جیل قیدیوں کی ریفارمزکیسے ممکن ہیں؟
جیل قیدیوں کی ریفارمزکیسے ممکن ہیں؟
سیدعارف نوناری
چیئرنگ کراس
پاکستان دنیا بھرکے جیلوں میں قیدپاکستانیوں کی وطن واپسی کیلئے ن لیگ کی حکومت کے حکم سے مختلف ممالک کے سفارتخانوں سے رابطوں کا آغازکرنا تھا ۔لیکن اب یہ مسئلہ التواءکا شکا ر ہوچکاہے ۔ دنیا بھر کے 70سے زائد ممالک میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد6700سے زائد ہوچکی ہے سب سے زیادہ پاکستانی قیدی سعودی عرب ، متحدہ امارات،برطانیہ اور امریکہ میں قید ہیں ،ان میں اکثریت معمولی جھگڑے ،منشیات فروشی ، غیرقانونی رہائش اور مختلف نوعیت کے معمولی جرائم میں ملوث ہونے پر گرفتارہیں
پاکستان میں جیلوں میں گجائش سے زیادہ قیدی ٹھونسے گئے ہیں۔ حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہی۔ جیلیں جرائم کی آجگاہ بن چکی ہیں۔ قیدیوں کے مطابق جیلوں کی تعداد پوری نہیں۔ چند ماہ قبل لاہور ہائیکورٹ میں ایک درخواست گزار نے استدعا کی کہ قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی مطابق عدالت حکومت وقت کو مزید جیلوں کی تعمیر کا حکم دے۔ نئی جیلوں کی تعمیر کا دوہزار سات کا منصوبہ دس سال بعد بھی مکمل نہیں ہوا۔ قیدیوں کے بھی قانون میں حقوق کا تعین کیا گیا ہے لیکن جیلوں میں مناسب سہولیات نہیں ہیں۔ جیلوں کی تعمیر مکمل کرنے کے حوالے سے بروقت کام نہیں ہو رہا۔ ابھی تک جیلوں میں ریفارمز اور قیدیوں کی تربیت کیلئے اقدامات نہیں کئے گئے۔ اسی لئے جیلیں جرائم کا گڑھ بن گئیں۔لوگ جیلوں میں بیٹھ کر جرائم کرا رہے ہیں۔ دین اور قرآن کے فرمودات پرعمل کرنے کی ضرورت ہے دوسری جانب جیل حکام کے مطابق پنجاب میں مزید بارہ جیلوں کی تعمیر مکمل ہوچکی ہیے۔شجاع آباد، خانیوال اور سرگودھا میں زیرتعمیر جیلیں مکمل کرلی گئی ہیں۔ وفاقی محتسب کی جیل ریفارمز کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق جیلوں کو اصلاح خانہ بنانے اور خواتین و کم عمر قیدیوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے ایک فریم ورک ترتیب دیا جا رہا ہے جس کیلئے چاروں صوبوں سے کو ئٹہ، کراچی، فیصل آباد اور ہری پور جیل کا دورہ کیا جائے گا جس کے دوران قیدیوں کے مسائل کو دیکھ کر سفارشات مرتب کی جائیں گے تاکہ جیلوں سے باہر آنے والے قیدی معاشرے کے مفید شہری بن سکیں جس کیلئے ہمیں تاجروں، انڈسٹریلسٹس، چیمبر ممبران اور میڈیا کی لانگ ٹائم سپورٹ کی ضرورت ہے تاکہ جیلوں میں بہترین ایڈمنسٹریشن قائم ہو سکے۔
بتایاجاتاہے کہ پاکستان کی جیلوں اور پولیس حراست میں کم عمر بچوں کو بڑی عمر کے قیدیوں کے ساتھ رکھنے کا نام کیا انصاف کا نظام ہے؟پاکستانی جیلوں میں سات سال کی عمر سے لے کر ماں کی آغوش میں دنیا کے درپیش مسائل سے معصوم بچے نا آشنا قیدی بھی ہیں۔ گزشتہ دنوں اعلیٰ عدلیہ نے ایک قیدی خاتون کی دہائی پر نوٹس لیا تھا کہ جیلوں میں قید بچوں کوپولیو ویکسین نہ پلائے جانے کا سبب اس کا بچہ پولیوکا شکار ہوگیا ہے۔پاکستان میں عدالتی نظام میں اصلاحات کی جس قدر ضرورت ہے اسے اتنا ہی نظر انداز کیا جاتا ہے۔
اہم امر یہ ہے کہ نابالغ بچوں کے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا کیونکہ ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والا ہی کوئی نہیں ہے ، پاکستان قانون کے مطابق بچوں کو ہتھکڑیاں نہیں لگائی جاسکتی لیکن ان بچوں کو رشوت کے حصول کے لیے بڑی عمر کے قیدیوں کے ساتھ ہتھکڑیوں میں جکڑدیا جاتا ہے۔جیلوں میں قید بچوں کی حالت کافی تشویش ناک حد تک قابل رحم ہے۔ایک جائزے کے مطابق ستر فیصد بچوں کو پولیس حراست میں تشدد کا جہاں نشانہ بنایا جاتا ہے تو جیلوں میں عدالتی تحویل کے دوران تشدد، بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
اسی طرح کم عمر بچیوں کو بھی ایسی خواتین قیدیوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے جہاں وہ منشیات کی عادی ہو رہی ہیں۔قابل ذکر افسوس ناک صورتحال یہ بھی ہے کہ ماتحت عدالتوں میں مقدمات چلنے کی رفتار انتہائی سست ہوتی ہے جس بنا پر انھیں انصاف مہیا نہیں ہوپاتا۔ پاکستانی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہونے کی ایک بنیادی وجہ ماتحت عدالتوں میں چلنے والے کچھوے کی چال سے بھی سست مقدمات کی شنوائی ہے۔حد تو یہ ہے کہ جیل کے قوانین کے مطابق سزائے موت کے قیدی کی کوٹھری دس ضرب بارہ فٹ کے رقبے کی ہوتی ہے جس میں صرف ایک قیدی کو رکھے جانے کی اجازت ہے لیکن جگہ کی کمی کے سبب ایک سے زیادہ قیدیوں کو ان کوٹھریوں میں رکھا جاتا ہے۔
ملک بھر کی ستاسی جیلوں میں بنائے گئے ڈیتھ سیل میں ایک یا دو کے بجائے پانچ سے سات افراد کو رکھا جاتا ہے۔اس دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ سزائے موت کے قانون پر عمل درآمد روکے جانے کے سبب موت کی سزا پانے والے قیدیوں کو عام قیدیوں کے ساتھ رکھنے پر بھی غور کیا گیا،سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کی قانون سازی کی کوشش نے مقتولین کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا تھا اور آج تک ان کی سزاو¿ں پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تو ایسے عمل خطرناک قیدی ، دیگر جرائم پیشہ قیدیوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بھی بنتے ہیں۔
جیل قیدیوں کی ریفارمزکے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرہ کوبھی اپنا کرداراداکرنا ہو گا جبکہ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس اور مقامی غیرسیاسی تنظیموں کو قیدیوں کے مسائل اور ان کے حل کے لئے لائحہ عمل تیارکرناہوگاتاکہ وہ جیل میںاور جیل کے باہر مفیدشہری بناسکیں۔