Buy website traffic cheap

تحریک انصاف

تحریک انصاف ۔۔تبدیلی کاسفر

تحریک انصاف ۔۔تبدیلی کاسفر
عمرفاروق /آگہی
نظریاتی تحریکوں کا تعلق تنظیموں سے ہوتا ہے اور تنظیموں کا تعلق نظریاتی کارکنوں سے ہوتا ہے۔ جن تنظیموں میں نظریاتی کارکن ہوتے ہیں ان کے لیے انقلاب لانا یاتحریکیں چلانامشکل نہیں ہوتااسی طرح جوتنظیمیں اپنے کارکنوں کی نظریاتی تربیت کرتی ہیں ان کے لیے سیاست سمیت کسی بھی میدان میںکامیابی حاصل کرنااگرچہ طویل جدوجہداورعمل پہیم کامتقاضی ہوتاہے مگرایسی تحریکیں یاتنظیمیں ایک دن منزل حاصل کرکے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں نظریات کو عمل سے جوڑے بغیر انقلاب لانے کی کوششیں جاری ہیں یہ ایسا ہی ہے جیسے گاڑی کو بیلوں کے آگے باندھ دیا جائے ۔ایساہی کچھ عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کیاہے عمران خان بیس سال سے پی ٹی آئی کوایک نظریاتی جماعت کہتے رہے اورتبدیلی کی باتیں کرتے رہے مگر بالآخروہ بھی اسی راستے پرچل پڑے جوملک کی دیگرسیاسی جماعتیں اپنائے ہوئے ہیں، یوں پی ٹی آئی کے قائدین کایہ دعوی کہ وہ ایک نظریاتی تحریک ہے غلط ثابت ہواہے اورتبدیلی کادعوی بکھرکررہ گیاہے ،
25جولائی کو ہونے والے الیکشن کے لیے پی ٹی آئی نے جن امیدواروں کوٹکٹ دیئے ہیں اس لسٹ کودیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ عمران خان کی پی ٹی آئی کہیں گم ہوگئی ہے اس جماعت پرپیپلزپارٹی ،ن لیگ ،ق لیگ اوردیگرجماعتوں سے آئے ہوئے گھس بیٹھیوں نے قبضہ کرلیاہے ،پاکستان تحریک انصاف نے ٹکٹوں کی تقسیم سے یہ ثابت کیاہے کہ وہ نظریاتی کارکنوں کے ذریعے انقلاب یااقتدارمیں نہیں آسکتے ہیں ،وہ یہ حقیقت بھی جان گئے ہیں کہ کوئی بھی پارٹی نظریاتی ووٹ بینک کی بنیاد پرالیکشن میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی ۔ انھیں جیتنے والے گھوڑے ہی میدان میں اتارنے ہوںگے اوریہ الیکٹیبلزانہیں اپنی جماعت سے میسرنہیں اس لیے اصطبل خانہ کھولاگیا اوردوسری جماعتوںسے گھوڑے درآمدکیے گئے ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جیتنے والے گھوڑوں کی منڈی سے بھی انھوں نے جومال حاصل کیاہے یہ ان کے لیے کتنامفیدہے یہ آنے والاوقت ہی بتائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کادعوی تھا کہ نظریاتی کارکن اورمڈل کلاس نوجوان اس کااصل اثاثہ ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 2002اور2013کے الیکشن میں زیادہ ترنوجوانوں کوترجیح دی اورانہیں سیاسی میدان میں اتارا۔یہ نظریاتی کارکن ہی تھے کہ جنھوں نے اکتوبر2011میں مینارپاکستان میں تاریخی جلسہ کیا جہاں سے واقعی تحریک انصاف کاسیاسی سفرشروع ہوا مگراس مرتبہ ٹکٹوں کی تقسیم میں نظریاتی کارکنوں کی بجائے سرمایہ داروں ،جاگیرداروں ،وڈیروں کوٹکٹ دیئے ہیں ،تحریک انصاف نے اب تک 175امیدوران کو ٹکٹ دیے ہیں۔ ان میں صرف 25 کا تعلق تحریک انصاف سے ہے باقی سب نے حال ہی میں پارٹی جوائن کی ہے۔ ایک خبرکے مطابق 2013 الیکشن میں سات مرحلہ کا گھر فروخت کرکے انتخابات میں حصہ لینے والا رانا بابر ایڈووکیٹ بھی اس مرتبہ ٹکٹ سے محروم ہوگیا۔
اس مرتبہ عام کارکن ٹکٹ کے لیے دیکھتاہی رہے گیا۔ ایک بھی ٹکٹ کسی غریب کو نہیں دیا گیا۔ کسی دھرنے میں ساتھ دینے والے کو نہیں دیا گیا۔ اسلام آبادؒ لاک ڈاﺅن میں مار کھانے والے کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔بس جیتنے والے گھوڑوں کو ٹکٹ دیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے اپنے ستر ایسے ٹکٹ ہولڈر تھے جنھوں نے گزشتہ انتخاب میں چالیس ہزار یا اس سے زائد ووٹ لیے تھے۔ لیکن انھیں اس بار ٹکٹ نہیں دیے گئے بلکہ ان کے حلقوں میں دوسری جماعتوں میں نئے امیدوار امپورٹ کر کے ٹکٹ دے دیے گئے ہیں۔
تحریک انصاف کادعوی تھاکہ وہ نوجوانوں کی جماعت ہے اوریہ نوجوان ہی حقیقی تبدیلی لائیں گے ، اسی لیے گزشتہ انتخاب میں نوجوانوں کو خیبر پختونخوا میں ٹکٹ دیے بھی گئے۔پنجاب میں بھی دیے گئے لیکن پنجاب میں وہ جیت نہیں سکے اور خیبر پختونخوا میں وہ جیت کر سامنے آئے۔مگرخان صاحب نے اپنے عملی اقدامات سے اس دعوی کوآج غلط ثابت کیاہے ، اس بار جو ٹکٹ دیے گئے ہیں ان میں 25 ایسے امیدوار ہیں جن کی عمر ستر سال سے زائد ہے۔ 45 ایسے ہیں جن کی عمریں 50 سے 65 سال کے درمیان ہیں۔ اس طرح کل 65 ایسے امیدواران کو ٹکٹ دئے گئے ہیں جو بڑھاپے میں ہیں۔ کیا یہ بھی ان کی گزشتہ پالیسی سے یو ٹرن نہیں ہے۔
اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کادعوی تھا کہ وہ موروثی سیاست کی قائل نہیں ، موروثی سیاست کے بارے میں عمران خان نے سب سے ز یادہ شور مچایا۔ بالخصوص وہ شریف خاندان کے خلاف بولتے تھے کہ شریف خاندان کے بچے بھی سیاست میں آگئے ہیں۔ تحریک انصاف اس موروثی سیاست کو ختم کر دے گی۔ لیکن اب تحریک انصاف نے شاہ محمود قریشی، لیاقت جتوئی، انور علی چیمہ کے بیٹوں،غلام سرورخا ن کے بھتیجے اورپرویز خٹک کے داماد سمیت سب کے بچوں کو ٹکٹوں سے نواز دیاہے ، پاکستان تحریک انصاف نے کئی حلقوں میں باپ بیٹا، بھتیجے ، سگے بھائیوں اور رشتے داروں کو بھی ٹکٹ سے دیاہے ۔۔اقتدارکے اس کھیل میں پاکستان تحریک انصاف نے جس طرح نوجوانوں کی امیدوں پرپانی پھیرااس کی مثال نہیں ملتی ۔
پی ٹی آئی کے دوست اکثرمجھے کہتے تھے کہ آ پ ہماری جماعت پرتنقیدکیوں کرتے ہیں تومیں انہیں یہ کہتاتھا کہ آپ کی جماعت اوردوسری جماعتوں میںکوئی فرق نہیں ہے عمران خان اوران کی جماعت تبدیلی کے جودعوے کرتی ہے وہ دھوکہ ہیں اقتدارکے لیے یہ بھی وہ ہتھکنڈے اورحربے آزمارہے ہیں جودوسری جماعتیں اپنارہی ہیں اوراب حالات نے یہ بات درست ثابت کردی ہے موجودہ الیکشن میں کامیابی کے بعد اگرعمران خا ن حکومت بناتے ہیں توان کاوزیرخارجہ پیپلزپارٹی کاسابق رہنماء،ان کاوزیرداخلہ پی پی پی کاسابق وزیر،وزیرتعلیم ن لیگ کاسابق رہنماء،وزیرتوانائی ق لیگ کاسابق وزیر،وزیراطلاعات بھی ایک لوٹاہوگا اس کابینہ میں پی ٹی آئی کہاں ہوگی ؟اورجوتبدیلی آپ لے کرآناچاہ رہے تھے وہ تبدیلی کیاہوئی ؟وہ نظریاتی کارکن کہاں گئے ؟
نظریاتی کارکن کارکن کسی بھی تنظیم یا گروپ میں ریڑھ کی ہڈی مانند ہوتا ہے۔ یہ اپنی تنظیم کو فرش سے عرش تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ دن رات بغیر تنخواہ معاوضے کے اپنی تنظیم کے لیے کام کرتا ہے اور کبھی کسی بھی قیمت پر جھکتا ہے اور نہ ہی بکتا ہے۔ضرورت پڑنے پر اپنے لیڈر کے لیے جان بھی دے دیتا ہے۔ جب سے مفاد پرستوں نے کارکنوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا تب سے تنظیموں میں نظریاتی اور شخصی کارکن کی لکیر کھینچی جا چکی ہے۔شخصی کارکن صرف کسی خاص شخصیت کے لیے کام کرتا ہے اور اس کا مقصد کسی بھی قیمت پراپنے آقا کو ذاتی فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ پارٹی منشور پر چلنے کی بجائے اپنے آقا کے اشاروں پر ناچتا ہے۔ہوتا یہ ہے کہ نظریاتی کارکن محنت کرتا رہتا ہے لیکن شخصی کارکن اس کی محنت کے ثمرات سمیٹ لیتا ہے۔پاکستان تحریک انصاف سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں یہ روز کا تماشا بن چکاہے۔
بدقسمتی سے تبدیلیوں کے دعویدار صرف باتوں کے ذریعے تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں اس لیے نہ تبدیلیاں آتی ہیں نہ کارکن نظریاتی بن پاتے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کو بھی اب نظریاتی کارکنوں کی ضرورت بس مجمع بڑھانے کی حد تک ہوتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اب نظریاتی کارکن کی قدر کم سے کم جبکہ شخصی کارکن کی قیمت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔نظریاتی کارکن جماعت بناتے ہیں اور شخصی کارکن مافیا۔ اب شاید یہی ڈیمانڈ ہے۔
حالات نے ثابت کیاہے کہ پاکستان تحریک انصاف بھی سٹیٹس کوحامی جماعت ہے یہ بھی ایمپائزکے اشارے پرچلتی ہے یہ جماعت بھی نظریاتی کارکنوں کواقتداراورمفادکے لیے قربان کرتی ہے یہ بھی الیکٹوریٹ نہیں بلکہ الیکٹیبلزپریقین رکھتی ہے یہ جماعت بھی اقدارنہیں بلکہ ہرصورت اقتدارپرپہنچناچاہتی ہے یوں عمران خان جس تبدیلی کاسفراشروع کیاتھا وہ سفراب اختتام تک پہنچ چکاہے ۔مجھے ان نظریاتی کارکنوں سے ہمدردی ضرورہے جنھوں نے اس جماعت کوپروان چڑھانے کے لیے دن رات ایک کیا اپنے مال وجان کی قربانی دی اپنی توانائیاں صرف کیں ،اب ان کی جماعت اقتدارکی سیڑھیاں طے کررہی ہے مگراس کے نظریاتی کارکن اس ہجوم میں کہیں کھوگئے ہیں ۔