Buy website traffic cheap


ماہی گیری کی نئی پالیسی کے نفاذ سے سی فوڈ ایکسپورٹ میں 75 فیصد کمی کا خدشہ

لاہور(ویب ڈیسک): اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر راتوں رات گہرے پانی میں ماہی گیری کی نئی پالیسی کے نفاذ سے پاکستان کی سی فوڈ ایکسپورٹ میں 75فیصد کمی کا خطرہ کھڑا ہوگیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق گہرے پانی میں ماہی گیری کے لیے نئی پالیسی کے تحت پاکستانی ماہی گیروں کے 20ناٹیکل مائلز سے باہر جانے پر پابندی ہوگی۔ پاکستان کے 80فیصد ماہی گیر اسی علاقے سے مچھلی اور جھینگا پکڑتے ہیں جس میں سے 40فیصد مچھلیاں اور جھینگے بیرون ملک ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں۔نئی پالیسی کے نفاذ کے بعد سے ماہی گیروں نے گہرے سمندر کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے اورنتیجے میں سی فوڈ کی ایکسپورٹ میں 90فیصد تک کمی کا سامنا ہے۔پاکستان فشریز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اخلاق عابدی نے اس حوالے سے کہا کہ گزشتہ سال 40کروڑ ڈالر کی سمندری خوراک برآمد کی گئی تھی۔ پالیسی پر عمل درآمد کی ذمے داری میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے سپردکی گئی ہے جس نے پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والی ایک کشتی قبضے میں لے کر قانونی کارروائی شروع کردی ہے اور بوٹ کے ساتھ پکڑی گئی مچھلی اور جھینگے بھی قبضے میں لے لیے ہیں۔مناسب درجہ حرارت نہ ملنے کی وجہ سے مچھلی اور جھینگے ضائع ہونے کاخدشہ ہے۔ ماہی گیروں کی اکثریت ناخواندہ اور قوانین سے لاعلم ہے۔ نئی پالیسی کے تحت پاکستانی سمندری حدود کو3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔20سے 35ناٹیکل مائلز کی حدود کو زون تھری کا نام دیا گیا ہے جس کے لیے پاکستانی ماہی گیروں کو بھی غیرملکی ٹرالرز کی طرح لائسنس لینا ہوگا تاہم لائسنس کے لیے رجسٹریشن کرانے کی مدت بھی ختم ہوچکی ہے۔واضح رہے کہ پاکستان میں گہرے پانی میں ماہی گیری کے لیے 15000کے لگ بھگ ٹرالرز رجسٹرڈ ہیں تاہم ان میں سے صرف 4000ٹرالرز فعال ہیں۔