Buy website traffic cheap

کالم لوہار

عمران خان،سرکاری افسران اور اشوک

عمران خان،سرکاری افسران اور اشوک
قند شیریں
مراد علی شاہدؔ دوحہ قطر
اشوک یااشوکا جسے تاریخ اشوک دی گریٹ کے نام سے یاد کرتی ہے۔برصغیر میں موریہ سلطنت کے بانی چندر گپت موریہ کا نبیرہ یا پسر زادہ تھا۔اشوک نے 263 قبل از مسیح سے 232 قبل از مسیح تک حکمرانی کی اور اپنے دور کی سب سے بڑی سلطنت کے وجود کو ممکن بنایا۔اشوک کی فوج کا آخری معرکہ کلنگہ جس کا اب نام اڑیسہ ہے،اس کی آخری فتح تھی۔بلاشبہ اپنے دور کا سب سے بڑا معرکہ اور فتح ،کہ جس میں ایک لاکھ مخالف فوج کے سپاہی جنگ کی نذر ہوئے اور ایک لاکھ پچاس ہزار کے قریب ملک بدر ہوئے۔جب جنگ ختم ہوتی ہے تو اشوک دی گریٹ میدان کار زار کا معائنہ کرنے جاتا ہے ،ہر سو کٹی لاشیں،تعفن زدہ ماحول اور نیم مردہ انسانوں کی آہ و بکاہ اور سسکیاں سن کر رنجیدہ ہو جاتا ہے اور اس موقع پر ایک تاریخ ساز فیصلہ کرتا ہوئے کہتا ہے کہ’’آج کے بعد میری کوئی فوج نہیں ہو گی اور کوئی جنگ نہیں ہو گی‘‘پاس کھڑے وزراٗ اور مشیران کی ایک فوج انگشتِ بدنداں ہوتے ہوئے کہتی ہے۔کہ مہاراج فوج نہیں ہو گی تو ہم ملک کا دفاع کیسے کریں گے۔اشوک نے یہاں ایک تاریخ ساز جملہ بیان کر کے سب خوشامدیوں کے منہ بند کر دئے۔’’پہلے میرے پاس چار لاکھ فوج تھی آج کے بعد چالیس لاکھ فوج(یعنی عوام)اپنے ملک کا دفاع کرے گی‘‘
یہ پورا واقعہ دراصل مجھے عمران خان کے سرکاری افسران کو خطاب کرنے کے دوران یاد آیا کہ جب وہ کہہ رہے تھے کہ’’قوم اور ملک ایک ہوں تو پھر چھ لاکھ فوج کے لئے بیس کروڑ فوج بن جاتی ہے‘‘قابل اور عظیم راہنما کی پہچان بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ قوم کے اندر اجتماعی سوچ اور ملک کی خاطر لڑنے مرنے کا شعور و جذبہ بیدار کر دیتا ہے۔وزیر اعظم کی تقریر کے بقیہ اہم نکات بھی کسی منجھے ہوئے ،کہنہ مشق اور حب الوطنی سے سرشار ایک ایسے لیڈر کی اقوال محسوس ہو رہے تھے کہ جن سے اندازہ کرنا مشکل نہیں لگ رہا تھا کہ وہ واقعی قوم اور ملک کے لئے کچھ کرنا کا ارادہ اور عزم رکھتے ہیں۔ان کی تقریر کے اہم نکات اس طرح سے تھے کہ۔
کوئی چیز دنیا میں ناممکن نہیں،کوئی بھی بڑا کام کرنے سے پہلے خود کو بدلنا ہو گا،پاکستان قرضوں پر یومیہ 6 ارب بطور سود ادا کر رہا ہے،انگریز غلاموں پر حکمرانی کرتا تھا جبکہ ان کے ملک میں الگ نظام تھا،پاکستان کا قرضہ تیس ہزار ارب ہے،43 فیصد بچوں کی نشو و نما بہتر نہیں ہو رہی ہے،اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں،آٹھ لاکھ بچے انگریزی میڈیم میں جبکہ سوا تین کروڑ بچے اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں،ہمار ایلیٹ کی سوچ وہی ہے جو انگریز کی تھی،پالیسی کا اطلاق آپ نے کرنا ہے،اور یہ سب جواب دہی کے بغیر ممکن نہیں ہے،سارا مسئلہ کرپشن کا ہے،اس کرپشن کی وجہ سے ادارے تباہ ہوتے ہیں،اور جن ملکوں میں ادارے تباہ ہوجاتے ہیں وہ ملک کبھی ترقی نہیں کر پاتے،کرپشن تیسری دنیا کا اہم مسئلہ ہے،یہ تبدیلی تب آئے گی جب آپ(سرکاری افسران)کی سوچ میں تبدیلی آئے گی،اور وزیر اعظم ایک روپیہ بھی خرچ کرتے ہوئے سوچے گا کہ کیا مجھے اس کی ضرورت ہے؟اور سب سے اہم بات کہ آپ کی ہمدردی او ر تعلق کسی بھی جماعت سے ہو،آپ چاہے تحریک انصاف کو پسند کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے مجھے صرف اس سے واسطہ ہے کہ آپ کی کارکردگی میرے ملک کے لئے ہو،اس کے لئے میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں،میری طرف سے کسی قسم کی کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہو گی۔یہ وہ تمام باتیں تھیں جو کہ وزیر اعظم پاکستان نے سرکاری افسران سے خطاب فرماتے ہوئے کہیں۔اب قوم کے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟چوراہے میں کھڑا پولیس افسررشوت لینا اپنا حق خیال کرے،ہسپتال میں کام کرنے والا ڈاکٹر ہسپتال کی بجائے پرائیویٹ کلینک میں بیٹھ کر مریض دیکھنے کو ترجیح دے،ٹھیکے دار بغیر کمشن کے ٹھیکہ حاصل کرنے میں ناکام ہو،ایک انجینئر اپنی ڈیوٹی سے غفلت برتے،سرکاری اداروں میں کام کرنے والے اپنے فرائض پورے نہ کریں،ملک کے سیاستدان اپنے اختیارات کا نا جائز استعمال کریں یا اقربا پروری سے کام لے رہے ہوں، تو ایمانداری سے بتائیں کہ وہاں وزیر اعظم اکیلا کیا کر لے گا۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں بھی اپنے اپنے اعمال کا حصہ اس ملک کی بہتری اور ترقی میں ڈالنا ہے۔اور اپنے کردار و عمل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم بائیس کروڑ عوام اس ملک کی فوج ہیں ،اس ملک کے رکھوالے ہیں،اس ملک کے پاسبان ہیں ،میرے ملک کا ایک ایک فرد اشوک اعظم ہے۔