Buy website traffic cheap

ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب

کمپٹیشن کمیشن، کارٹیلائزیشن اور ڈیر ی ایسوسی ایشن

ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
جب خود انتظامیہ دودھ کی قیمت فکس کرتی ہے تو پھر کمپٹیشن کا سوال کہاں سے پیدا ہو گیا اور پھر پرائس فکسیشن پر کارروائی کا معاملہ کہاں سے آگیا!
پاکستان بھر کے ڈیری فارمرز کا تو مطالبہ ہی یہی رہا ہے کہ پرائس کو ڈی کیپ کیا جائے تاکہ مارکیٹ میں کمپٹیشن کی فضا قائم ہو اور جس کے پاس جس معیار کا دودھ ہو وہ اس کے مطابق قیمت وصول کرے۔ کراچی میں دودھ کی قیمت کا مسئلہ بھی اسی تناظر میں سامنے آتا ہے۔
کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ڈیری فارمرز ایسوسی ایشنز پر جو کارٹیلائزیشن کا الزام لگایا جا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ ایسوسی ایشنز کی جانب سے دودھ کے ریٹ کا اعلان کرنا ہے۔ لیکن یہاں یہ پہلو واضح رہنا چاہئے کہ ایسوسی ایشنز اس ریٹ کا اعلان حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ریٹ کے رد عمل میں احتجاجاََ کرتی ہیں کیونکہ انہیں حکومت کے مقرر کردہ ریٹ پر اعتراض ہوتا ہے۔
2018 کے بعد سے دودھ کے ریٹ کو کراچی انتظامیہ کی جانب سے ریوائز نہیں کیا گیا۔ مہنگائی کی شرح کو اگر مدنظر رکھا جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ چار سال سے پہلے کے مقرر کردہ ریٹ پر دودھ فروخت ہوتا رہے۔ یقیناََ اس دوران کاسٹ آف پروڈکشن میں اضافے کے باعث دودھ کی قیمت میں اضافے کا مطالبہ جائز ہے۔ لہٰذا دودھ کی قیمت کا سرکاری سطح پر اعلان تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے پیداواری لاگت کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنا چاہئے۔
دوسری جانب آپشن یہ ہے کہ اگر حکومت عوام کو سستا دودھ فراہم کرنا چاہتی ہے تو اس پر سبسڈی دے ۔ اس حوالے سے ڈیری فارمرز پر بوجھ ڈالنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ تیسری آپشن یہ ہے کہ حکومت دودھ کی قیمت کو ڈی کیپ کرے اور ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کی بنیاد پر مارکیٹ فورسز کے تحت دودھ کو فروخت ہونے دے۔ اس سے معیار، مقدار اور قیمت تینوں پہلوﺅں کے حوالے سے کمپٹیشن بحال ہو گا۔
موجودہ صورتحال میں جب مارکیٹ میں کمپٹیشن موجود ہی نہیں تو پھر کمپٹیشن کی بنیاد پر متعلقہ ادارے کی کارروائی بھی مناسب نہیں۔ ہاں اگر حکومت کی مقرر کردہ قیمت پر دودھ فروخت نہیں ہو رہا تو اس پر انتظامیہ قوانین کے مطابق کارروائی کرے اور اس حوالے سے فارمرز اپنا موقف پیش کریں۔
کمپٹیشن کمیشن کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ فارمرز کی جانب سے دودھ کی قیمت میں اضافے سے روزانہ کی بنیاد پر 130 ملین روپے اور سالانہ 47 ارب کا نقصان صارفین کو ہو رہا ہے۔ یہاں کمیشن کی انکوائری کمیٹی اگر پرائس کیپنگ اور انفلیشن جیسے پہلوﺅں کو مد نظر رکھے تو پھر گزشتہ کئی سالوںسے روزانہ کی بنیاد پر فارمرز کومجموعی طور پر اربوں روپے کا جو نقصان ہو رہاہے اس کا ذمہ دار کون ہے۔ یقیناََ مہنگائی کی شرح میں اضافے سے دودھ کے پیداواری اجزاءکی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس سے دودھ کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے۔ دوسری جانب جب حکومت کی جانب سے پرائس فکس کی جاتی ہے تو فارمر کو پیداواری لاگت سے کم ریٹ پر دودھ فراہم کرنا پڑتا ہے جس سے وہ نقصان اٹھاتا ہے۔ اگر صارف کے حقوق کا خیال ہے تو فارمرز کے حقوق بھی موجود ہیں، اگر کنزیومر ویلفیئر کی فکر ہے تو فارمر ویلفیئر بھی کوئی چیز ہے۔
پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کراچی میں دودھ کی قیمت باقی شہروں کے مقابلے میں بڑھی۔ اس حوالے سے اگر تھوڑی سی سٹڈی کر لی جائے تو واضح ہو جائے گا کہ کراچی میں دودھ کی پیداواری لاگت پنجاب کے بڑے شہروں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
یہاں اس پہلو کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ جس سطح کی بات ہو رہی ہیں یہاں نہ تو ڈیری فارمنگ میں کوئی کارپوریٹ گروپ ہے اور نہ ہی یہ کارپوریٹ سٹائل پر کاروبار کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ ایسوسی ایشنز کارپوریٹ گروپس کی ایسوسی ایشنز کی طرح منظم بھی نہیں۔ ایک ہی شہر میں کئی ایسوسی ایشنز مل جائیں گی اور ایک ہی ایسوسی ایشن میں کئی دھڑے بھی پائے جائیں گے۔
ان فارمرز کو تو کارٹیلائزیشن کا علم بھی نہیں ہو گا کہ یہ کیا بلا ہے۔ یہ تور وایتی انداز میں اپنے روایتی طریقوں سے کاروبار کر رہے ہوتے ہیں۔کراچی جیسے شہر میں بھی روایتی انداز ہی سے ڈیری فارمنگ کا کاروبار ہو رہا ہے جس میں دہائیوں سے ©©”بندھی“ کے ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد پر منڈی کا دخل ہوتا ہے۔ بندھی فارمر اور ریٹیلر کا آپس کا معاملہ ہے جہاں ایک مخصوص ریٹ پر سارا سال دودھ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ کام عام طورپر دیگر کاروباروں میں بھی روایتی طور پر ہوتا ہے۔ دوسری جانب منڈی کا ریٹ روزانہ کی بنیاد پر ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے تحت طے پاتا ہے۔
رہا معاملہ کہ دودھ کی قیمت کو کیسے کم کرنا ہے، تو گزارش ہے کہ اگر مہنگائی ہو گی تو اس کا اثر دودھ پر بھی پڑے گا۔ اگر دودھ کو پیداواری لاگت سے کم ریٹ پر بیچنے پر مجبور کیا جائے گا تو فارمر چیخے گا۔ کمپٹیشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ مارکیٹ میں کمپٹیشن کی فضا کو بحال رکھے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ کسی بھی سطح پر دودھ کی پرائس فکسیشن کو روکا جائے اور دودھ کی قیمت کو مارکیٹ فورسز کے تحت ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے اصول پر چلنے دیا جائے۔ اس کے بعد اگر کسی جگہ قیمت پر منظم انداز میں کوئی اثر انداز ہو تو اس پر ضرور کارروائی کی جائے۔