Buy website traffic cheap

یہ آزاد مملکت خداداد پاکستان ہے؟؟ عبدالحنان

یہ آزاد مملکت خداداد پاکستان ہے؟؟ عبدالحنان

یہ آزاد مملکت خداداد پاکستان ہے؟؟
عبدالحنان

اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہر طرف ہلچل نظرآنا شروع ہوجاتی ہے، دل میں عجیب خوشی اور چہرے پُرمسرت نظر آتے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ اس ماہ سے ہمارا کوئی پُرانہ رشتہ ایسا بندھن ہو اورجس کی قدرتی کھینچ محسوس ہوتی ہے،ماہ اگست میں دی جانے والی قربانیاں وہ تاریخ کا حصہ ہیں جو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ایک واضع پیغام ہے کہ آزادیاں ایسے ہی نہیں ملتی بلکہ اس کے لیے قیمتیں چکانی پڑتی ہی قربانیاں دینی پڑتی ہیں عزتوں کا پامال کروانا پڑتا ہے، ماؤں بہنوں کی عزتوں کو بھائیوں بیٹوں باپوں کے سامنے تاڑ تاڑ کیا جاتا ہے،دودھ پیتے بچوں کو ان کی ماؤں کی چھاتیوں سے کھینچ کر نیزوں میں پرو دیا جاتا ہے،یہ کالم کا مقصد جذباتی باتوں کو تحریر کرنا نہیں بلکہ خود کا احتساب کرنا ہے،کہ آخر کونسی ایسی نوبت آن پہنچی تھی کہ جو مسلمانوں نے حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا لیکن اس کو حاصل کرکے اللہ کے ہاں اور دنیا میں سُرخرو ٹھہرے۔ تو قائرین آپ جانتے ہیں 14 اگست 1947ئئ تاریخ کا وہ عظیم دن ہے، جس دن اسلام اوراسلامی مملکت خداداد کی خاطر مسلمانوں نے ہجرت کی اور اس دوران وہ سب کچھ قربان کیا جو اپنے پاس تھا جو مال کی صورت میں تھا وہ جان کی صورت میں تھا یا وہ عزت کی شکل میں تھا سب کچھ قربان کرکے صرف ایک خطہ حاصل کیا جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ لاالہ اللہ محمد رسول اللہ تھی ہے اور تاقیامت یہی بنیاد رہے گی۔ اس کلمہ کی بنیاد کو 2 قومی نظریہ کہا جاتا ہے،اور یہی نظریہ اتنی قربانیوں کے بعد قیام پاکستان کی بنیاد بنا تھا۔اب یہاں میں نظریہ پاکستان کے حوالے سے بھی واضح کردوں کہ دو قومی نظریہ ہی نظریہ پاکستان ہے اور اس نظریے کی اساس اسلام اور صرف اسلام ہے۔، کیونکہ مجھے تاریخ کی کتابوں میں قائد اعظمؒ کی کہی ہوئی بات یاد آتی ہے کہ جس میں قائد اعظمؒ نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ ”وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے، جس پر اس ملت کی عمارت استوار ہے؟ اور وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے“؟پھر اس سوال کا جواب بھی قائد اعظمؒ نے خود ہی دیا تھا کہ ”وہ رشتہ، وہ چٹان اور وہ لنگر اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید ہے۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ہم میں زیادہ سے زیادہ وحدت پیدا ہوتی جائے گی۔ ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسولؒ اور ایک قوم“۔۔۔ قائد اعظمؒ نے یہ تقریر دسمبر 1943ء میں کراچی میں اس وقت فرمائی تھی، جب تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی۔ قائد اعظمؒ نے مسلمان قوم کی وحدت کی بنیاد قرآن اور رسولؐ پاکؐ کو قرار دیا۔ یہی وہ تصور ہے، یہی وہ نظریہ ہے جو پاکستان کی اساس تھا۔مملکتِ خدا داد پاکستان، مسلمانان برصغیر کی عظیم جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا۔ اگر میں یہاں وہ کہانی منظر نامہ بیان کروں تو شاید اخبار کے صفحے کم پڑجائیں لیکن وہ ایمانی جذبات سے لبریز دی گئی قربانیاں کم نہ ہوگی اس لیے میں بحثیت طالبعلم اپنی قوم کو اپنی قوم کے نوجوانوں کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں اور وہ پیغام میرا نہیں بلکہ قائداعظم محمد علی جناح کا ہے جب انہوں نے قیام پاکستان کے بعداکتوبر 1947ء میں پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کراچی میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:”پاکستان کا قیام جس کیلئے ہم گذشتہ اتنے سالوں سے مسلسل کوشش کر رہے تھے اب خدا کے فضل سے ایک حقیقت بن کر سامنے آچکا ہے، لیکن ہمارے لئے اس آزاد مملکت کا قیام ہی مقصود نہ تھا بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ تھا۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایسی مملکت مل جائے جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں اور جس میں ہم اپنی اسلامی روش اور ثقافت کے مطابق نشو و نما پا سکیں اور اسلام کے عدل عمرانی کے اصول پر آزادانہ طور پر عمل کر سکیں، حکمرانوں نے پاکستان کو اپنے باپ کہ جاگیر سمجھ کر اس بری طرح لوٹا کہ آج پوری قوم کاسہ گدائی لئے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف جیسے ظالم اداروں کے سامنے کھڑی ہے جو اپنی مرضی سے ہمارابجٹ بنواتے ہیں، ہم پر ٹیکس لگواتے ہیں۔ سرمایہ دار،جاگیر دار، سردار جیسیدرندے انسانی معاشرے کو اپنی بدترین ہوس کا نشانہ بنارہے ہیں۔ان کے سامنے کوئی بھی آذان بلالی دینے والا نہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک مرتبہ ملک کے سرمایہ داروں اور غاصبوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ”میں یہاں ان لینڈ لارڈوں اور سرمایہ داروں کو تنبیہ کرنا ضروری سمجھتاہوں جو اک ظالمانہ نظام کی پیداوار ہیں اور عوام کا استحصال کرتے ہوئے پھلتے پھولتے ہیں یہ لوگ اس حد تک خود غرض ہیں کہ وہ کسی کی دلیل سننے کو تیار نہیں، بخدا یہ صریحاً توہین ہے ان جذبوں کی جو قیام پاکستان کیلئے دی جانے والی قربانیوں کے پیچھے کار فرما تھے، یہ توہین ہے اس خون کی جو پاکستان کیلئے شہدا ء کے بدن سے بہا، یہ توہین ہے اُس نظریے کی جس کی بنیاد پر تحریک پاکستان چلائی گئی ہمیں آزادی انگریزوں نے نہ تو طشتری میں سجا کر بطو ر تحفہ دی تھی اور نہ ہی بخشش کے طور پر عنایت کی تھی بلکہ ہماری آزادی کی تاریخ بڑی طویل،صبر آزما اور عظیم جدوجہد سے عبارت ہے، آزادی کے73 سال کے بعد بھی ہمای قوم دوراہے پر کھڑی ہے،جو خود کو آزاد تو سمجھتی ہے مگر اپنی سوچ کی آزادی کی ڈور غیروں کے ہاتھوں میں دے کر آزاد قوم ہونے کے جشن مناتی ہے، یہ بات قا بل غور ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں مہارت رکھنے والے اعلیٰ ُ تعلیم یافتہ لوگ ذہنی معذور کہلانے کے قابل ہیں جو اپنے ضمیر کا سودا کر کہ کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں، جن کی نہ اپنی کوئی سوچ ہے نہ ہی زندگی کا کوئی مقصد ہے بھی تو اپنے پیرو کاروں کی حمایت میں قصیدے پڑھنا،دیکھا جائے تو کبھی ہم آزاد ہوئے ہی نہیں تھے،کبھی اپنے رسم ورواج کے ہاتھوں مجبور، کبھی رشوت کے لیے اپنے آپ کو غلام بناتے ہیں تو کبھی اپنی پسندیدہ شخصیت کی محبت میں غلط اور صحیح میں فرق کرنا بھول جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کسی نہ کسی سطح پرغلامی کی ہی زنجیروں میں ہی جکڑا ہوا ہے، کاش ہم آزاد ہو سکتے،اپنے حقوق کی جنگ خود لڑ سکتے مگر ممکن تو تب ہوتا ہے جب قومیں آزاد ہونا چاہیں،اپنے بلند خوابوں کو تکمیل دینا چاہیں، لیکن جہاں غلامی پسندیدہ مشغلہ ہو وہاں آزادی کیسے ممکن ہے، میں یہاں کسی کی دل آزاری نہیں چاہتا لیکن حقیقت بیان کر فرض سمجھتا ہوں گزشتہ 2 سالوں سے پاکستان کو اقوام متحدہ کی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے گرے لسٹ میں شامل کر رکھا ہے اور ہر آنے والے دن اس ادارہ کے مطالبات بڑھتے جارہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے انسداد منی لانڈرنگ کے ادارے کے اجلاس میں پاکستان کا نام دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس کے بعد پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیا گیاتھا۔جبکہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کروانے کا سب سے بڑا محرک انڈیا ہے،جو پاکستان کا وجود کسی طور برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور اس نے ہر موقع پرپاکستان کو نقصانات سے دوچارکرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو ایف اے ٹی ایف بظاہر منی لانڈرنگ روکنے کا ادارہ ہے اور اس کی مانیٹرنگ کرتا ہے لیکن اب تک اس کا سب سے بڑا مطالبہ یہی رہا ہے کہ جماعۃالدعوۃ اور اس کی قیادت کے خلاف کاروائی کی جائے۔کچھ عرصہ قبل جب حافظ محمد سعید اور جماعۃالدعوۃ کے بعض دیگر رہنماؤں کا کیس چل رہا تھاتو عدالتی فیصلہ سے قبل ہی ایف اے ٹی ایف کی طرف سے یہ مطالبہ میڈیا کی خبروں کی زینت بنا تھاکہ حافظ محمد سعید و دیگر کو سزائیں دینے کا اعلان کرنا چاہیے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کو کس نے اختیار دیا ہے کہ جب ایک کیس عدالت میں ہے تو وہ فیصلہ سے قبل ہی ڈکٹیشن دینا شروع کر دے؟کیا یہ ہمارے ملکی معاملات میں کھلی مداخلت نہیں ہے؟حقیقت ہے کہ یہ حکومت کی کمزوری ہے، اور صرف مطالبات پر مطالبات پر ماننے کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنے ہی محسنوں کا اپنے ہی محب وطن لوگوں کو پابند سلاسل کر رکھا ہے، کیا یہ وہی آزاد مملکت خداداد پاکستان ہے کہ جس کو سب زیادہ پیار کرنے والے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے والے اگر کوئی لوگ ہیں تو حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت ہے جنہوں نے ہر موقع پر نظریہ پاکستان کا اجاگر کیا جنہوں نے گلی گلی نگر نگر دفاع پاکستان اور نظریہ پاکستان کے لیے عوام میں شعور پیدا کیا مگر آج اپنے ہی محب وطنوں کو دسروں کے کہنے پر پابند سلاسل کر دیا جائے تو پھر ہمیں سوچنا ہوگا کہ واقعی ہم ابھی تک ذہنی طور پر آزاد نہیں ہوئے ہیں۔اسلام دشمن قوتوں کو علم ہے کہ پاکستان امت مسلمہ کی قیادت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اس لیے وہ مسلسل پاکستان کے خلاف سازش کرنے میں مصروف ہیں۔لیکن دشمن کسی ملک کی بزدل فوجوں کو تو شکست دے سکتا ہے مگر عوامی نظریات کبھی شکست نہیں کھاسکتے اور مسلمانوں کی کامیابی نظریات میں پوشیدہ ہے جو ناقابل شکست ہے، ہمیں اس نظریے کو عام کرنے کی ضرورت ہے جوہماری تحریک آزادی کی بنیاد بن کر دنیا کو حیران کر گیا اور وہ تھا ”دوقومی نظریہ ”کہ جو پاکستان کی اساس ہے۔جو کہ ہمہ گیر ہے اور مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے، آج کے دن خود سے عہد کرنا ہو گا کہ ہم اپنی سوچ کو غلامی کے شکنجے سے آزاد کروا کر ایک خود مختار قوم بنائیں گے، خود کو جابر حکمرانوں کی پوجا نہ کرنے کا عہد کریں گے، اپنے حقوق کی جنگ خود لڑیں گیاور دنیا کے سامنے عظیم قوم بن کر دشمن کے ناپاک ارادوں کو مسمار کریں گے، میری پاکستانی سیاستدانوں، دینی مذہبی جماعتوں کے قائدین، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب علم و دانش سے گذارش ہے کہ سب اختلافات اور باہمی تنازعات ختم کر کے کھلے دل، بیدار مغز، عقابی نظر، باہمی محبت اوررواداری کے ساتھ یک جان ہو کر دشمن اور دشمن کی سازشوں کو نہ صرف بے نقاب کریں بلکہ نیست و نابود کریں۔ پھر سے نظریہ پاکستان لاالہ الااللہ محمدرسول پر متفق و متحد ہوجائیں۔ آج ہمیں یہ عہد کرنا چاہیئے کہ ہم وطن عزیز کو قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال و دیگر مشاہیر تحریک آزادی کے افکار و نظریات کیمطابق ایک جدید اور اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے اور ہماری آنیوالی نسلیں ہمارا نام زندہ رکھیں گی اور فخر سے کہیں گی کہ یہ ملک حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا دیا ہوا تحفہ ہے جس میں حق وسچ، امن و امان، انصاف بلاتفریق، روزگار اور باعزت زندگی گزارنے کیلئے ہر کسی کو ذاتی چھت میسر ہے۔ یہ میرا پیار پاکستان علامہ اقبال ؒ کا خواب اور قائد اعظمؒ کا تصورِ پاکستان ایک ایسی آزاد مملکت کا قیام تھا جو خود مختار ہو، جہاں حقیقی جمہوری نظام قائم ہو، معاشی مساوات، عدل و انصاف، حقوقِ انسانی کا تحفظ، قانون کا احترام اور اَمانت و دیانت جس کے معاشرتی امتیازات ہوں۔ جہاں حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہوں، جہاں فوج آزادی و خود مختاری کی محافظ ہو، جہاں عدلیہ آزاد اور خود مختار ہو اور جلد اور سستے انصاف کی ضامن ہو۔ جہاں کی بیورو کریسی عوام کی خادم ہو،جہاں کی پولیس اور انتظامیہ عوام کی محافظ ہو۔ الغرض یہ ملک ایک آزاد، خود مختار، مستحکم، اِسلامی، فلاحی ریاست کے قیام کے لئے بنایا گیا تھا، لیکن آج ہمارا حال کیا ہے؟ ہم کہاں کھڑے ہیں؟