Buy website traffic cheap

حق تو یہ ہے

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
(ابن نیاز)
آفس میں زور کی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ قریب تھا کہ بات ہاتھا پائی تک جا پہنچتی، ادارے کے ڈائریکٹر کا وہاں سے گزر ہوا۔ انھیں دیکھتے ہی اشتیاق اور نادر جو اس بحث کے روح رواں تھے ایک دم سے خاموش ہو گئے۔ ان دونوں کے ساتھ تین چار ساتھی اور بیٹھے تھے۔ لیکن وہ صرف سامع کی صورت ان کی باتیں بلکہ بحث سن رہے تھے۔ کبھی کبھار ان میں سے ایک آدھ کوئی لقمہ دے دیتا لیکن زیادہ تر اشتیاق اور نادر ہی بول رہے تھے.۔
اس وقت آفس میں ظہر کی نماز اوردوپہر کے کھانے کا وقفہ تھا۔ اتفاق ہی تھا کہ آج اشتیاق اور نادر دونوں لنچ کرنے باہر نہیں گئے تھے۔ اشتیاق نے تو گھنٹہ ڈیڑھ پہلے ہی اپنے باس کی ایک میٹنگ کے بعد باقی رہنے جانے والے سموسے اور پیٹیز کھائی تھیں اس لیے اب اس کا دل کھانے کو نہیں کر رہا تھا۔ جب کہ نادر گذشتہ ایک ہفتے سے موقع کی تلاش میں تھا کہ اشتیاق سے دو دو ہاتھ کرے۔ آج جب اسے معلوم ہوا کہ اشتیاق آفس میں ہی ہے تو وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر آگیا۔ اس کے ہاتھ میں دو تین پمفلٹ بھی تھے۔
”اشتیاق !اب اگر تم نے ہمارے مربی کے بارے میں کچھ کہا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔“ ناصر نے ڈائریکٹر کے جاتے ہی اشتیاق کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”تم سے برا تو فی الحال واقعی کوئی نہیں۔“ اشتیاق نے زیرِلب مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”کیا مطلب؟ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ “ ناصر اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔ وہ پہلے ہی غصے میں تھا. اس کی آنکھوں سے اور انداز سے لگ رہا تھا کہ ابھی اشراق پر حملہ کر دے گا۔ لیکن ساتھ ہی عجیب سی بے بسی کے تاثرات بھی اس کے چہرے سے نمایاں تھے۔
”اس لیے کہ تم اور تمھارے سارے ساتھی جھوٹ بولتے ہو۔“ اشتیاق نے جذبات میں کہا۔
”کس قسم کا جھوٹ؟ اور ہم نے کب جھوٹ بولا ہے؟“ نادر نے سوال کیا۔ سوال اس کے چہرے سے بھی عیاں تھا۔ ماتھے پر سلوٹیں سی پڑ گئی تھیں۔
”وہ جھوٹ، جس کے بارے میںاللہ پاک سورة انعام، آیت 93 میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: ”اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے، یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے، حالانکہ اس پر کوئی وحی نازل نہ کی گئی ہو، اور اسی طرح وہ جو یہ کہے کہ میں بھی ویسا ہی کلام نازل کردوں گا جیسا اللہ نے نازل کیا ہے ؟ اور اگر تم وہ وقت دیکھو (تو بڑا ہولناک منظر نظر آئے) جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں گرفتار ہوں گے، اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے (کہہ رہے ہوں گے کہ) اپنی جانیں نکالو، آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس لیے کہ تم جھوٹی باتیں اللہ کے ذمے لگاتے تھے، اور اس لئے کہ تم اس کی نشانیوں کے خلاف تکبرکا رویہ اختیار کرتے تھے۔“
تو اب خود بتاو¿ کہ جھوٹ بولنے والا برا ہوا یا نہیں۔ اشتیاق نے دلیل دی۔
”ہونہہ۔۔ بڑا آیا مولوی۔ دیکھ لوں گا میں تمھیں۔ آسمانوں کی سیر کرواو¿ں گا۔“ نادر سے جب کچھ جواب نہ بن پڑا تو یہ کہا اور غصے منہ بناتا ہوا اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گیا۔
اشتیاق نے تو الحمدللہ پڑھا جب کہ باقی تین سامعین نے نادر کی ہزیمت پر مسکرانا شروع کر دیا۔
اشتیاق اور نادر کی لفظی جنگ بازی گزشتہ دو ہفتوں سے جاری تھی جب ایک دن اشتیاق نے نادر کوکسی سے فون پر بات کرتے ہوئے سنا تھا۔ ناصر شاید اپنے کسی بڑے سے بات کر رہا تھا کہ وہ اس کو روحانی خزائن میں سے چند مخصوص صفحات سکین کرکے وٹس ایپ کر دے۔ اس نے ان صفحات پر لکھی تحریر کا حوالہ دیا تھا۔ اس نے پرنٹ نکال کر کسی کو آفس میں دینے ہیں۔ اشتیاق نے جب یہ سنا تو اس کے قریب کھڑا ہو گیا۔ نادر نے جیسے ہی کال ختم کی تو اشتیاق نے پوچھا کہ قادیانیوں کی اس کتاب کی اس کو کیا ضرورت پڑ گئی؟
”کیوں، تمھیں اس سے مطلب؟ میں کچھ بھی کروں۔“ ناصر نے تیکھا سا جواب دیا۔
اشتیاق کو شک سا ہوا کہ آیا ناصر یا تو خود قادیانی ہے یا پھر قادیانی بننے کی تگ و دو میں ہے۔ اس نے آج تک تو یہی سنا تھا کہ قادیانی اپنے مذہب میں داخل ہونے والوں کو بہت سی سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ لیکن نادر تو خود کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے پھر اس کو سہولیات سے کیا مطلب۔ اچھا خاصا ا میر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ خیال آتے ہی یقین ہو گیا کہ نادر یقیناً قادیانی ہے۔
”مطلب ہے نا۔ اس ادارے کے قواعد کے مطابق یہاں مذہب کی تبلیغ منع ہے اور تم اپنے مذہب کے پمفلٹ تقسیم کرتے پھر رہے ہو۔ وہ بھی ایک جھوٹے مذہب کے“۔ اشتیاق نے اس کا قادیانی ہونا کنفرم کرنے کے لیے ایک پانسہ پھینکا۔
”جھوٹا کیوں؟ ہمارا مذہب سچا ہے۔ اس میں فرقہ بندی کوئی نہیں، جب کہ تم لوگ اپنے آپ کو دیکھ لو، پہلا نعرہ شیعہ سنی کا لگتا ہے اور پھر بریلوی، دیوبندی، وہابی، اہلحدیث خود کو کہلا کر دوسروں پر کفر کے فتوے لگتے ہیں۔“ نادر تو گویا ابلا بیٹھا تھا، آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا۔
” کیا ہوا؟ گرم کیوں ہو گئے؟ جھوٹے کو جھوٹا نہیں کہیں گے تو نعوذ بااللہ صادق اور امین کہیں گے۔“ اشتیاق کافی ٹھنڈے دماغ کا مالک تھا اس کو تیش دلانا اور پھر اس کا غصے میں آپے سے باہر ہونا بہت ہی مشکل تھا. اس وقت بھی اس تلخ بات کو پی گیا اور الٹا اس کو پھر ایک کرنٹ دیا۔
”جاﺅ جاو¿، اپنا کام کرو۔ میں کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا۔“ نادر نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے منہ بنا کر جواب دیا۔
” ہونہہ۔ جواب نہیں ہے تو اچھا طریقہ ہے جان چھڑانے کا۔ لیکن میں تمھیں چھوڑوں گا نہیں۔ یا تو سچے نبی خاتم النبیین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گے یا پھر۔۔۔۔ ” بات کے آخر میں اشتیاق نے انگلی سے دروازے سے باہر نکل جانے کا اشارہ کرتے ہوئے پیچھے سے لات مارنے کا اشارہ بھی کردیا۔ اس کا مطلب تھا کہ لات مار کر آفس سے باہر نکال دیے جاو¿ گے۔
یہ کہہ کر وہ نادر کی کوئی اور بات سنے بغیر جس کام کے لیے جا رہا تھا، بڑھ گیا۔ جب کہ نادر کا چہرہ غصے سے ٹماٹر کی طرح لال ہو چکا تھا. کچھ تو پہلے ہی وہ اچھا صحت مند، اوپر سے گورا چٹا بھی تھا، تو غصے کی یہ سرخی اور نمایاں ہو کر رہ گئی تھی۔
اس دن سے تقریباً روزانہ ہی ان کی آپس میں بحث ہونے لگی۔ تب تک کسی کو علم نہیں تھا کہ نادر قادیانی ہے. لیکن ان کی آئے روز کے ایک دوسرے پر تیز و تند جملوں نے یہ راز افشا کر دیا۔ چونکہ ہم لوگ شاید ایمان کے اس تیسرے درجے پر ہیں جس میں کوئی غلط بات یا کوئی ظلم زیادتی ہوتے دیکھ کرزیادتی کو دل میں ہی برا بھلا کہہ کر خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنی راہ لے لیتے ہیں، تو ایسی ہی صورتحال اشتیاق کے دفتر میں بھی تھی۔ سوائے اشتیاق کے اور کوئی کچھ نہ بولا ۔ نہ ہی کسی نے نادر کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کی اور نہ اس سے اس حوالے سے کبھی کوئی بات کی. ایک اشتیاق تھا جو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سنت ِصدیق اکبر ؓ کی پیروی کر رہا تھا۔
**************
نادر اپنی سیٹ پر آکر بیٹھا اور اپنے غصے کو رام کیا۔ پھر موبائل سے کسی کو کال کی.
”محترم، نادر مغل بات کر رہا ہوں زون تھری اسلام آباد سے۔ جس شخص کے بارے میں سے بات کی تھی، لگتا ہے کوئی مسلہ کھڑا کرکے رہے گا۔ اس کے بارے میں کچھ فیصلہ صادر فرمائیے۔“ نادر نے گویا عزت و تکریم کی ساری حدیں پار کر دیں، اس کا لہجہ اتنا مو¿دب تھا جیسے کوئی غلام بادشاہ کے سامنے ہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑا ہو۔
دوسری طرف سے جو بھی جواب دیا گیا اس سے نادر کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی۔
”جو حکم محترم“۔ یہ کہہ کر نادر نے سلام کیا اور کال ختم کر دی۔
اگلے دن گیارہ بجے کے لگ بھگ اشتیاق کو ادارے کے ڈائریکٹر نے اپنے دفتر میں بلایا۔ جب اشتیاق اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ان کے ساتھ ایچ آر اور ایڈمن سیکشنز کے سربراہ بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔
”مسٹراشراق! یہ آپ آفس میں لوگوں کو دھمکیاں دیتے پھرتے ہیں کہ آپ انھیں چھوڑیں گے نہیں۔ انھیں جان سے مروا دیں گے۔ آپ کیا ہیں؟ کوئی منسٹر، ایم این اے یا کوئی غنڈہ؟“ ڈائریکٹر نے اشتیاق کے اندر داخل ہوتے ہی اس پر چڑھائی کر دی۔
”سر! میری اتنی مجال کہاں کہ ایسا کسی سے بھی کچھ کہوں۔ “ اشتیاق نے ٹھنڈے لہجے میں جواب دیا۔
”نہیں نہیں۔ آپ کی تو بہت مجال ہے۔ آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ لوگوں کو لات مار کر باہر نکالیں گے۔ “ ڈائیریکٹر صاحب ہنوز ہتھے سے اکھڑے ہوئے نظر آرہے تھے۔
اشتیاق کو اس جملے سے ساری بات سمجھ آگئی۔ اس نے جان لیا کہ نادر نے اپنے ذرائع استعمال کیے ہیں۔ لیکن وہ بھی کسی کا نام لیوا تھا۔ کسی خاص پر درود و سلام بھیجا کرتا تھا۔ اور انہی کا نام بلند کرتا تھا۔ تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ان کا مالک اپنے محبوب کے غلام کی توہین ہونے دیتا۔
”سر، فیصلہ کرنے کا اختیار مجھے کہاں۔میں ایک اسسٹنٹ ہوں آفس میں نہ کہ کوئی بڑا آفیسر۔“ اشتیاق مکمل پرسکون تھا۔
لیکن کیا یہ پوچھنے کی گستاخی کر سکتا ہوں کہ ہوا کیا ہے؟ “ اشتیاق نے بات جاری رکھتے ہوئے سوال کیا۔
ڈائریکٹر نے ایڈمن ہیڈ کی طرف دیکھا. ایڈمن ہیڈ نے اپنے سامنے رکھی فائل میں سے ایک صفحے پر نظر ڈالتے ہوئے کہا :
”نادر مغل نے درخواست دی ہے بلکہ شکایت کی ہے کہ آپ نے اسے جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔“
” میں بھلا اسے کوئی بھی دھمکی کیوں دوں گا؟“ اشتیاق نے سوالیہ لہجے میں کہا۔
”اس نے وجہ بھی لکھی ہے کہ اس نے آپ کو کسی کام کا کہا تھا جس پر آپ نے انکار کیا۔جب اس نے اصرار کیا تو آپ نے غصے میں اسے جواب دیا۔ پھر یہ باتوں کی لڑائی بڑھتے بڑھتے اس نہج تک پہنچ گئی کہ آپ نے اسے جان سے مارنے کی دھمکی دے ڈالی۔“
”نہیں سر. وہ غلط بیانی کر رہا ہے۔“ اشتیاق نے جواب دیا۔ ابھی مزید آگے بھی کچھ کہنا چاہ رہا تھا کہ ڈائریکٹر ہاتھ کے اشارے سے روکا۔
”کر رہا ہے۔ وہ آپ سے سینئر ہے، بھلے عمر میں چھوٹا ہو گا۔ تو سینئر کی عزت کی جاتی ہے۔“ انھوں نے اسے گویا تنبیہ کی۔
”سر، عزت اس کی کی جاتی ہے جو اس قابل ہو۔ جو میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو سمجھانے کے باوجود برا بھلا کہے، اور اوپر سے ایک جھوٹے نبی کا پیرو کار بھی ہو، وہ ہر گز کسی بھی عزت و احترام کے قابل نہیں۔اور اس وقت تو بالکل بھی نہیں جب و بہتان طرازی بھی کرے۔“ اشتیاق نے ٹھہرے لیکن مستحکم لہجے میں جواب دیا۔
” اب آپ فیصلہ کریں گے کہ قابل عزت کون ہے جب کہ اللہ جسے چاہے عزت دے۔“ ایچ آر ہیڈ غصے سے بولا۔
”جی میں کون ہوتا ہوں، آپ نے صحیح کہا۔ اگر میں آپ کے والدین کو گالی دوں تو؟ “ اشتیاق نے جواب دیا. اس کا لہجہ پرسکون تھا۔ اس کے چہرے پر کوئی پریشانی نہیں تھی بلکہ وہ دل میں خوشی محسوس کر رہا تھا کہ اللہ نے اسے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تکریم کے دفاع کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس پر وہ جتنا بھی شکر ادا کرتا، کم تھا۔
”تم گالی دے کر تو دیکھو، تمھاری تو۔۔” ایچ آر ہیڈ غصے سے کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
” بس جناب! اتنی سی تو بات ہے۔ ابھی تو میں نے گالی دی ہی نہیں، صرف پوچھا تھا اور آپ جو مجھے عزت دے رہے تھے، سب ہوا ہو گئی۔ تو سوچیں جو میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی کرے گا، میں اس کی عزت کیسے کر سکتا ہوں۔ “ اشتیاق اشراق نے دھوبی پٹڑا ڈالتے ہوئے ایچ آر ہیڈ کو چاروں شانے چت کیا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ یہ بتائیں کہ آپ نے نادر مغل صاحب کو دھمکی کیوں دی؟“ ڈائریکٹر نے سوال کیا۔
اشتیاق نے جواب دینے کی بجائے جیب سے موبائل نکالا.
”مسٹر اشراق!۔۔ ” ڈائریکٹر نے اسے جواب کی بجائے موبائل نکالتے دیکھا توغصے سے اسے پکارا۔
” سر۔ یہ سن لیں اور فیصلہ کریں کہ دھمکی کس نے کس کو دی ہے؟“ اشراق نے ایک آڈیو ریکارڈنگ آن کرتے ہوئے کہا اور موبائل ان کے سامنے رکھ دیا۔
یہ اس بحث کی آخری تین منٹ ریکارڈنگ تھی جو گذشتہ دن اشتیاق اور نادر کے درمیان ہوئی تھی۔ اشتیاق نے اتفاقاً اخری منٹس کی ریکارڈنگ کی تھی۔ شاید یہ خدا کی طرف سے اس کی مدد تھی۔تینوں افسران نے وہ ریکارڈنگ سنی۔ پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
”آپ باہر بیٹھیں، آپ کو بلاتے ہیں“۔ ڈائریکٹر نے اشتیاق کو موبائل اٹھانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا.
”جی سر“۔ اشتیاق نے کہا اور سلام کرکے باہر نکل آیا۔
اس کے دل میں ذرا بھی خوف نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ حق پر ہے۔ اور یہاں تو تن من دھن سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان بھی کر دیں تو بھی کم ہے۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔
ایک منٹ ہی گزرا تھا کہ اس نے نادر کو ڈائریکٹر کے کمرے میں جاتے دیکھا۔ وہ مسکرا دیا۔
پانچ منٹ کے بعد اشتیاق کو بلایا گیا. ناصر کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جب کہ اشتیاق سے کھڑے کھڑے ہی سارے سوالات کیے گئے تھے.
”مسٹراشتیاق ! آپ آئندہ نادر سے کوئی بحث نہیں کریں گے اور اپنی غلطی کی اس سے معافی مانگیں۔“ ایڈمن ہیڈ نے اشتیاق سے مخاطب ہو کر کہا۔
”ہرگز نہیں سر۔ پہلی بات غلطی میری نہیں۔ دوسری بات یہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ ہے، ایک جھوٹے نبی کا پیرو کار ہے۔ اس سے معافی مانگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“ اشتیاق نے ٹھہرے ہوئے لیکن مضبوط لہجے میں جواب دیا۔
”تو آپ کیا کریں گے، اس کو ماریں گے؟ “ ایچ آر ہیڈ غصے سے بولا۔
” اس کو تو نہیں، لیکن اس کے جھوٹے نبی جیسوں کو۔ کاش وہ اِس وقت ہوتا اور یہ دعویٰ کرتا۔“ اشتیاق کی آنکھوں سے شرارے نکل رہے تھے۔
”سر! عطاءاللہ شاہ بخاری کا واقعہ سن لیجیے۔“ اشتیاق نے ان کے مزید کچھ بولنے سے پہلے کہا.
”جسٹس منیر کی عدالت میں قادیانیوں نے مقدمہ دائر کیا تھا۔ واقعہ طویل ہے. اختتامی بات چیت یوں ہوئی تھی:
جسٹس منیر: (بدتمیزی کے اندازمیں) آپ نے مرزا قادیانی کو کافر کہا ہے؟
امیر شریعت: میں اس سوال کا آرزو مند تھا۔ کوئی بیس برس ا±دھرکی بات ہے، یہی عدالت تھی۔جہاں آپ بیٹھے ہیں،یہاں انگریزچیف جسٹس، مسٹر جسٹس ڈگلس ینگ تھے اورجہاں مسٹر کیانی بیٹھے ہیں،یہاں رائے بہادر جسٹس رام لال تھے۔ یہی سوال انھوں نے مجھ سے پوچھا تھا۔ وہی جواب آج دہراتا ہوں کہ میں نے ایک بار نہیں ہزاروں مرتبہ،مرزاکو کافر کہا ہے،کافر کہتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں گا،کافر کہتا رہوں گا۔یہ میراایمان اور عقیدہ ہے اوراِسی پر مرنا چاہتا ہوں۔مرزا قادیانی اور ا±س کی ذریت کافر و مرتد ہے۔ مسیلمہ کذاب اور ایسے ہی دیگر جھوٹوں کو دعوی¿ نبوت کے جرم میں ہی قتل کیا گیاتھا۔
جسٹس منیر: (غصے سے بے قابو ہو کر، دانت پیستے ہوئے) اگر غلام احمد قادیانی آپ کے سامنے یہ دعویٰ کرتا تو کیاآپ اسے قتل کر دیتے؟
امیر شریعت:میرے سامنے اب کوئی دعویٰ کر کے دیکھ لے!
حاضرین عدالت: نعرہ تکبیر: اللہ اکبر، ختم نبوت:زندہ باد، مرزائیت:مردہ باد۔کمرہ¿ عدالت لرزگیا۔
(جسٹس منیربوکھلا کر) توہین عدالت!
(امیر شریعت جلال میں آکر) توہین رسالت۔۔۔۔۔
تو سر؟ نادر سے کہیے کہ ایک تو دفتر میں اپنے جھوٹے نبی کی جھوٹی، لغو اور باطل تعلیم کی تبلیغ بند کر دے ورنہ میں تو ابھی بھی برداشت کر جاتا ہوں۔ لیکن کسی کا سچے مومن کا سر گھوم گیا تو اس کا سر واقعی گردن پر نہیں رہے گا۔دوسرا آپ سب نے بھی کل روزِ محشر حوض کوثر تک جانا ہے۔ باقی اس کا پانی آپ کے نصیب میں ہو گا یا نہیں، اللہ بہتر جانتا ہے. السلام علیکم۔“
اپنی آواز حق کے ساتھ بلند کرکے اور اپنا پیغام دے کر وہ کمرے سے نکل گیا۔ جب کہ تینوں افسران دم بخود دانتوں میں گویا انگلیاں دبائے بیٹھے تھے. چند سیکنڈز کے بعد انھوں نے نادر کو باہر جانے کا کہا۔
اس کے باہر جانے کے بعد ان تینوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو دیکھ کر گویا ایک فیصلہ کر دیا۔ ڈائیریکٹر نے اپنے پی اے کو بلا کر نادر کے لیے ایک وارننگ لیٹر لکھوایا۔ اس پر دستخط کرکے اسی وقت اس کو وصول کرایااور اسے اپنے جھوٹے مذہب کو اپنے تک ہی محدود رکھنے کا حکم دیا۔وہ قانون کے ہاتھوں مجبور تھے۔ یہی کر سکتے تھے۔

(ختم شد)