Buy website traffic cheap


گھریلو ناچاقیوں میں زبان کا کردار

تحریر: افضال احمد
حکیم لقمان سے ان کے آقا نے کہا ایک بکری ذبح کرکے اس کے بہترین حصے کا گوشت لے آﺅ‘ وہ ذبح کرکے ”دل“ اور ”زبان“ لے آئے۔ پھر کہا ایک اور بکری ذبح کرکے اس کا بدترین گوشت لے آﺅ وہ دوبارہ ”دل“ اور ”زبان“ لے کر آگئے۔ مطلب یہ تھا کہ یہ حصے جتنے اچھے ہیں ہماری لاپروائی سے اتنے ہی بُرے بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ ”زبان“ جسم کا نازک ترین عضو ہے لیکن گوشت کے اس چھوٹے سے لوتھڑے نے دنیا میں جو قیامتیں ڈھائیں ہیں اور انقلاباتِ زمانہ کو جنم دیا ہے اس کی تاریخ بہت طویل اور حیران کن ہے۔
زبان قوت گویائی کا وسیلہ ہے اور یہی چیز اسے ایک اشرف عضو کا درجہ دیتی ہے۔ اس کے ذریعہ ہم اپنے خیالات و احساسات دوسروں تک پہنچاتے ہیں‘ ذائقوں کا مزہ اُٹھاتے ہیں‘ یہی زبان ہمیں موت کا پیغام بھی دیتی ہے اور زندگی کی نوید بھی سناتی ہے ہمیں زخمی بھی کرتی ہے اور ہمارے زخموں کا مداوا بھی کرتی ہے۔ زبان سے آپ اچھی باتیں کر کے کسی کا دل جیت سکتے ہیں اور کسی کو گالم گلوچ اور دل دکھانے والی باتیں کرکے دل آزاری بھی کرتے ہیں۔ یہی زبان آپ کو امید دلاتی ہے اور آپ کی امیدوں کو خاک میں بھی ملاتی ہے۔
زبان کے کرشمے اتنے گونا گوں اور وسیع ہیں کہ انہیں زندگی کے ہر ہر مرحلے پر اور ہر شعبے میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ زبان کے گھاﺅ جو تلوار کے زخم سے بھی زیادہ گہرے ہیں اور جن سے ہمارے معاشرے میں کروڑوں انسان مختلف مسائل کا شکار ہیں آپ بھی اگر کسی ”زبان“ کے زخم خوردہ ہیں تو کبھی کبھی رات کی تنہائیوں میں اس کا درد ضرور محسوس کرتے ہوں گے‘ ہماری زبان کے یہ وار معاشرے کے کئی دلچسپ پہلوﺅں کی عکاسی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں زبان انسان کی بہترین دوست ہے لیکن کبھی کبھی بدترین دشمن ثابت ہوتی ہے۔ بزرگوں کا قول ہے ‘ پرانے وقت کے بزرگوں کا قول ہے :جب تک زبان آپ کے قابو میں ہے یوں سمجھیں کہ تلوار نیام میں ہے‘ جونہی آپ نے کوئی لفظ بولا یہ تلوار دوسرے کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے‘ معذرت سے آج کل کے 90 فیصد بزرگ بھی اپنی زبان کا غلط استعمال کر رہے ہیں‘ چند بزرگ تو اپنے بیٹے‘ بیٹیوں کا گھر برباد کرنے میں بہت معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
حضرت امام غزالیؒ نے ”منہاج العابدین“ میں زبان کی آفات کے باب میں ایک حدیث کا خلاصہ نقل کیا ہے ”جب انسان صبح کرتا ہے تو بدن کے تمام اعضاء(ایک طرح گویا ہاتھ جوڑ کر) زبان سے عرض کرتے ہیں کہ تُو ہمارے معاملے میں خیال رکھیو ہمارا صحیح استعمال تیرے صحیح استعمال پر موقوف ہو گا“۔ میرا علم ناقص ہے لیکن ”علماءکرام“ بہتر جانتے ہیں۔ میرا تو مقصد صرف معاشرے کی اصلاح کرنا ہے جانے انجانے میں غلط بات بھی لکھ سکتا ہوں اپنے قارئین سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے مضامین پر عمل ضرور کیا کریں اور ”نماز“ کے پابند ہو جائیں میں نہیں چاہتا کہ میرے قارئین دنیا تو سنوار لیں اور آخرت میں پھنس جائیں کیونکہ نماز کی معافی نہیں ہے۔ اس لئے سب بھائی‘ بہنوں اور خاص طور پر بزرگوں سے گزارش ہے کہ نماز کی پابندی کریں اور دل سے میرے لئے دعا کیا کریں‘قارئین سے کہنا چاہوں گا آپ اس اخبار کو باقاعدگی سے خریدا کریں اس اخبار نے مجھے لکھنے کیلئے معقول جگہ دی ہے انشاءاللہ یہ اخبار آپ کی اصلاح کا باعث بنے گا۔
بات چل رہی تھی زبان کی تو میں یہاں زبان کی طاقت کیا ہے؟ اس کی ایک مثال سے وضاحت کرتا ہوں ”میاں بیوی کے درمیان نکاح ہوتا ہے ‘میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے جائز ہو جاتے ہیں جیسے ہی شوہر اپنی بیوی کو تین دفعہ طلاق‘ طلاق‘ طلاق کہہ دیتا ہے تو یہ میاں بیوی چاہے برسوں سے ساتھ تھے ایک دوسرے پر حرام ہو جاتے ہیں“۔ ہم جانے انجانے میں روزانہ اپنی زبان سے لوگوں کا دل دکھاتے ہیں لوگوں کو گالیاں دیتے ہیں‘ غیبت کرتے ہیں‘ دفاتر میں بیٹھے ایک دوسرے کی پیٹھ پیچھے برائیاں کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آج کل کی نوجوان نسل شادی کے بے جا رسم و رواج کیلئے پیسہ جمع نہیں کر پاتی تو وہ پھر کیا کرتے ہیں؟ فون کا غلط استعمال کرتے ہیں نوجوان لڑکے لڑکیاں آج کل فون پر جیسی زبان استعمال کر رہے ہیں ایسی زبان تو میاں بیوی کے درمیان کرنا بھی شاید جائز نہیں۔ بات فون سے حقیقت میں ملنے تک بھی آجاتی ہے اور یہ سب زبان کا غلط استعمال ہے جس سے جسم کے دوسرے اعضاءبھی گنہگار ہو جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ زبان کی طاقت صرف ”طلاق“ تک محدود نہیں باقی سب (جھوٹ ‘ غیبت‘ بات بات پر گالم گلوچ‘ فون پر غلط بات وغیرہ وغیرہ) ان سے بھی روکا گیا ہے اور جو گناہ ان چیزوں کے بارے بتائے گئے ہیں مل کر رہیں گے۔
آج کے برق رفتار دور میں زبان کا جتنا غلط استعمال ہو رہا ہے شاید ہی کسی اور چیز کا غلط استعمال ہو رہا ہو۔ گھریلو ناچاقیاں کیا ہوتی ہے؟ یہ زبان کی وجہ سے ہی پیدا ہوا کرتی ہیں‘ ساس‘ بہو‘ نند‘ بھابی‘ دیورانی‘ جیٹھانی یا گھر میں جو بھی مرد موجود ہیں آپس میں حالات کب خراب ہوتے ہیں؟ جب انسان اپنے گھر میں غلط بات کرتا ہے یہاں سے گھریلو ناچاقیاں جنم لیتی ہیں اور جن گھروں میں گھریلو ناچاقیاں جنم لیتی ہیں اُن گھروں میں خود کشیاں یا موت کا بازار گرم رہتا ہے ‘ ہاں جب گھریلو ناچاقیوں کے باعث بہت سے لوگ خودکشیاں کر لیتے ہیں تو ان کے پیچھے جو موجود لوگ ہوتے ہیں جن کی ”زبان“ سے نکلی بات کی وجہ سے یہ خودکشی ہوتی ہے وہ ضرور پچھتاتا ہے اور کہتا ہے ”کاش میں نے اپنی زبان“ کو کنٹرول میں رکھا ہوتا تو آج یہ زندہ ہوتا۔تو بھئی! کاش کو اپنی زندگیوں سے نکال باہر پھینکوں اپنی زندگیوں کو بدلوں اپنی ”زبان“ پر کنٹرول رکھو یہ زبان ہی آپ کے گھروں کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔
طلاقوں کی شرح میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہ کیا ہے؟ یہ سب کچھ زبان کے غلط استعمال کی وجہ ہے۔ ساس کو بہو نہیں بھاتی بہو کو ساس نہیں بھاتی‘ دیورانی کو جیٹھانی نہیں بھاتی ’مرد“ بیچارا سارا دن لوگوں کی باتیں سن سن کر برداشت کرکے روزی روٹی کما کر گھر آئے تو آگے گھر کی خواتین اُس مرد کو ایک دوسرے کی شکایتیں لگاتی ہیں‘ ماں بیٹے کو کہتی ہے ”تیری بیوی تو سارا دن سوتی ہے کوئی کام نہیں کرتی‘ اسے تو تیری بوڑھی ماں کی بھی فکر نہیں“ بیوی شوہر کو الگ سے پورے گھر والوں کی شکایتیں لگاتی ہیں تو ایک مرد کہاں جائے؟ مرد کی کون سنتا ہے؟ عورت کو تو اقوام متحدہ تک سپورٹ حاصل ہے۔ مرد کی جب کوئی سننے والا ہے ہی نہیں نہ کوئی ایسا ادارہ قائم ہے جو اس بے چارے کی سنے آخر کار پھر مرد کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ان سب فسادات کی جڑ ”زبان“ ہے اپنے گھروں‘بازاروں‘ دفاتر میں زبان پر قابو رکھیں کسی کا دل مت دکھائیں۔
اللہ کی قسم اگر گھر کی خواتین اپنی زبان پر کنٹرول رکھ لیں تو گھریلو حالات ٹھیک ہو جائیں۔ تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں صرف حوا کی بیٹی کو ہی مظلوم سمجھا جاتا ہے‘ عورت اپنی زبان سے جھوٹ بھی کہے تو اُسے سچ سمجھا جاتا ہے اور مرد اپنی زبان سے سچ بھی کہے تو جھوٹ سمجھا جاتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ عورتوں پر بھی بہت تشدد ہو رہا ہے لیکن یہ تشدد شہروں میں بہت ہی کم ہے لیکن جب عورت کے حق میں قانون بنائے جاتے ہیں تو اُس قانون کا زیادہ فائدہ شہر کی پڑھی لکھی خواتین ہی اُٹھاتی ہے‘ دیہات کی تشدد زدہ خاتون کیلئے اُس کے مرد کا قانون ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ عورتیں مردوں کے آگے زبان درازی سے باز نہیں آرہیں‘ میں یہاں یہ ضرور کہوں گا کہ مرد کسی بھی عورت کا دشمن نہیں ہوتا‘ عورت ہی عورت کی دشمن ہے مرد عورتوں کی باتوں میں آکر کسی عورت کو نقصان ضرور پہنچا سکتا ہے لیکن اپنی ”سوچ“ سے کسی عورت کو نقصان نہیں پہنچائے گا اگر ایک مرد کسی عورت کو نقصان پہنچاتا بھی ہے تو اُس نقصان کے پیچھے سوفیصد کسی نا کسی عورت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے چاہے وہ عورت ماں‘ بہن‘ ساس‘نند‘ دوسری بیوی یا جو بھی ہو۔