Buy website traffic cheap

تحریر: ساجد محمود/چراغ شب
قارئین سے گذارش ہے کہ اس تحریر کو عامیانہ و سطحی انداز کی بجائے سائنسی و فکری انداز سے پڑھا اور سمجھا جائے اورنہایت باریک بینی اور غوروفکر سے ہی آپ کسی نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں۔ آج مخلتف فورم پر کپاس کی ناکامی کا جگہ جگہ رونا رویا جا رہا ہے جتنے منہ اتنی بات کے مصداق ہر کوئی اپنی اپنی بندوقوں کا رخ کسی نہ کسی پر تانے کھڑا ہے، کوئی کہتا ہے کپاس کی ناکامی کی وجہ اچھے اور معیاری سیڈ کا نہ ہونا ہے، کسی کا کہنا ہے زرعی زہریں اور کھادیں دونمبر ہیں ،کوئی کہتا ہے ریسرچ ادارے ناکام ہو چکے، کچھ کہ کہنا ہے کپاس کی پیداواری لاگت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب اس فصل میں منافع نہیں رہا، اور کوئی کپاس کی ناکامی کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں ،نئی سیڈ ٹیکنالوجی کو اختیار نہ کرنا اور سفید مکھی اور گلابی سنڈی کو قرار دے رہا ہے۔ مختلف فورمز پرمذکورہ بالا باتوں اور کپاس سے مایوسی اور بد دلی پھیلانے کے پروپیگنڈے کےعلاوہ کپاس کی ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لئے ایک بھی عملی کام نظر نہیں آتا مگر یہ ایک عارضی فیز ہے جو بہت جلد ختم
ہو جائے گا۔یاد رکھئیے کپاس کی بربادی و ناکامی کی اصل وجہ یہاں کراپ زوننگ اور سیڈ زوننگ کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کا نہ ہونا ہے ،ہر بیج ہر علاقے اور آب و ہوا کے موافق نہیں ہوتا۔ایک اچھا اور معیاری بیج کو اس کی سیڈ زوننگ کے لحاظ سے ہی کاشت کرنا چاہئیے تاکہ وہ اچھی پیداوار دے سکے ،مگر ہمارے بریڈرز حضرات چند پیسوں کے لالچ میں ہر بیج کو ہر علاقے کے کاشتکار کو فروخت کر دیتے ہیں اور جب اس اچھے بیج سے اچھی پیداوار نہیں آتی تو کسان بیج کو غیر معیاری اور ناقص جعلی قرار دے دیتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ایک ہی قسم کا بیج اچھے و موافق علاقہ و آب وہوا میں بہترین پیداوار دیتا ہے جبکہ وہی بیج نا
موافق علاقہ اور آب وہوا میں بہت تھوڑی پیداوار دیتا ہے اس لئے بیج کی زوننگ کا انتخاب بہت ضروری ہے۔
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کپاس ایک صحرائی پودا ہے اور جہاں یہ کاشت ہوتا ہے اس کے ارد گرد اطراف میں اگر آبی فصلات گنا ،چاول ،مکئی اور دیگر فصلات کاشت کی جائیں تو ان آبی فصلات کی وجہ سے اس علاقہ میں ہیومیڈٹی بڑھ جاتی ہے جس کے باعث کپاس کی فصل پر کیڑے مکوڑوں کا حملہ بڑھ جاتا ہے یہی وجہ ہے سفید مکھی کے خلاف زرعی زہروں کے خلاف مزاحمت بڑھ گئی ہے مگر کاشتکار سمجھتا ہے کہ زہریں جعلی ہیں حالانکہ زہریں جعلی نہیں بلکہ کاٹن زون میں آبی فصلات کی وجہ سے پیسٹ پریشر بڑھ جانے سے اور ان کے خلاف باربارسپرے کے استعمال سے زہریں بے اثر ہو کر رہ گئی ہی۔ اگر کراپ زوننگ صحیح معنوں میں کی جائے تو اچھی پیداوارحاصل ہو سکتی ہے اور سفید مکھی کے خلاف زہریں بھی اچھا رزلٹ دے سکتی ہیں ،اسی وجہ سے ماہرین کافی سالوں سے کراپ زوننگ اور سیڈ زوننگ کا پرزور مطالبہ کرتے آئے ہیں ،امید ہے یہ بات کسان بھائیوں کو سمجھ آگئی ہو گی۔ مگر افسوس کہ کراپ زوننگ کے قوانین تو موجود ہیں لیکن اس کی عمل درآمد میں ایک طاقتور مافیا رکاوٹ ہے جو کاٹن زون میں گنے کی کاشت کا حامی ہے اورکاٹن زون میں شوگر ملوں کے قیام پر پابندی کے با وجود ملیں لگائے جا رہے ہیں۔ کاٹن زون میں آبی فصلات کے آجانے سے نہ صرف کپاس کا بہت سا رقبہ کم ہوا ہے بلکہ اس کی پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے اس وقت کپاس کے خلاف ایک مخصوص لابی کپاس کے ریسرچ اداروں کو خاص ٹارگٹ کر رہی ہے تاکہ کسانوں کا اعتماد ان اداروں سے اٹھ جائے تاکہ کسانوں کو اچھا سیڈ دستیاب نہ ہونے کا پروپیگنڈا کرکے کپاس کے کاشتکاروں کو مایوس اور بد دل کر دیا جائے اور وہ کاٹن زون میں اپنی مرضی
کی فصلات لگا سکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بیج کی کوالٹی سے متعلق ایشوز موجود ہیں لیکن یہ اتنا بڑا ایشو نہیں جتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ سیزن میں کچھ کپاس کے کاشتکار ایسے بھی ہیں جنہوں نے انہیں ریسرچ اداروں کے بیجوں کے ساتھ بہت اچھی پیداوار لی ہے اور بہت سے کسان اچھی پیداوار لینے میں ناکام بھی ہوئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں اس وقت نئی جین ٹیکنالوجی کی بھی ضرورت ہے جو ہماری مقامی کپاس کی اقسام میں استعمال ہوکرمزید اچھی پیداوار دے سکیں یہ کام حکومتی سطح پر ہونے کا ہے کسی ریسرچ ادارے کا نہیں۔ کپاس کی اچھی پیداوار لینے کے لئے اس کی کاشت سے پہلے زمین کا تجزیہ نہایت ضروری ہے تاکہ زمین کی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے اچھے کاشتکاری امور انجام دئے جا سکیں۔ ایک اور بات کرتا چلوں کپاس کے ریسرچ اداروں کے پاس محدود مقدار میں سیڈ موجود ہوتا ہے مگر باہر اس ادارے کے نام پر ہزاروں لوگوں کو لاکھوں ایکڑ کا ناقص اور جعلی سیڈ بیچا جا رہا ہوتا ہے جس سے نہ صرف ادارے کی مفت میں بدنامی ہوتی ہے بلکہ کاشتکار کا ادارے پر اعتماد بھی اٹھ جاتا ہے اس لئے کاشتکار ہمیشہ با اعتماد افراد سے یا ادارے سے خود جا کر صرف منظورشدہ اقسام ہی خریدیں اور کاشت کریں۔ کپاس کی منظورشدہ اقسام کی بجائے کپاس کی نئی لائنوں کی کاشت کی وجہ سے بھی کپاس کی پیداوار کا ستیاناس ہوا ہے اور اس جرم میں سیڈ مافیا تو ذمہ دار ہے ہی لیکن اس میں وہ کسان بھی ذمہ دار ہے جو لالچ میں آکر سیڈ مافیا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کپاس کی ناکامی کی ایک وجہ مل مالکان بھی ہیں مل مالکان ایک طرف تو کاٹن امپورٹ کرکے ملکی کپاس کا نقصان کررہے ہیں اور دوسری طرف ریسرچ اداروں کے کئی سالوں سے
اڑھائی ارب روپے ہڑپ کئے بیٹھے ہیں جس سے ریسرچ اداروں میں تحقیقی کام جمود کا شکار ہو کر رہ گیا ہے
اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے ہے پوری دنیا میں زرعی تحقیق پر اربوں ڈالرز خرچ کئے جا رہے ہیں اور پاکستان میں تحقیقاتی اداروں کے زرعی سائنسدان گزشتہ چھ ماہ سے تنخواہوں اور پینشنز تک سے محروم ہیں۔ چولہے پر رکھا ہوا گرم سرخ توا پانی کے چھینٹوں سے اس وقت تک ٹھنڈا نہیں ہوگا جب تک چولہے کے نیچے جلتی آگ کو نہ بجھایا جائے۔ اسی طرح آپ کپاس کے مسائل کے جتنے بھی حل ڈھونڈتے رہیں یہ اس وقت تک باآور ثابت نہ ہوں گے جب تک کپاس کے تحقیقی اداروں اور ان میں کام کرنے والے محققین کے بنیادی مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جاتا۔ افسوس تو اس بات کا ہے ریسرچ پر ایک روپیہ تک خرچ نہیں کیا جا رہا ہے مگر مطالبات و نتائج اعلی معیار کے مانگے جا رہے ہیں،حیرت ہے۔کوئی ایک بندہ بھی یہ بات نہیں کر رہا ہے کہ ریسرچ اداروں کے فنڈز کو بحال کیا
جائے اور زرعی ماہرین کو تنخواہیں دی جائیں مگر سب ادھر ادھر کی زبانی جمع خرچ باتوں میں مصروف ہیں۔
کپاس کی بحالی و ترقی کے لئے اس وقت ارباب اختیار کو چاہئیے کہ وہ فوری طور پر کپاس کی امدادی قیمت کم از کم 5500 روپے فی من مقرر کرے ،کراپ زوننگ قوانین پر سختی سے عمل کروائے ،کاٹن زون میں آبی فصلات کی کاشت کو رکوائے ،شوگرملوں کو کاٹن زون سے نکالا جائے، نئی سیڈ/ جین ٹیکنالوجی کے لئے غیرملکی معروف کمپنیوں سے فوری طور پر معائدہ کرکے انہیں ریسرچ اداروں کو مہیا کی جائے تاکہ تحقیقاتی ادارے جین ٹیکانلوجی کو اپنی تیار کردہ مقامی اقسام کے ساتھ استعمال میں لا کر کاشتکاروں کو بہتر سے بہتر اقسام مہیا کر سکیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ہماری موجودہ کپاس کی اقسام میں پیداواری پوٹیشنل نہیں ہے یا یہ اقسام پیداواری صلاحیت کھو بیٹھی ہیں ایسی ہرگز کوئی بات نہیں ہے یہ محض کپاس اور ریسرچ اداروں کو بدنام کرنے کے لئے مافیا کا ایک پروپیگنڈا ہے۔ اگر ارباب اختیار صرف کراپ زوننگ اور سیڈ زوننگ پر ہی ٹھیک نیت کے ساتھ مکمل عملدرآمد کروا دیں تو موجودہ حالات میں بھی ہم بمپر کراپ حاصل
کر سکتے ہیں۔