Buy website traffic cheap

parliment outside

جمہوری! انسانیت کے دشمن !!!

ملک شفقت اللہ
ہنوز کی سیاست نے پوری دنیا میں انسانیت کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے ۔ انسانیت کے معنی اور اس کی تفسیر بدل گئی ہے ، اطیع اللہ و اطیع الرسول تو موجود ہے لیکن اولو الامر کے تقاضے ختم ہو کر رہے گئے ہیں ۔ اسلام کی تمام تر بنیادی تعلیمات اتحاد پر روشنی ڈالتی ہیں ، آج ہماری نوجواں نسل کے دماغوں میں ایسے سوالات موجود ہیں جو محض تاویلوں کے سوا کچھ نہیں اور یہ تاویلیں ان کے دماغوں میں کس نے ڈالی ہیں ، اس فرسودہ جمہوری نظام نے ۔ اگر ہم دنیا کی سیاست کا مبہم سا جائزہ لیں تو دیکھتے ہیں کہ جب سے یہ برطانوی جمہوری نظام کا اطلاق جن جن ممالک پر ہوا وہاں کا نظام تہہ و بالا ہو کر رہ گیا ہے ، خاص طور پر مسلم ممالک پر نظر دوڑائیں تو ان کی معیشت کا بیڑہ ہچکولے کھا رہا ہے کیونکہ عوام جس ووٹ کے ذریعے مینڈیٹ دیتی ہے اگر اس کا اندازہ لگایا جائے تو ان میں ووٹ نا دہندگان کی تعداد کی کثرت ہوتی ہے با نسبت ووٹ دینے والوں کے ۔ اس کی واضح مثال برصغیر پاک و ہند کا علاقہ ہے۔ اس وقت تک پاکستان میں ووٹنگ کی شرح چالیس فیصد زیادہ سے زیادہ رہی ہے جب کہ بھارے میں بھی یہی شرح کم و بیش پائی گئی ہے ۔ سابقہ ضمنی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت ن لیگ نے پورے ملک سے ایک کروڑ ستر لاکھ ووٹ لئے تھے جبکہ پاکستان کی آبادی بیس کروڑ ہے باقی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کا اندازہ لگایا گیا تو اوسطاََ پینتیس فیصد عوام نے ووٹ کاسٹ کئے ، جبکہ پینسٹھ فیصد عوام ان جمہوریوں ، لبرل ازم، کمیونزم اور سیکولر نظام کو مسترد کرتی ہے ۔یہاں سوچنے کی بات ہے کہ عوام ایسا کیوں کرتی ہے ؟ اس کے پیچھے وہ کیا عنصر ہے کہ وہ ووٹ کاسٹ کرنا پسند نہیں کرتی ، اس پر تاویلیں اور دلائل تو بہت موجود ہوں گے کہ لوگ مزدور طبقہ ہے اس لئے نہیں نکلتے ، کوئی بہت دور ہوتا ہے ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتا ، کوئی بیمار ہے ، لیکن میرے نزدیک یہ سب محض کہنے اور دکھاوے کی باتیں ہیں ۔ کیونکہ میں نے دیکھا ہے ، کافی بار بزرگ معذوری کے باوجود ووٹ کاسٹ کرتے ہیں ، اسی طرح دور دراز سے سفر کر کے بھی آتے ہیں ، مگر ایک بات ان سب سے ماوراء ہے اور وہ یہ کہ لوگ اب اس فرسودہ تباہ کار نظام سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ پھر سے نظام خلافت چاہتے ہیں ، جس میں ہر سو امن ہو ، خوشحالی ہو ، تعصب سے پاک معاشرہ ، ایمان ، اتحاد ، تنظیم اور یقین و محکم پر قائم معاشرہ چاہتے ہیں ۔ اس وقت پوری دنیا میں جمہوریت کے چھتر کھا کھا کے عوام کی کمر تھک چکی ہے اور زبان منہ سے باہر لٹک چکی ہے مشقت کر کے ، لیکن زندگی کی مسافت ختم ہونے کو نہیں آتی ۔ اس وقت تمام ممالک میں امن و امان کی صورت حال قائم رکھنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے ادارے قائم شد ہیں ، اور اندرون ملک پولیس کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ میری نظر میں کوئی بھی ایسا فساد جس میں کسی بھی قسم کا تعصب ہو چاہے ، لسانی ، چاہے فرقہ واریت یا نسلی اس کو پولیس فوری طور پر قلع قمع کر سکتی ہے اس سے پہلے کہ وہ بڑھے ۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ دشمن بلوچستان میں ، لسانی بنیاد پر ، کراچی میں لسانی و فرقہ وارانہ بنیاد پر فسادات بپا کرتے ہیں پاکستان کو توڑنے کیلئے لیکن ہمیں پاکستان کی سالمیت کیلئے متحد رہنا ہے ۔ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ چلو ، دشمن نے ایمان فروشوں کو خرید لیا اور وہ ایسی کاروائیاں ملک میں کر رہے ہیں لیکن وہ ہیں تو چند ہی نا ، پوری عوام تو نہیں ؟ انہیں کیوں نہیں روکا جاتا؟ کیونکہ ان چند ایمان فروشوں کے پیچھے کسی نا کسی سیاسی مگر مچھ کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے اور پولیس محکمہ اس کے دباؤ تلے کام کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ چند لوگ اتنے طاقت ور ہو جاتے ہیں کہ کروڑوں عوام پر بھاری پڑ جاتے ہیں ۔ میں نے دیکھا ہے کہ کتنے ایسے لوگ سوٹ بوٹ پہن کر تھانے میں لوگوں کی ضمانتیں دینے کیلئے آئے ہوتے ہیں جو خود کسی نا کسی کیس میں ملوث یا نامزد ملزم ہوتے ہیں ۔ لیکن انہیں عزت دی جاتی ہے اور کرسیاں پیش کرکے اس طرح بٹھایا جاتا ہے کہ تھانا عوام کے ٹیکسوں سے نہیں بلکہ ان کے پیسو ں سے چلتا ہو ۔ بھارت کی سیاست دیکھیں تو وہاں بھی وہی پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے جس نے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں پر ظلم کیا ہو اور جو کشمیر میں مظالم کے حق میں ہو ، مودی کی حکومت اس کا سب سے بڑا استعارا ہے ۔ شام میں بشار الاسد نے پہلے اپنے باپ کی حکومت گرائی کہ خلافت نہیں جمہوریت لانی ہے اس کے بعد وہاں کی عوام کو باغی قرار دے کر آئے روز ان پر حملے کرواتا ہے ۔ افغانستان میں اشرف غنی جیسا منافق اور خوشامد پرست صدر بیٹھا ہے جس نے امن پسند قبائل کو نشانہ بنا کر ان پر اپنا دباؤ پیدا کر رہا ہے تاکہ وہ اپنی نام نہاد کرسی پر دائم ہو سکے ، ایران اس وقت اسرائیل کی گود میں کھیل رہا ہے اور اب وہاں بھی عوامی حلقے میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے ، بنگلہ دیش میں شیخ واجد حسینہ بھارتی حکومت کی کٹھ پتلی ہے جو بھارتی اشاروں پر بنگلہ دیش سے امن پسند مسلموں کی نسل کشی کر رہی ہے ۔ یہ تو ہو گئی سیاسی طبقے کی بات اب ہم عوامی حلقے کا جائزہ لیتے ہیں ، تو ہمیں ہر طرف بھائی چارہ ، پیار و امن کی راہ دکھائی دیتی ہے ۔ یہ بات واضح ہے کہ مذہبی اختلاف تو ہے ہی لیکن اس وقت پوری دنیا امن کی خواہاں ہے جو کہیں بھی میسر نہیں اور اسی پر ساری سیاست قائم ہے ۔حال ہی میں امریکن ایمبیسی میں جب امریکی ترجمان آئیں تو وہاں اس کو بولنے کا موقع دئیے بغیر ہی فلسطین کی آزادی کے نعرے بلند ہوئے اور وہ نعرے لگانے والے فلسطینی نہیں تھے بلکہ امریکی اور برطانوی اور اسرائیلی تھے۔ مسلمان یورپ ممالک میں عیسائیوں ، سکھوں ، ہندوؤں کے ساتھ اکٹھے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں ، اس کی سب سے بڑی مثال بھارت کے ایک شہر کشن گنج کی ہے جہاں زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے لیکن وہاں کبھی بد امنی کے واقعات پیدا نہیں سوائے ان دنوں میں جب وہاں الیکشن ہوتے ہیں ،اسی طرح پاکستان کے سندھ میں جہاں سے ہندو رکن اسمبلی بھی منتخب ہوتے ہیں ، یعنی عوام مذہبی نظریات کو اپنے تک محدود رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں جو سیاسیوں کیلئے موزوں نہیں ۔ قرآن الکریم کے حساب سے اولوالامر یہا ں سیاسی منتخب حکمرانوں کی طرف سے ہم پر واجب نہیں آتا ۔ اس لئے عوام کو چاہئے کہ وہ اپنی ایک جماعت بنائے جو ان سیاسیوں پر حکمرانی کرے ، جس میں امن و امان اور بنیادی ضروریات معاشرے کی اکائی ہوں ۔ جہاں کوئی بھی بھائی چارے کو بھسم نا کر سکے ۔مرجعیت لازمی ہے کیونکہ یہی صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا پرچار کر سکتی ہے اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کر سکتی ہے ۔ آئندہ الیکشن میں وہ پینسٹھ فیصد عوام امن ، مساوات ، اخلاق ، محبت و اخوت کو ووٹ دے کر ان کو تختِ اسلامی جمہوریہ پر رائج کرے ۔آخر میں اپنی غزل کا ایک شعر:۔
امن دیکھوں چمن میں اپنے کبھی
خواب ہے ! گھر سجا رہا ہوں میں