Buy website traffic cheap

عمرجان

نیامیں کئی ممالک کے ایوانوں میں تماشا دیکھنے کوملتاہے مگرسب سے پڑھے لکھے اورسلجھے ہوئے سیاستدان ہمارے پاکستان میں ہیں،محترم قارئین کچھ واقعات آپکی نظرکرناچاہوں گاجس کیلئے آپکی توجہ کاطالب ہوں 20 جنوری 2015 کھٹمنڈومیں نیپالی پارلیمنٹ میں نئے قومی دستور کے معاملے پر اسپیکر کا خطاب جاری تھا جب اپوزیشن اراکین نے احتجاجاً شور مچانا شروع کردیا۔ اس دوران کچھ ارکان پارلیمنٹ نے اسپیکر کی جانب بڑھنا چاہا تو سیکیورٹی اہلکاروں نے اسپیکرکے گرد حصار بنالیا۔ اس دوران ہنگامہ آرائی کے دوران 4 سیکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے۔26جنوری2017کوقومی اسمبلی کے اجلاس میں عمران خان کے خلاف نعرے بازی کی گئی جس کے بعد ہنگامہ آرائی شروع ہوگئیحکومتی اوراپوزیشن ارکان گتھم گتھا ہوگئے ۔یوان میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔ 14جولائی 2017 کوتائیوان کی پارلیمنٹ میں انفراسٹرکچر بل کے حوالے سے بحث جاری تھی کہ حکومتی اور اپوزیشن اراکین میں تکرار شروع ہو گئی اور معاملہ گرما گرمی سے بڑھ کر ہاتھا پائی تک جا پہنچا جب کہ اپوزیشن اراکین نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں بھی پھاڑ دیں۔ایوان میں بحث کے دوران اراکین نے ایک دوسرے کے خلاف دل کی خوب بھڑاس بھی نکالی۔
کچھ اراکین آپس میں دست و گریبان ہوئے تو کچھ نے ایک دوسرے پر کرسیوں سے وار کئے جب کہ اپوزیشن جماعت سے تعلق رکھنے والے کچھ اراکین نے بل پیش کرنے والے حکومتی رکن پر پانی کے غبارے بھی پھینکے۔ 30جون2020کوقومی اسمبلی کے اجلاس میں شدید گرما گرمی پیپلزپارٹی کے رہنما نوید قمر جذباتی ہو گئے۔ اپنے خطاب کےد وران کوٹ اتار کر پھیکنا اور چیلنج کرتے ہوئے کہا جو لڑنا چاہتا ہے سامنے آئے میں تیار ہوں ۔10 نومبر2020 کو آرمینیا کی پارلیمنٹ میں ہنگامہ گھڑا ہو گیا. پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس وقت شدید ہنگامہ آرائی ہوئی جب وہاں کے ممبران پارلیمنٹ نے حکومت کے سامنے شدید احتجاج کیا اور اپوزیشن جماعتوں کا کہنا تھا کہ آزربائی جان کے سامنے سرنڈر اور کیوں گھٹنے ٹیکے گئے . اس وجہ سے پارلیمنٹ میدان جنگ بن گیا 27 فروری2021کواسپیکر آغاسراج درانی کی زیر صدارت سندھ اسمبلی کا اجلاس جاری تھا اپوزیشن اور حکومتی ارکان میں سخت جملوں کا تبادلہ اراکین آپس میں گھتم گتھاسندھ اسمبلی میدان جنگ بن گئی۔2مارچ2021کوپی ٹی آئی کے ناراض اراکین اورپی ٹی ارکان کی سندھ اسمبلی میں سخت ہنگامہ آرائی ہوئی۔صدر پی ٹی آئی کراچی خرم شیر زمان سمیت پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی سے ناراض اراکین کی تلخ کلامی ہوئی۔
جس وجہ سے سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور اور پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ اپوزیشن کا حق ہے کہ بجٹ پر اعتراضات اٹھائے جسے منظور کیا جانا چاہئے۔ تاہم، اس کو پارلیمانی ضابطہ اخلاق کے مطابق مہذب اور جمہوری انداز میں انجام دیا جانا چاہئے پوری دنیا میں اپوزیشن احتجاج کرتی ہے حکومت کو بردباری کا مظاہر ہ کرنا چاہئیے۔قومی اسمبلی میں گذشتہ کئی دنوں سے انتشار اور افراتفری کی صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے جس کے باعث پارلیمنٹ ہاو¿س کی حرمت متاثر ہورہی ہے، وفاقی بجٹ پر تبادلہ خیال کے لئے ایک اجلاس طلب کیا گیا تھا لیکن اپوزیشن لیڈرشہبازشریف کی تقریر طویل ہونے پر حکومتی ارکان اسپیکر سے احتجاج کرتے رہے کہ اپوزیشن لیڈر کو تقریر ختم کرنے کا کہا جائے۔
جس پرسپیکر خاموش رہے اور اپوزیشن لیڈر نے اپنی تقریر جاری رکھی، جیسے ہی سپیکر نے اجلاس ملتوی کیا تو حکومتی ارکان نے اپوزیشن ارکان پربجٹ دستاویزات کے بھاری بھر کم بنڈل پھینکنا شروع کردیے جس پر اپوزیشن ارکان نے بھی بجٹ دستاویزات حکومتی ارکان پر پھینکنا شروع کردیں اس دوران ایوان میدان جنگ بن گیا، بجٹ دستاویزات لگنے سے قومی اسمبلی سیکیورٹی سٹاف بھی زخمی ہوا جبکہ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی کمر پر بھی بجٹ دستاویزات لگیںجس سے لڑائی میں مزید شدت آگئی،قومی اسمبلی کے مقد س ایوان میں دونوں اطراف سے ایک دوسرے کو غلیظ گالیاں دی گئیں۔ جبکہ حکومتی ارکان علی امین گنڈا پور،فہیم خان،پارلیمانی ملائکہ بخاری بجٹ دستاویزات آنکھ پر لگنے سے زخمی ہوگئیں،اپوزیشن لیڈر کی بجٹ تقریر کے دوران حکومتی اتحادی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں لاتعلق رہیں اور خاموشی سے اپنی نشستوں پر براجمان رہیں،حکومتی اور لیگی ارکان کے دوران جھڑپ میں دیگر جماعتوں کے ارکان نے بیچ بچاو¿کرایا،اجلاس ختم ہونے کے باوجود لیگی اور پی ٹی آئی ارکان کے درمیان جھڑپ جاری رہی۔
جس پر مجبوراً ایوان خالی کروانے کیلئے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو ایوان کی لائٹیں بند کرنی پڑیں جس کے بعد پی ٹی آئی اور حکومتی ارکان ایوان سے چلے گئے۔ حکومت نے اپنا تیسرا بجٹ منظور کیا،جس کو تاجر برادری کی جانب سے سراہا گیا، لیکن اپوزیشن کی جانب سے اسے مسترد کردیا گیا۔ حزب اختلاف کی دو اہم جماعتیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بجٹ کو منظور ہونے سے روکنے کا ارادہ کیا تھا۔ جب شہباز شریف نے تقریر شروع کی تو، اسمبلی اکھاڑے میں تبدیل ہوگئی۔
اور قانون دان آپس میں ایک دوسرے سے لڑ پڑے، منتخب وزرائکو عوام نے لڑتے جھگڑتے ہوئے دیکھا، اس دوران بجٹ کی کتابوں کو ایک دوسرے پر پھینکا گیا، تاکہ اس کا قوم کے سامنے مذاق بن سکے۔قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کا معاملہ طول پکڑ گیا۔ سپیکر نے ہنگامہ آرائی کرنے والے 7 ارکان کے ایوان میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی سپیکر سیکرٹریٹ نے کہا کہ جن اراکین پر پابندی لگائی گئی ہے۔
ان میں پی ٹی آئی کے علی نواز اعوان‘ عبدالمجید خان‘ فہیم خان ‘ مسلم لیگ ن کے شیخ روحیل اصغر‘ علی گوہر خان‘ چودھری حامد حمید اور پیپلز پارٹی کے آغا رفیع شامل ہیں۔مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی جانب سے اس واقعے کے لئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایاجارہا ہے، قومی اسمبلی کے اسپیکر نے سات ایم این ایز کو اگلے احکامات تک پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ یہ ناکافی ہوسکتا ہے کیونکہ جسمانی تشدد اور غنڈہ گردی کی کارروائیوں کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی اور اظہار میں مذمت کی جانی چاہئے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے سخت ایکشن لینا ضروری ہے۔قانون سازوں کو قومی ترقی کے اہم امور پر قانون سازی اور تبادلہ خیال کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔ کسی بھی رکن پارلیمنٹ کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر اس طرح کے اقدامات قابل قبول نہیں ہیں۔ شاید بہتر معنوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر اس طرح کے واقعات سیاست دانوں پر لوگوں کے اعتماد کو متاثر کریں گے، انہیں چاہئے کہ وہ اپنے معاملات کو سنجیدگی سے حل کریں۔