کہ موزیک فونسیکا کا 22 جون 2012 کا خط پرائمری دستاویز نہیں جب کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کا پیش کیا گیا 3 جولائی 2017 کا خط بھی بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا کیوں کہ پرائیویٹ فرم کے خط میں کوئی حقیقت نہیں۔مریم نواز نے کہا کہ یہ خط براہ راست جے آئی ٹی کو بھیجا گیا جو کہ قانون کے مطابق نہیں، خط میں درج دستاویزات پیش نہیں کی گئیں اور جس طرح یہ خط پیش کیا گیا اس کی ساکھ پر سنجیدہ شکوک پیدا ہوتے ہیں۔مریم نواز نے اعتراض اٹھایا کہ خط لکھنے والے کو پیش کیے بغیر مجھے میری جرح کے حق سے محروم کیا گیا تاکہ میں خط کے متن کی تصدیق نہ کر سکوں اور جرح کا موقع نہ دے کر شفاف ٹرائل کے حق سے محروم کیا گیا۔اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مریم اپنے دفاع میں بطور گواہ بلانا چاہیں تو بلالیں جس پر مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ یہ دیکھنا پڑے گا کہ غیر ملکی گواہ کو بلایا بھی جا سکتا ہے یا نہیں۔مریم نواز نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای کی دستاویز میرے متعلق نہیں، یہ دستاویزات مذموم مقاصد کے تحت پیش کی گئیں جب کہ استغاثہ کی طرف سے پیش کی گئی دستاویزات قابل قبول شہادت نہیں، فرد جرم کے مطابق یہ مکمل طور پر غیر متعلقہ دستاویزات ہیں۔مریم نواز نے کہا کہ خط پر انحصار شفاف ٹرائل کے خلاف ہوگا، اس خط کے متن سے ہمیشہ انکار کیا ہے، میں کبھی بھی لندن فلیٹس یا ان کمپنیوں کی بینیفشل مالک نہیں رہی، ان کمپنیوں سے کبھی کوئی مالی فائدہ لیا نہ کوئی اور نفع۔ گلف اسٹیل مل کے 25 فیصد شئیرز، التوفیق کیس کا سمجھوتہ اور 12 ملین کی سیٹلمنٹ پر کیا کہتی ہیں’ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ میں اس معاملے میں کبھی شامل نہیں رہی، گلف اسٹیل ملزکے 25 فیصد شئیرز فروخت کا حصہ نہیں رہی اور 1980 کے معاہدے سے بھی کوئی تعلق نہیں۔