Buy website traffic cheap

پہلی

وہ جو عید پر بھی گھر نہیں جاتے

وہ جو عید پر بھی گھر نہیں جاتے
سید بدر سعید
ہم نے شاید یہ سوچ رکھا ہے کہ پولیس اہلکاروں پر نہ تو جماعت کے ساتھ نماز فرض ہے اور نہ ہی عید واجب ہے ۔ شاید ہی کوئی شہری ہو جس نے نماز ادا کرنے سے پہلے مساجد کے باہر تعینات پولیس اہلکاروں سے یہ پوچھا ہو کہ آپ نماز کب ادا کریں گے ؟ رمضان المبارک میں ہم ہر نماز سے پہلے انہیں مسجد کے باہر ڈیوٹی سر انجام دیتے دیکھتے ہیں اور پھر یہی اہلکار عید کے روز صبح سویرے پنڈال کے گرد مستعد کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نماز ہمیشہ اس وقت ادا کرتے ہیں جب نمازی اطمینان سے گھروں کی جانب روانہ ہو چکے ہوتے ہیں، اس نقطہ نظر سے اس میں دو رائے نہیں کہ ان پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی بھی عبادت بن جاتی ہے کیونکہ ان کی وجہ سے لاکھوں عبادت گزار اطمینان سے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماہ مقدس میں اللہ پاک نے صوبہ بھر میں نمازیوں کو شر پسندوں کے شر سے محفوظ رکھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دہشت گردی کے الرٹ کے باوجود کسی قسم کی کارروائی نہ ہونے کے پیچھے پنجاب پولیس کے ان اہلکاروں کی محنت اور فرض شناسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے دن رات شہریوں کی حفاظت کی ہے اور اب عید کو بھی اسی طرح محفوظ اور پرامن رکھنے کے لئے سٹریٹیجی تشکیل دے چکے ہیں ۔
ٍ عید وہ تہوار ہے جس پر بیرون ممالک ملازمت کرنے والے پاکستانی شہری بھی وطن لوٹ آتے ہیں اور اپنے خاندان اور بیوی بچوں کے درمیان عید کی خوشیاں مناتے ہیں ۔ دوسری جانب ہمارے ہی درمیان ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کی یہ عید بھی ہمیشہ کی طرح اپنے بیوی بچوں سے دور فرض ادا کرتے ہوئے گزرے گی ۔ عید کے روزجب ہم نماز عید کے لئے جائیں گے تو ہم سے بھی پہلے وہاں پولیس اہلکار پہنچ چکے ہوں گے ۔ یہ ان کی ہر سال کی پریکٹس ہے جسے یہ خاموشی سے ادا کرتے چلے جا رہے ہیں ۔ شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کے لئے اپنی خوشیاں تک قربان کر دینے والے ان پولیس اہلکاروں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ان کی تعریف کرنا تو دور کی بات ہے ہم عید کی نماز کے بعد ان سے گلے تک نہیں ملتے ۔ یہ وہی اہلکارہیں جنہوں نے پورا رمضان روزے کی حالت میں مساجد کے باہر ڈیوٹی ادا کی ہے ۔ نماز فجر سے لے کر تراوویح کے بعد تک ڈیوٹی پر موجود رہنے والے ان اہلکاروں کے لئے شاید اس معاشرے کے پاس ستائش کے دو جملے تک نہیں ہیں ۔خدا لگتی کہیں تو ہمیں اس سال بھی نہ تو ان پر کسی اخبار میں کوئی ایڈیشن نظر آیا اور نہ ہی ٹی وی چینلز نے ان پر پیکجز بنائے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ فرض شناس پولیس اہلکاروں کی تعریف کرنے سے ریٹنگ نہیں ملتی حالانکہ یہ تصور بالکل غلط ہے ۔ دنیا بھر میں فرض شناس پولیس اہلکاروں کی میڈیا نہ صرف کھلے دل سے تعریف کرتا ہے بلکہ یورپ میں شہریوں کی جانب سے ایسے تہواروں پر ان کے لئے باقاعدہ گلدستے اور کارڈزبھی بھجوائے جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک جان گئے ہیں کہ ایمانداری اور فرض شناسی کی جتنی تعریف کی جائے یہ اتنا ہی بڑھتی ہے اور جتنا انہیں نظر انداز کیا جائے اتنا ہی کم ہوتی ہے ۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے ایمانداری اور فرض شناسی کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا یہ تصورکر لیا گیا ہے کہ یہ تو ڈیوٹی کا حصہ ہے اس کی تعریف کیوں کی جائے ؟ حالانکہ تعریف ہمیشہ ڈیوٹی کو ہی درست انداز میں سر انجام دینے کی ہوتی ہے اور تنقید فرض کی ادائیگی میں سستی کا مظاہرہ کرنے والوں پر ہوتی ہے ۔
ایک صحافی کے طور پر ہمارا فرض ہے کہ ہم جہاں پولیس پر تنقید کرتے ہیں وہیں ان کی محنت ، قربانیوں اور صلاحیتوں کا اعتراف بھی کریں ۔ ہمیں عوام میں یہ شعور بھی پھیلانا ہو گا کہ فرض کی ادائیگی کے لئے طویل ڈیوٹیز کرنے والے پولیس اہلکار بھی ہماری طرح انسان ہیں اور موسمی اثرات اور جذبات ان کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ان کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے اورآنکھ میں پانی بہتا ہے ۔ عید کے دن جب یہ لوگوں کو اپنی فیملیز کے ساتھ خوشیاں مناتے اور گھومتے دیکھتے ہیں تو یقیناً انہیں بھی اپنی فیملی اور بچوں کا خیال آتا ہے اور دوسری جانب ان کی فیملیز اور بچوں کو بھی ان سے شکوے ہوتے ہوں گے کہ عید پر بھی یہ ان کے درمیان نہیں ہیں ۔ اس کے باوجود اگر یہ اہلکار فرض کو ذاتی جذبات اور احساسات پر حاوی رکھتے ہیں تو یہ قابل تعریف ہیں بالکل اسی طرح جس طرح کسی بھی محکمے یا کمپنی میں بہترین ڈیوٹی سر انجام دینے والوں کو قابل تعریف سمجھا جاتا ہے ۔ اگر ہم عیدکے دن نماز عید کے بعد وہاں موجود پولیس اہلکاروں کو بھی عید مل لیں یا کم از کم ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان کی تعریف ہی کردیں تو یقیناًگھر سے دوری کا احساس کم ہو سکتا ہے اور ان کی عید کا دن بھی اچھا گزر سکتا ہے ۔ عام طور پر عید کے اجتماع کے بعد یہ اہلکار وہیں کسی دکان سے ناشتہ کرتے نظر آتے ہیں لیکن اگر اہل دل چاہیں تو ایک اچھی روایت یہ بھی قائم ہو سکتی ہے کہ عید کی نماز کے بعد اہل محلہ کی جانب سے اپنی مسجد یا گراؤنڈ میں نماز عید کی ڈیوٹی ادا کرنے والے ان مہمان اہلکاروں کو بھی شیر خرمہ بھجوایا جائے اور انہیں گھر سے دور ہونے کے باوجود گھر کی محبت کا احساس دلایا جائے ۔ عید محبتوں کو بانٹنے کا تہوار ہے ۔ یہ وہ تہوار ہے جب مسجد میں ساتھ بیٹھے اجنبی کو بھی گلے لگا کر عید کی مبارک باد دی جاتی ہے ۔ اس اسلامی تہوار کا بنیادی مقصد بھی معاشرے میں محبت اور خوشیوں کا پیغام پھیلانا ہے ۔ اس کے باوجود اگر ہم اپنے ہی ارد گرد موجود ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں کو اپنی خوشیوں میں شریک نہیں کرتے تو پھر ہمیں خود بھی سوچنا ہو گا کہ کیا ہم عید کا اصل پیغام سمجھنے میں کامیاب ہو سکے ہیں ؟ اگر ہم اس عید کے ساتھ ہی محبت اور خوشیوں بھرے یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات شروع کر دیں تو یقیناً بہت جلد پاکستان میں عید کا حقیقی چہرہ دمکنے لگے گا اور ہمیں ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں کے مسکراتے چہرے اور خوبصورت گفتگو میسر آنے لگے گی۔