Buy website traffic cheap

خود کو ضد

خود کو ضد ہےنئے خدا بنانے کی، جنوں کو ضد ہے حد سے گزر جانے کی

خود کو ضد ہےنئے خدا بنانے کی، جنوں کو ضد ہے حد سے گزر جانے کی
زبیر حسن شیخ

جب جب انسان نے عقل سلیم سے کام لے کر غور و فکر کیا ہے تب تب خالق کائنات کے وجود کا اقرار کیا ہے …اور پھر اپنے افکار کے نکتۂ عروج پر پہنچ کر یا تو وحدانیت اور ایمان بالغیب پر اکتفا کرلیا، یا پھر خرد کی بے کلی میں مبتلا ہوا اور نئے نئے خدا بنا لئے، یا جنوں کے سفر پر بغیر زاد راہ کے نکل گیا اور یہ ضد اختیار کر لی کہ اب حد سے گزر جانا ہے….اول الذکر انسانوں میں وہ تمام حضرات شامل ہیں جنہوں نے اپنی ذہنی حدود ( فریم آف مائینڈ) کو وحدانیت و توحید کے حصار میں رکھ کر یوں افکار کی پرورش کی کہ چاہے علوم و افکار و وجدان و عرفان میں جس قدر ترقی اور وسعت ہوتی ہو لیکن وہ اس حصار سے باہر نہ جا سکیں…. اور پھر یہی حضرات اولی الالباب، علمائے کرام، فقہائے کرام، اولیائے کرام اور اولی الامر کے کردار میں عالم اسلام میں رونما ہوئے اور انسانی تہذیبی اور ذہنی ارتقا میں کارہائے نمایاں انجام دئے…ایک وہ بھی ہوئے جو کسی مرحلہ درمیان میں پھنسے رہے اور خرد کی ضد اور بے کلی کا شکار رہے اور خود کو اتنا کمتر بنا لیا کہ ہر ایک چیز کو خدا سمجھنے لگے… یا پھر کسی کو خدا کا ساتھی بنا لیا یا رشتہ دار، ان میں اکثر مادیت پرستی کا شکار رہے اور مذہب کو تجارت اور تجارت کو مذہب بناتے رہے، قوت و طاقت و دولت کو خدا بناتے رہے….. اور اسی طرز فکر نے دنیا میں دو عالمی جنگوں کو جنم دیا….انتہا پسندی اور دہشت گردی کو قوم پرستی کا نام دیا… عسکری انتقام کے نام پر شہر کے شہر اور نسلیں تک نیست و نابود کردی… اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوا بلکہ مختلف انداز سے جاری رہا، اور آج بھی جاری ہے….. ان میں جہاں سیاسی خدائی کے دعویدار شامل ہیں تو بے شمار دہریے، علوم و فنون کے ماہر جو منطق سے جب چاہیں ایک خدا کو تین بنا کر دکھا دیں یا انسان کو جانور اور جانور کو انسان ثابت کردیں …ان کے علاوہ وہ جو خرد سے آگے جنوں کے سفر پر روانہ ہوئے اور اپنے ساتھ ایمان بالغیب اور وحدانیت کا زاد راہ نہ لے جاسکے، ان میں بہت کم واپس لوٹے اور گمان کی وادی میں بھٹکتے رہے…. اور پھر ان میں خدا بننے کی ضد بھی سمانے لگی… بابا بھگوان جیسے جو پہاڑوں سے اترکر دھیان گیان حاصل کر ، اپنی ہیت تبدیل کر سماج میں آتے اور کسی پالتو جانور کا گوشت توحرام قرار دیتے اور مرے ہوئے انسان کا گوشت چتا سے نکال کر کھانے کو جائز سمجھ لیتے…ان میں وہ عامل باوا مجذوب بھی شامل ہیں جو کبھی خدا بن جانے کا نعرہ بلند کرتے …..کسی جاہل کو پھونک مار کر دھویں میں غائب کردیتے تو کبھی خود غائب ہوجاتے… کبھی اپنی پھونکوں اور آئیں بائیں شائیں سے رزق سے لے کر اولاد تک سب کے انتظام کرنے کا دعوے کرتے.. ان میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے الله رسول کی اطاعت کو درکنار کر اہل ایمان کو اپنی اطاعت پر مجبور کیا اور اپنے نفس کی پکار پر قرآن و حدیث کے احکامات سے سمجھوتے کئے، کبھی کسی نے اقتدار کو خود مختار سمجھ لیا، کبھی کسی نے منصب اولی الامر کو تو کبھی کسی نے دینی مراتب کو مذہبی پیشوائی سمجھ لی…. تو کسی نے حسب و نسب اور موروثیت کو….اور کوئی وطن پرستی میں تلوار اٹھا کر جہاد و قتال کا نعرہ بلند کرنے لگا..چند ایسے بھی ہوئے جو جنوں کو خرد خیال کر علامتوں اور اسباب کو خدا کا ہم مرتبہ بنا بیٹھے…. سفر کو منزل اور ذرائع کو ہدف سمجھ بیٹھے اور اس طرح توحید و وحدانیت کے اصولوں میں دراڑ پیدا کربیٹھے…..غیر اسلامی عقائد میں انسان نے جہاں جلی شرک اختیار کیا وہاں مسلمان نے شرک خفی اختیار کیا، اور وہ بھی کچھ ایسے کہ اسے سب سے اور خود سے بھی اخفا رکھا….. چند ایسے بھی ہوئے ہیں جوجانے انجانے جمال و کمال کے ایسے دعوے کرنے لگے جو صرف خدا کی ذات کو زیبا تھے….

پچھلے چودہ پندرہ سو سالہ انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ یقین مستحکم ہوجاتا ہے کہ دین اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین و مذہب ‘ماڈرن ازم” یا جدت کے مد مقابل کھڑا نظر نہیں آتا… اور اسکی بنیادی وجہ ایمان با لغیب اور توحید کے وہ اصول ہیں جسکے آگے سائینس، منطق و ریاضی کے سارے اصول خموش ہوجاتے ہیں… جبکہ دنیا کے دیگر تمام مذاہب انہیں اصولوں کا سامنا نہیں کرپاتے… بلکہ کسی دین و مذہب میں سائینس و منطق کو للکارنے کی ہمت ہی نہیں دیکھی گئی، اور نہ ہی وہ دعوے کئے جو اسلام نے کئے اور جو سچ بھی ثابت کر بتائے…..دنیا کے تمام قدیم و وجدید ادیان و مذاہب اسلام کے مقابل آج بھی غیر مکمل اور انسانی تہذیبی و ذہنی ارتقا کے سامنے لڑکھڑاتے نظر آتے ہیں، منطقی، سائینسی، معاشرتی، اخلاقی، سیاسی ہر ایک نقطہ نظر سے…. آسمانی صحائف و علوم کے علاوہ انسانی علوم اور تحقیقات سے بھی اسکے پختہ ثبوت دئے جاسکتے ہیں کہ مذہب اسلام کے مقابل سب سے قدیم مذہب شرک ہی رہا ہے گرچہ اسکی مختلف شکلیں اور نام ہوئے ہیں اور جو خود بھی اسلام کے عقیدہ توحید کی مخالفت میں وجود میں آیا ہے، اور اسکا ازل سے وجود میں آنا غیر منطقی ہے….. بطور ایک نظام حیات صرف نظام جمہوریت ہی اسلام کے مقابل آیا ہے جس کی عمر ایک صدی سے زیادہ نہیں ہے اور جس میں خود اسلام کے مختلف اصول و ضوابط کو اخذ کیا گیا ہے اور جس کا ثبوت صرف مغربی کتب خانوں میں ہی موجود نہیں ہے بلکہ جمہوریت کی جا ئے پیدائش امریکہ کی عدالت عالیہ کی دیواروں پر بھی کنندہ ہیں ….اسلام کے ازلی اورقدیم ترین دین و مذہب یا نظام حیات ہونے کے پختہ ثبوت موجود ہیں… حضرت آدم کے بعد معلوم انسانی تاریخ جورقم ہوئی ہے اور جو تحقیقات و شواہد حضرت نوح اور کشتئ نوح سے ثابت ہیں وہ اسلام کے اول دین و مذہب ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں، اور جس سے دنیا کا کوئی بھی تعلیم یافتہ انسان انکار نہیں کرسکتا…. ہوسکتا ہے وہ حضرت نوح کے دین و مذہب کودین فطرت کا نام دے لیکن نہ عیسائیت کا نام دے سکتا ہے اور نہ ہی یہودیت کا…… اور نہ ہی وہ تاریخی و تحقیقی حقائق اور ثبوت مٹائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ان سے یہ کہہ کر انکار کیا جاسکتا ہے کہ یہ دیومالائی کہانیوں کا حصہ ہیں، یا یہ وہ افکارت ہیں جنکا ثابت کرنا غیرممکن ہے….اس پس منظر میں دین اسلام کے ازلی دین ہونے پر یقین کامل ہوجاتا ہے… بلکہ غور کرنے پر یہ ایک معجزہ نظر آتا ہے کہ تقریبا پچھلے دیڑھ ہزار سالہ دور میں ہر مقام پر دین اسلام تہذیبی ارتقا کے مقابل جدید ترین دین ثابت ہوتا رہا ہے….اور اسکی یہ شان تمام ترجامع صفات اور جمال و کمال کے علاوہ ہے جو آسمانی صحائف کے ساتھ ساتھ دنیائے علوم و فنون سے بھی ثابت ہے… بلکہ روز بروز ثابت ہورہی ہے….اسکی بے شمار وجوہات ہیں جن میں بنیادی وجہ ‘وحدانیت’ یا توحید ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہنے کی نشاندہی کرتی ہے… پچھلی چودہ پندرہ صدیوں میں کو ئی بھی ایسا ایک مذہب وجود میں نہیں آیا ہے جسے فی الحقیقت نیا کہا جاسکے، اور جو بھی مذہب وجود میں آیا ہے وہ شرک کا ہی ایک نیا روپ ہے اور صرف نئے نئے ناموں سے پکارا جاتا ہے… بلکہ مذہب شرک خود بھی مذہب اسلام کے توحیدی عقائد کی ضد اور مخالفت سے وجود میں آیا ہے … اس کے علاوہ پچھلی چند صدی میں جو بھی نظام حیات متعارف کیے گئے ہیں ان میں بھی اکثر اصول و ضوابط اسلامی نظام حیات یا دین اسلام سے ہی اخذ کئے گئے ہیں…..

حکمت کا جوہر وحدانیت میں پوشیدہ ہے اور وحدانیت کا صرف دعویدار دین فطرت ہی رہا ہے، اور ازل سے رہا ہے… گرچہ تاریخی شواہد یہ بتاتے ہیں کہ اکثر دین فطرت کے پیروکاروں کو اسی اصول میں رد و بدل کرتے دیکھا گیا ہے اور مختلف قسم کے عقائد کو شامل کر شرک کرتے دیکھا گیا اور دین اسلام کو نیا نام دیتے دیکھا گیا ہے…. پھردین فطرت سے خارج بھی ہوتے دیکھا گیا ہے…. اور خالق حقیقی کو اسی پر ملامت کرتے ہوئے دیکھا گیا…. اور بار بار پیغمبروں کے ہاتھوں انحطاط پذیر انسانی ذہنوں کو وحدانیت کے نور سے جلا بخشتے بھی دیکھا گیا ہے…. اسلئے دنیا کے اکثر و بیشتر مذاہب کی کتابوں میں لاکھ رد و بدل کے باوجود وحدانیت کا سبق کہیں نہ کہیں ضرورپایا جاتا ہے… اور اس نکتہ سے بھی وحدانیت میں پوشیدہ حکمت کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے…. خالق حقیقی نے حضرت نوح سے حضرت عیسی تک جتنے بھی انبیائے کرام مبعوث فرمائے ہیں وہ انسانی ذہنی و تہذیبی ارتقائی درجات کی مناسبت سے کلمہ حق پیش کرتے رہے ہیں، اور مثبت طرز بیان اختیار کر وحدانیت و توحید کا پیغام دیتے رہے کہ…. خالق حقیقی ایک ہے اور اس کا کوئی ثانی نہیں ہے یا اسکی طرح کوئی نہیں ہے، ازل سے تھا اور ابد تک ہے….. لیکن پھرخالق حقیقی نے تقریبا دیڑھ صدی قبل دین اسلام کو کمال عطا کر نہ یہ کہ صرف اس طرز بیان کا اعادہ کیا بلکہ پہلے تمام جھوٹے خداؤں کی نفی کی جو پچھلی ہزاروں برس کی تہذیبی ارتقا اور ذہنی انحطاط سے مسلسل وجود میں آرہے تھے، جن میں دیکھے ان دیکھے موجود اور غیر موجود انسانوں سے لیکر آبا و اجداد و اہل اقتدار اور مذہبی پیشوا تک ، اور نیک بندوں سے لیکر انبیا تک سب کو شامل کر خدا بنا لیا گیا تھا….اس لئے خالق حقیقی نے دین فطرت کی تکمیل پر ضرب آخر ثبت کردی اور آخری کتاب اور آخری نبی سے دین فطرت کو جمال و کمال عطا کر دیا…دین اسلام کو خالص کر حق کو تمام ممکنہ ابطال سے ممیز کردیا… سارے خداوں کا انکار کردیا کہ انسانی ذہنی ارتقا اب اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ اس کے بعد اس ارتقا ئی سفر میں شرک کا کوئی عذر باقی نہیں رہتا اور نہ ہی مستقبل میں کبھی انسان کو تہذیبی ارتقائی کشمکش میں خدا کے وجود سے انکار کرنے کا کوئی عذر درپیش ہونا چاہیے…. خالق حققیقی کو بے شک اپنی اس بے حد عزیز مخلوق میں پائے جانے والی تمام کجی کا علم بھی تھا اس لئے تکملہ انسانیت کو کمال و جمال سے منور کر آنحضرت کی ذات مبارکہ میں پیش کیا اور آنے والی انسانی نسلوں کے لئے نظام حیات کا ایک کامیاب “پروٹو ٹائپ” بھی اصحابہ کرام کے توسط سے پیش کردکھایا…شر و خیر کے تمام پہلو واضح کردئے.. اہل ایمان کے لئے بھی اور اغیار کے لئے بھی….لیکن دونوں اپنی اپنی کجی میں آج بھی مبتلا ہیں…. انسان میں کجی کے جتنے بھی محرکات ہیں ان میں جنوں و خرد دونوں کا اہم کردار رہا ہے…. جب ان دونوں میں توازن ختم ہو جاتا ہے تو افکار میں کجی پنپنے لگتی ہے ….اور یہ تب ہی ہوتا ہے جب ذہنی حدود کو توحید کے حصار میں نہیں رکھا جاتا….اور یہی وجہ ہے کہ عقلمند اور مہذب ترین قوموں اور گروہ کو فتنہ و شر میں مبتلا ہوتے دیکھا جاتا ہے اور پھر اس سے نہ ہی اغیار بچ پاتے ہیں اور نہ ہی اہل ایمان……